پارلیمنٹ کی بالادستی یا مضبوطی

جاوید قاضی  جمعرات 24 اگست 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

اچکزئی صاحب کی پارلیمنٹ میں تقریر کے بہت سے زاویے ہوں گے، اس حوالے سے بحث کسی اور دن ہو سکتی ہے لیکن ان کا ایک خیال کہ پارلیمنٹ کو مضبوط کیا جائے یا ایسے تمام سیاستدان جو کہ اْن کی رائے سے متفق ہیں، ان کوآئین کے اصولی پیمانوں کے پسِ منظرمیں آئین کو سمجھنا ہو گا۔ اچکزئی صاحب جب یہ بات پارلیمنٹ میں کہہ رہے تھے، اْسی دوران کورکمانڈرز اپنی میٹنگ میں آئین کی بالادستی کی بات کر رہے تھے۔ ماضی میں جنرل مشرف آئین کی اہمیت کو ثانوی حیثیت دینے کے لیے سب سے پہلے ’’پاکستان‘‘ کی بات کرتے تھے۔ اْن کوکرنی بھی چاہیے تھی اس لیے کہ انھوں نے آئین توڑا تھا۔ جنرل ضیاء الحق آئین کو چند کاغذوں کا پلندہ کہتے تھے جو کسی بھی وقت ردی کی ٹوکری میں پھینکا جا سکتا ہے اور نواز شریف یہ فرما رہے تھے کہ سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی JIT سے عوام کی JIT بڑی ہے تو اْس کے پیچھے کیا مقصد تھا؟

ہم دراصل اپنے مفادکو اولین ترجیح دیتے ہوئے حقیقت کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حقیقت ہم سے ہمیشہ دور رہتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ موجودہ حقائق کے پیشِ نظر یہ محسوس کرتی ہے کہ سسٹم کو ڈی ریل نہیں کیا جا سکتا اور اسی لیے وہ آئین کی بالادستی کی بات بھی کرتے ہیں۔ میرا مقصد کسی کی نیت پر شک کرنا نہیں مگر آئین کی بالا دستی میرا بنیادی نکتہ ہے اور یہ اصول دنیا کی ماڈرن ریاستوں کی کرنسی ہے۔

یوں تو پہلے پاکستان بنا تھا اور پھر 1973ء میں تمام فطری اور ماڈرن تقاضوں کو پورا کرتا ہوا آئین ملا۔ اب پاکستان ہمارے آئین کے اندر موجود ہے، آئین سے باہر نہیں۔ یہی اصول امریکا، فرانس اور دنیا کی دیگر مہذب ریا ستوں میں رائج ہے۔

پارلیمنٹ اور قانون کی بالا دستی میں کیا فرق ہے؟ قانون کی بالادستی سے عملی طور پرکورٹ بڑی ہوتی ہے۔ یوں تو قانون بناتی پارلیمنٹ ہے یا آئین میں ترمیم کا حق بھی رکھتی ہے لیکن یہ دیکھنا ہے کہ قانون یا ترمیم صحیح ہے یا کہ غلط اْس پر حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کا ہو گا۔ اس طرح غیر تحریری طور پر پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ زیادہ طاقتور ہو جاتی ہے۔ میں نے کہیں پہلے بھی لکھا ہو گا کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ تحریری طور پر آئین کا حصہ نہیں ہوتا اور آئین کا بنیادی ڈھانچہ تب واضح ہوتا ہے جب لیگل فریٹنٹی مل کر جدوجہد کرتی ہے اور سماجی ارتقاء کی منزل تک پہنچتی ہے۔ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا بنیادی نکتہ یا اصول یہ ہے کہ عدالت پارلیمنٹ کو بے دریغ ترامیم کرنے سے روکے اور خاص کر ایسی ترامیم جو آئین کی اصل شکل کو مسخ کر دیں اور اِسی عمل سے عدلیہ کی آزادی کا تعین بھی ہوتا ہے۔

اچکزئی صاحب سے سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی سے ان کا واضح مقصد کیا ہے؟ کیا وہ اس بات کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ بڑی ہے اور عدالت اس کے ماتحت ہے تو کیا ان کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ آئین سے بھی اونچا درجہ رکھتی ہے۔

عدلیہ کی آزادی کی پہلی سیڑھیJUDICIAL ACTIVISM ہے۔ یعنی عدلیہ اپنےPOWER OF INTERPRETATION کا بے دریغ استعمال کرتی ہے اور یوں کرتے ہوئے عدلیہ اپنی حدود سے تجاوزکرتی ہے، لیکن ارتقاء کے مراحل میں اپنا ادارک بھی خود یہیJUDICIOUS MIND ہی کرتا ہے۔

کیونکہ شعور کے اعتبار سے کسی بھی معاشرے میں ایڈوانس تھنکنگ حلقہ، لیگل فریٹنٹی ہو تا ہے۔ تو اچکزئی صاحب! پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں ہی بڑے ادارے ہیں اِن میں سے کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں۔ اِن دونوں اداروں سے کوئی بڑا اگر ہے تو وہ ہے آئین۔ نہ نیا آئین کورٹ بنا سکتی ہے نا ہی پارلیمنٹ۔ آئین بنانے کا مینڈیٹ صرف 1971ء کی اسمبلی کے پاس تھا جس کوآئین ساز اسمبلی کہا جاتا تھا۔ 1973ء میں پاکستان کو ایک مکمل آئین ملا اور اس طرح پاکستان کی بہ حیثیت فیڈریشن تشکیل ہوئی اور پہلی مرتبہ BI CAMERAL پارلیمنٹ بنی۔

میرے کسی کالم میں اس بات کا حوالہ پہلے سے موجود ہے کہ جب لاہور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ آرٹیکل2- A SUPRA CONSTITUTIONAL  ہے تو اْس کو رد کرنیوالی بھی سپریم کورٹ ہی تھی۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے یہ فیصلہ دیا کہ اگر آرٹیکل SUPRA CONSTITUTIONAL  2- A مان لیا جائے تو آئین وہیں ختم ہو جائے گا اور اس طرح سپریم کورٹ نے اپنی حدود کو آئین کے تابع رکھا۔ ماڈرن دنیا میں تاریخی اعتبار سے عدلیہ، مقننہ اور پارلیمنٹ آپس میں اْلجھتے رہے ہیں اور ایک لحاظ سے یہ فطری عمل بھی ہے، اگر پاکستان کی پارلیمنٹ کسی وجہ سے کمزور ہے تو اْس کا سبب پاکستان کا کمزور سیاسی ڈھانچہ WEAK POLITICAL STRUCTURE ہے۔ کیونکہ اِن ایوانوں میں لوگوں کا ایک مخصوص طبقہ ہی بیٹھ سکتا ہے ہمارا ووٹ سسٹم اب بھی برادری اور پنچایتی طبقوں میں منقسم ہے۔ اندازہ اس بات سے لگایے کہ تیس ارب روپے جو ممبران قومی اسمبلی میں ترقیاتی اسکیمزکے لیے مختص تھے وہ ڈیڑھ مہینے میں ہی خرچ کر دیے گئے کیونکہ الیکشن قریب ہیں۔ پاکستان میں کمزورگورننس اورکرپشن کے دو اسباب ہیں ایک سیاسی حکومت جو ممبران پارلیمنٹ سے بنتی ہے اور دوسرے افسرِ شاہی جو کہ سیاسی حکومت کے تابع ہے۔ جمہوریت کا ارتقاء پارلیمنٹ کی مضبوطی کو یقینی بناتا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ایک عام آدمی پارلیمنٹ کا ممبر بنے، جب ووٹ دینے والے کی شعوری سطح معیاری ہو۔

اچکزئی صاحب اپنی تقریر میں پارلیمنٹ کےFAILURES کا ذمے دار دوسرے اداروں کو ٹھہرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کا ایک تاریخی پہلو بھی ہے جس کی وجہ سے ان کی بات میں وزن بھی تھا، لیکن ایک بات حقیقی طور پر درست بھی ہے کہ پارلیمنٹ کی مضبوطی ہم سب کے مفاد میں ہے اور ملک تمام پالیسیز پارلیمنٹ میں ہی بننی چاہئیں۔

لیکن حالات یہ تھے کہ چیئرمین سینیٹ استعفیٰ دے کر بیٹھ گئے کیونکہ وزراء ایوانِ بالا کو خاطر میں ہی نہیں لاتے تھے۔ اپنے دورِ حکومت میں میاں نواز شریف بہ حیثیت وزیرِاعظم کتنی مرتبہ ایوانِ بالا میں حاضر ہوئے ہوں گے۔ یعنی خود عوامی نمایندوں نے عوامی طاقت کو کمزور بنایا ہے۔ جب مورل سائڈ کمزور ہوتی ہے تو اِس کے نتائج بھی منفی ہی ہوتے ہیں۔ لیڈران کے بلند اخلاقی معیار ان کے لیے پاور ڈرائیو ہوتے ہیں اور یہی اصول پارلیمنٹ پر بھی لا گو ہوتا ہے۔

مقصد یہ نہیں کہ پارلیمنٹ کی بالا دستی ہو بلکہ مقصد یہ ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ مضبوط ہو۔

با لادستی کا محور صرف آئین ہونا چاہیے اور آئین کی بالا دستی کا مطلب عدلیہ، مقننہ اور پارلیمان کی مضبوطی ہے۔ ان میں سے کسی ایک عضو ORGAN کی بالادستی آئین کی نفی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔