فاتح کون؟

ایم جے گوہر  ہفتہ 16 فروری 2013
 mjgoher@yahoo.com

[email protected]

عام انتخابات میں صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے حوالے سے ملک کے چاروں صوبوں میں چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے درمیان انتخابی معرکہ آرائی کی اہمیت اپنی جگہ تاہم وفاق کی سطح پر ایک مستحکم جمہوری حکومت بنانے کے لیے ملک کے دو اہم صوبوں پنجاب اور سندھ میں ہونے والے انتخابی دنگل پر تمام سیاسی مبصرین و تجزیہ نگاروں کی نظریں لگی رہتی ہیں، بالخصوص ملک کی دو اہم اور بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے درمیان ہونے والی انتخابی معرکہ آرائی کے نتائج سے قومی اسمبلی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا فیصلہ ہوتا ہے۔

کم و بیش یہی صورت حال ہم 2013 کے مجوزہ عام انتخابات کے حوالے سے بھی دیکھ رہے ہیں۔ تازہ صورت حال میں بھی پی پی پی اور ن لیگ نے سندھ اور پنجاب میں اپنی اپنی پوزیشن مضبوط بنانے اور زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی شروع کردی ہے، سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آرہی ہے، مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سیاست کو اپنا دین و ایمان سمجھتی ہے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کو اپنا ’’سیاسی قلعہ‘‘ قرار دیتی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب ن لیگ کے ہاتھ میں ہے، لیکن دیگر تینوں صوبوں سندھ، پختونخوا اور بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی وہ حیثیت نہیں ہے، وہاں اس کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہے، محض پنجاب تک زیادہ اثر حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کو مبصرین و تجزیہ نگار ایک قومی سیاسی جماعت کا درجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔

جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو کوئی دو رائے نہیں کہ یہ عوامی سطح پر ملک کی سب سے زیادہ مقبول سیاسی جماعت ہے جو نہ صرف پنجاب بلکہ سندھ، پختونخوا اور بلوچستان میں بھی اپنا مضبوط بینک اور وسیع حلقہ اثر رکھتی اور چاروں صوبوں میں اسے ہر دوسری سیاسی جماعت پر واضح برتری حاصل ہے۔ گزشتہ تمام عام انتخابات میں چاروں صوبوں میں پی پی پی کے امیدوار کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں، اسی باعث پیپلزپارٹی کو ایک باوقار قومی سیاسی جماعت کا درجہ حاصل ہے۔ آپ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ جن سیاسی جماعتوں کے بانی رہنما و قائد ایک واضح سیاسی نظریہ اور وژن رکھتے ہیں اور عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے ایک جاندار منشور اور ملکی مفاد، سلامتی اور ترقی و خوشحالی کے ضمن میں جامع پروگرام رکھتے ہیں اور پوری سنجیدگی و دیانتداری کے ساتھ اسی پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ صادق ان کے سینوں میں موجزن ہے، بس وہی سیاسی جماعتیں دہائیوں پر دہائیاں گزرنے کے باوجود نسل در نسل عوامی سطح پر اپنی مقبولیت، پذیرائی، تائید و حمایت اور اپنا حلقہ اثر رکھنے اور اسے مزید وسعت دینے میں کامیاب رہتی ہیں۔

آپ صرف برصغیر جنوبی ایشیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں جہاں سیاسی جماعتوں کے بانی رہنماؤں کے منظر سے ہٹ جانے کے باوجود ان کے خاندان کے دیگر افراد نے پارٹیوں کو نہ صرف ٹوٹنے سے بچایا بلکہ اپنے اکابرین کے مشن کو لے کر آگے بڑھتے اور عوامی حمایت سے مزید کامیابیاں حاصل کرتے گئے، پڑوسی ملک بھارت میں کانگریس کی قیادت جواہر لال نہرو سے شروع ہوکر اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی سے ہوتی ہوئی اب اسی خاندان کی اطالوی نژاد بہو سونیا گاندھی، سری لنکا میں بندرا نائیکے خاندان سیاست پر چھایا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے 1971 میں دولخت ہونے والے پاکستان کے مشرقی بازو بھی آج کے بنگلہ دیش میں چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اس کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمن کے خانوادے کا سیاسی اثر و رسوخ شیخ حسینہ واجد کی شکل میں پوری طرح موجود ہے۔

وطن عزیز میں پیپلز پارٹی ہی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو ہزارہا سازشوں اور جبر و ستم کے باوجود گزشتہ چار دہائیوں سے ملکی سیاست میں سب سے نمایاں مقام پر براجمان چلی آ رہی ہے، اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ایک مضبوط اور واضح سیاسی فکر و فلسفے کے حامل مدبر سیاستدان تھے، وہ نہ صرف ملک کے چاروں صوبوں کے عوام میں ہردلعزیز اور مقبول ترین سیاسی رہنما تھے بلکہ عالمی سطح پر بھی انھیں اسلامی ملک کے ایک اہم، قابل، سنجیدہ اور قدآور رہنما کی حیثیت سے بلند مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی کی باگ ڈور ان کی لائق بیٹی محترمہ بے نظیربھٹو کے ہاتھ میں آئی، جنہوں نے مصائب و آلام کے باوجود چاروں صوبوں میں پارٹی کو منظم و مضبوط کیا، انھیں چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا ہے، محترمہ دو مرتبہ اقتدار میں آئیں لیکن محلاتی سازشوں کے باعث دونوں مرتبہ انھیں اقتدار سے بے دخل کردیا گیا۔

دسمبر 2007 میں ان کی شہادت کے بعد ان کے شوہر آصف علی زرداری صاحب نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور 2008 کے انتخابات میں چاروں صوبوں میں نمایاں کامیابی اور وفاق میں حکومت قائم کرکے ثابت کردیا کہ پی پی پی آج بھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جو مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتی ہے اور عوام کا اعتماد و تائید اسے حاصل ہے۔ اب آیندہ انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے لیے پیپلزپارٹی صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں تیاریاں کر رہی ہے، لاہور کے نوتعمیر بلاول ہاؤس میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے اس مرتبہ پنجاب میں ن لیگ کے ’’سیاسی قلعے‘‘ میں دراڑیں ڈالنے کے لیے گورنر پنجاب احمد محمود، پی پی پی پنجاب کے صدر منظور وٹو اور (ق) لیگ کے چوہدری برادران کا ’’ٹرائیکا‘‘ صدر زرداری کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کرے گا۔

جہاں تک مسلم لیگ کا تعلق ہے بلاشبہ اس کے بانی رہنما قائداعظم جیسی عظیم المرتبت شخصیت تھے، لیکن ان کے جانے کے بعد مسلم لیگ کا حال ’’جوتیوں میں دال بٹنے‘‘ والے محاورے کی طرح ہوا، کوئی وژنری رہنما مسلم لیگ کو میسر نہ آسکا، قائد کی مسلم لیگ کے بطن سے درجنوں مسلم لیگوں نے جنم لیا، لیکن کسی بھی دھڑے کو قومی سیاست میں نمایاں مقام نہ مل سکا، کیونکہ مسلم لیگ پر قبضہ گروپ حاوی رہا، جو سیاسی فکر اور نظریے سے عاری تھا۔ آج مسلم لیگ ن سندھ میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔