مدر ایلسا قاضی اور سندھ کے لیے ان کی خدمات

لیاقت راجپر  جمعرات 24 اگست 2017

ہم اپنے بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ جرمنی اور جاپان کی عورتیں بڑی وفادار اور پیارکرنے والی ہوتی ہیں، جس کی تصدیق ایک مدر ایلسا قاضی کی صورت میں ہم نے پڑھی ہے اور دوسری جس کا تعلق جاپان سے ہے وہ ہمارے دوست کی اہلیہ ہیں جن کے ساتھ ان کی زندگی بہت خوشگوار گزررہی ہے۔ عورت میں وفا ہے تو پھر وہ دنیا کے کسی بھی کونے سے تعلق رکھتی ہو، اسے دوسرے ملک کے مرد میں محبت اور وفا نظر آجائے تو پھر وہ اپنا ملک، رشتے دار اور دھن دولت چھوڑ کر اس پیار کرنے والے کے ساتھ پوری زندگی گزار دیتی ہے۔ اس وقت بھی مجھے کئی لوگوں کی زبان سے پتہ چلا ہے کہ فیس بک پر دوستی کے بعد پاکستان کے کئی مردوں سے دوسرے ممالک سے لڑکیاں آکر شادی کرچکی ہیں اور دونوں میاں بیوی اپنی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔

سندھ سے ایک خوبصورت نوجوان علامہ آئی آئی قاضی لندن تعلیم کے لیے گئے تھے اور ایک دن جب وہ ریلوے اسٹیشن پر ریل گاڑی میں بیٹھنے کے لیے پہنچے تو اس وقت ریل گاڑی آہستہ آہستہ چلنے لگی تھی بہر حال قاضی ریل کے آخری ڈبے میں چڑھنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب وہ جیسے ہی ڈبے میں گھسے تو انھوں نے ایک کونے میں ایک خوبصورت لڑکی کو بیٹھے دیکھا۔ قاضی بڑے اسلامی طرزکے آدمی تھے اس لیے انھوں نے ایک لڑکی کے سامنے جاکر بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا اور ڈبے کے دروازے پر آکر لڑکی کو پیٹھ دے کر کھڑے ہوگئے۔ جب اس لڑکی نے دیکھا تو لڑکا اس کے پاس بیٹھنے سے شرمارہا ہے تو قاضی کو بیٹھنے کی آفر دی مگر پھر بھی وہ وہاں نہیں بیٹھے۔

قاضی کی اس ادا اور اخلاق نے بڑا متاثر کیا اور منزل پر اترنے سے پہلے لڑکی نے اس کا پتہ پوچھا۔ اب لڑکی جلد سے جلد اس انسان سے ملنے کے لیے بے چین تھی جس نے ایک اکیلی لڑکی دیکھ کر بھی اس کا احترام کیا۔ ایک دن دیے ہوئے پتے پر لڑکی پہنچ گئی اور ایک دوسرے سے واقفیت کرنے پر معلوم ہوا کہ لڑکی جرمن ہے۔ علامہ کی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت کے ساتھ ساتھ اس کے اخلاق پر فدا ہوگئی اور علامہ کو بھی ایلسا کا حسن اور انداز بڑا اچھا لگا۔ اب دونوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا گیا اور ان میں ذہنی ہم آہنگی کی وجہ سے دوستی ہوگئی جسے دونوں نے ازدواجی زندگی میں تبدیل کرلیا اور اس طرح سے دونوں کی شادی جرمنی میں 1910ء میں ہوگئی۔

شادی کے بعد ان دونوں نے لندن میں رہنا شروع کیا جہاں پر وہ 1919ء تک رہے اور پھر بھی درمیان میں آتے جاتے رہے۔ 1919ء کے بعد وہ سندھ چلے آئے۔ لندن میں تقریباً 30 سال کا عرصہ رہے اور وہ ریسرچ کے کام میں لگ گئے اور خاص طور پر مذہبی انقلابات پر کام کرتے رہے کہ مختلف مذہب کیسے کیسے اور کہاں کہاں سے آخر اسلام کی شروعات تک پہنچے۔ اس سلسلے میں دونوں نے اور خاص طور پر علامہ نے مل کر اس پر کئی مضامین اور Essay لکھ ڈالے جب وہ سندھ واپس آئے تو علامہ خیرپور میرس اسٹیٹ میں چیف جسٹس کے طور پر اپنے فرائض انجام دینے لگے اور ایلسا ان کے ہر کام میں معاونت کرتی رہیں مگر دو سال کے بعد علامہ نے وہاں سے خیرپور اسٹیٹ کے بادشاہ میر علی نواز سے اختلافات اور انگریزوں کی اسٹیٹ کے بارے میں پالیسیوں سے عدم اتفاق کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا اور دوبارہ لندن چلے گئے۔

ایلسا کا اصلی نام Elsa Gertrude تھا اور وہ جرمنی کے گاؤں Rudel Stadt میں 3 اکتوبر 1984ء میں پیدا ہوئیں ان کے والد Elderman میوزیشن تھا جو جرمنی سے لندن ہجرت کرکے آئے تھے اس نے وہاں پر اچھی خاصی ملکیت بنالی تھی مگر دوسری عالمگیر جنگ میں وہ ساری تباہ ہوگئی لیکن اسے بعد میں کچھ معاوضہ مل گیا تھا۔ ایلسا ایک اچھی مصورہ تھیں اور اس کی بنائی ہوئی تصویریں کئی ممالک میں بڑے لوگوں کے گھروں کی زینت بنی ہوئی ہیں جس میں ایک تصویر میر علی نواز ٹالپر کی زوجہ اقبال بالی کی بھی ہے۔

ایلسا کی ادبی اور علمی قابلیت دیکھتے ہوئے علامہ نے انھیں کہاکہ وہ کچھ لکھیں جس کی وجہ سے ایلسا نے انگریزی زبان میں شاعری اور نثر لکھنا شروع کی وہ One act plays لکھنے کی بڑی ماہر تھی۔ تاریخ، شارٹ اسٹوریز، ناول لکھنے کے علاوہ وہ اچھی Composer اور Musician بھی تھیں جیسا کہ ابھی وہ سندھی زبان کی ماہر نہیں تھی پھر بھی اس نے علامہ کی مدد سے سندھ کے بڑے شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے منتخب اشعار کو انگریزی میں ترجمہ کیا جسے کتابی صورت دی گئی جو ان کی آخری کتاب تھی۔ ایلسا کی علمی اور ادبی خدمات کافی ساری ہیں اور خاص طور پر انھوں نے اپنی تحریروں میں سندھ میں رہنے والوں کے رہن سہن، رسم و رواج اور گاؤں کی زندگی کی خوب عکاسی کی ہے۔

انھوں نے انگریزی میں نظم لکھی جس کا عنوان ہے THE NEEM TREE ، جسے سندھ میں نویں جماعت میں پڑھایا جاتا ہے۔ یہ بچوں کے ادب میں شمار ہوتی ہے انھوں نے علامہ کے ساتھ زندگی کے 60 سال گزار دیے اور جب وہ سندھ میں رہیں تو اس نے سندھ کے بارے میں انگریزی میں لکھ کر دنیاوالوں کو بتایا کہ یہ علاقہ کتنا خوبصورت ہے، یہاں کے لوگ کتنے مہمان نواز ہیں اور انھیں امن سے کتنا پیار ہے۔ ایلسا کی ادبی کاوشیں اتنی معیاری تھیں کہ واشنگٹن یونیورسٹی کی لائبریری نے ان کے ادبی کام کو اکٹھا کرکے ادبی شخصیات کے ناموں میں شامل کردیا جو آج بھی وہاں پر موجود ہیں۔

ایلسا قاضی کی Poetry کی کتاب حیدرآباد میں Standard Printing Works کے مالک آڈوانی نے چھپوائی۔ اس کے علاوہ ان کا ناول English Garden Symphony ڈراموں کی کتاب Temptation اور تاریخ کی کتاب civilization through the ages بھی چھپ چکی تھییں Temptations کی کتاب انھوں نے سندھ کی دیہاتی زندگی پر بہت خوبصورت لکھی ہے۔ جو ڈرامے کی دنیا میں اہمیت رکھتی ہے یہ کتاب 1942ء میں ہی چھپ گئی تھی۔ اس سے پہلے “Aeolian: notes of an overstrung lyre”    بھی 1921ء میں شایع ہوئی۔ یہ ساری کتابیں واشنگٹن یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود ہیں۔ یہ لٹریچر ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے نمبر ون کے طور پر ادب کی دنیا میں ابھر کر آگیا تھا۔

ایلسا اور علامہ کی جوڑی ایک مثالی جوڑی تھی جن کی محبت اور وفا دیکھ کر لوگ رشک کھاتے تھے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا مشکل سمجھتے تھے لیکن ایک دن ایسا منحوس آیا کہ جب ایلسا اور علامہ غلام محمد برج جامشورو سے ٹہل رہے تھے کہ اچانک ایلسا کا پاؤں پھسل گیا اور وہ دریائے سندھ میں جاگریں اور جاں بحق ہوگئی جب کہ 28 مئی کا دن 1967ء میں علامہ کے لیے قیامت جیسا تھا۔ ایلسا کو سندھ یونیورسٹی میں آخری آرام گاہ کے طور پر جگہ دی گئی۔ ایلسا کی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے سندھ یونیورسٹی اولڈ کیمپس کا نام مدر ایلسا قاضی رکھا گیا۔ انھیں مدر کا خطاب یونیورسٹی کے طلبہ اور طالبات نے دیا تھا کیونکہ ایلسا کو کوئی اولاد نہیں تھی اور وہ بچوں کو اپنی اولاد کی طرح چاہتی تھیں۔ علامہ اپنی محبت کے بچھڑنے کے بعد بھی کھانا کھانے، بیٹھتے تو ایلسا کا حصہ بھی اپنے کھانے کے ساتھ رکھتے۔ جب وہ بھی اس جگہ پر چھلانگ لگاکر اتفاقی حادثے کا شکار ہوکر چل بسے تو ان کی آخری آرام گاہ ایلسا کے قریب بنائی گئی۔

ایلسا جب لندن میں تھیں تو وہ علامہ کے ساتھ مل کر اسلام کی تشہیر کے لیے کام کرتی رہیں۔ جب علامہ 8 سال کے بعد 1951ء میں سندھ یونیورسٹی جامشوروں سے وائس چانسلر کے منصب سے ریٹائر ہوئے تو دونوں نے مل کر علم و ادب اور اسلام کی خدمت کرنے میں اپنا پورا وقت صرف کیا۔مجھے ایک بار پھر یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو قومیں اپنے ہیروزکو اور ان کے کارناموں کو بھلادیتی ہیں وہ جلد ہی مٹنا شروع ہوجاتی ہیں۔ سندھ یونیورسٹی کے اندر کئی ایسی شخصیات مدفون ہیں جنھوں نے سندھی ادب، علم اور کلچر کے لیے بہت کام کیا لیکن انھیں نئی نسل بھلا چکی ہے۔ اب ان کا نام لینے والا بھی نہیں ہے نہ تو ان کے دن منائے جاتے ہیں اور نہ ان کی عظمت کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرنے کے لیے کوئی پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ حکومت والوں کو ہم اس لیے نہیں کہتے کیونکہ وہ اپنا پورا وقت حکومت کو بچانے اور اپنے لوگوں کو خوش رکھنے میں بتادیتے ہیں۔ انھیں کیا پڑی ہے کہ گزرے ہوئے لوگوں کو یاد رکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔