پاکستان میں جمہوریت کمزور کیوں ہے؟(پہلاحصہ)

بابر ایاز  جمعرات 24 اگست 2017
ayazbabar@gmail.com

[email protected]

اگرچہ پاکستان پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت نے اپنی مدت پوری کی، جو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا، مگر بد قسمتی سے اس کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اپنی میعاد کی تکمیل کا دعویٰ کرنے کے قابل نہیں ہو سکے۔ سپریم کورٹ نے اس وجہ سے انھیں نا اہل قرار دے دیا کہ انھوں نے صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس حکومت کو خط نہیں لکھا تھا۔ گیلانی نے سر ِ تسلیم خم کر دیا اوران کی پارٹی نے راجہ پرویز اشرف کو نیا وزیر اعظم مقررکر کے پا رلیمنٹ کو بچا لیا۔

ایک بار پھر، سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔ انھوں نے اگر چہ فیصلے کا احترام کیا مگر فیصلے کی قانونی حیثیت کے بارے میں تحفظات کا اظہارکیا۔ ان کی پارٹی نے جمہوری عمل کو بچانے کے لیے اسمبلی سے نیا وزیر اعظم منتخب کرایا۔

اب یہ بحث چل نکلی ہے کہ پاکستان میں کسی بھی وزیر اعظم کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کس قدر کمزور ہے۔ ہم پاکستان کی آزادی کے70 سال مکمل ہونے کی خوشی منا رہے ہیںمگر ابھی تک ہمارے پاس کوئی مستحکم جمہوری نظام نہیں ہے۔کیوں؟

پاکستان کی تشکیل ہی اکثریت کی حکمرانی سے انکارکی بنیاد پر ہوئی تھی۔ ہندوستان کی ایک چھوٹی اقلیت ہونے کے باوجود مسلمانوں نے برِ صغیر کے ایک بڑے حصے پر 650 سال تک حکومت کی اور اس دوران کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ ایک الگ قوم ہیں۔ تو پھر ان (ہندوستانی مسلمانوں) کی کھوئی ہوئی یادداشت کیسے بحال ہو گئی اور انھیں یہ یقین ہونے لگا کہ وہ ایک الگ قوم ہیں؟

بڑی وجہ یہ تھی کہ 20 ویں صدی کے اوائل میں جب برطانیہ نے یہ فیصلہ کیا کہ حکومت مقامی لوگوں کی ہونی چاہیے، جس کی بنیاد جمہوری اصولوں پر تھی تو مسلمانوں نے جو اقلیت میں تھے ’’ہندو اکثریت کی حکمرانی‘‘ کا خوف محسوس کرنا شروع کر دیا۔ تحریک پاکستان کے دوران بنیادی مطالبات نوعیت کے اعتبار سے سیکولر تھے۔ یعنی مسلم اقلیت والے صوبوں میں ملازمتوں اور اسمبلیوں میں زیادہ حصہ اور مسلم اکثریتی علاقوں میں زیادہ خود مختاری۔ یہ مطالبات بڑھتے بڑھتے ’’مسلمان قوم‘‘ کے لیے ایک علیحدہ وطن کے دعوے میں بدل گئے۔

جواہر لعل نہرو کی قیادت میں کانگریس یہ ماننے پر تیار نہیں تھی اور اپنی بھرپور اکثریت کے زور پر ایک مضبوط مرکزی حکومت چاہتی تھی۔ چنانچہ غیر محفوظ مسلم اقلیت کو یقین نہیں تھا کہ جمہوری نظام، جو اگرچہ سیکولر تھا، ان کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔

اس کے بعد1970-71ء میںجب مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ، جو ملک کی56 فیصد آبادی کی نمایندگی کرتی تھی، این ڈبلیو ایف پی (کے پی)، بلوچستان اور شاید سندھ کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے قابل ہو سکتی تھی تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ جمہوریت سے بھاگ گئی۔ اسے یہ بات قبول نہیں تھی کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کی حمایت سے کوئی ایسا آئین بنانے کا حق حاصل ہے جو صوبوں کے لیے زیادہ زیادہ خود مختاری کی راہ ہموار کرے۔

پاکستان میں کمزور جمہوریت نے جنم لیا تھا۔ اگرچہ بھارت اور پاکستان دونوں، پارلیمانی نظام پر عمل کرنے کے لیے وجود میں آئے مگر جناح صاحب نے نوزائیدہ ملک کا وزیر اعظم بننے کی بجائے گورنر جنرل بننے کا فیصلہ کیا۔ اس کا مقصد حکومت کو کنٹرول کرنا تھا کیوںکہ اس طرح ان کے پاس حکومت ختم کرنے کا اختیار تھا۔

ایک کثیر النسلی وفاق میں جمہوریت سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ صوبوں کو مساوی صوبائی خود مختاری فراہم کرے گی۔ مگر ابتدا سے ہی مرکز کی طرف سے بالادستی کی مضبوط خواہش نے وفاق اور صوبوں کے درمیان بداعتمادی پیدا کر دی۔ آزادی کو آٹھ ہی دن گزرے تھے کہ 22 اگست1947ء کو مرکزکی طرف سے سیکشن51(5) کے تحت ،جو گورنر جنرل کو صوبوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کا اختیار دیتا تھا، این ڈبلیو ایف پی میں ڈاکٹر خان صاحب کی اکثریتی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔ 26 اپریل1948ء کو سندھ میں ایوب کھوڑو کی حکومت کو اس بنا پر برطرف کر دیا گیا کہ انھوں نے سندھ کو اس کی بندر گاہ والے شہر کراچی سے محروم کرنے اور صو بے میں مہاجروں کی آمد پر، جو آج بھی ایک متنازع معاملہ ہے، احتجاج کیا تھا۔

1948ء میں خواجہ ناظم الدین نے مشرقی بنگال کے عوام کو بتایا کہ ریاست کی قومی زبان اُردو ہو گی اور وہ صوبائی زبان منتخب کر سکتے ہیں۔ بنگالیوں نے جناح اور لیاقت علی خان کی مداخلت کے باوجود اسے مسترد کر دیا اور1952ء میں لسانی تحریک کے دوران ڈھاکہ میں متعدد لوگ مارے گئے۔ایسے رہنماؤں کی طرف سے جنھوں نے قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس قسم کے تمام اقدامات واضح طور سے ان کی غیر جمہوری سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے گیارہ سال میں سات حکومتیں بنیں۔ ان میں پہلے وزیر اعظم کا قتل، گورنر جنرلز کی طرف سے حکومتوں کی برطرفی اور جبری استعفے شامل تھے۔ بعض لوگ لیاقت علی خان کے قتل اور ان کے جا نشین خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کو، امریکا کے زیر انتظام فوجی اتحاد میں شرکت سے ان کے انکار کے ساتھ بھی جوڑتے ہیں۔

پاکستان کی70 سال کی تاریخ میں 33 سال تک۔ یعنی اس کی نصف عرصے تک براہ راست تین فوجی حکومتیں بر سر اقتدار رہیں۔ 1985ء میں جنرل ضیاء اور2002ء میںجنرل مشرف کی قائم کردہ نقلی جمہوریتوں کو میں شمار نہیں کر رہا کیونکہ وہ ’’ضیاء حکومت‘‘ اور ’’ مشرف حکومت‘‘ کے طور پر ریکارڈ پر ہیں۔اگر ہم اس صورتحال کا تجزیہ کریں تو دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں33 سال فوجی حکومتیں رہیں اور تقریباً دو سال کے عرصہ میں کئی عبوری حکومتیں بنیں۔ باقی35 سال میں15 سیاسی حکومتیں آئیں جن میں سے صرف ذوالفقار علی بھٹو اور زرداری کی حکومتیں پانچ پانچ سال قائم رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 11 سیاسی حکومتیں اوسطاً دو سال بھی پورے نہ کر سکیں۔ اس قسم کے غیر مستحکم حالات میں بھلا کونسا جمہوری نظام کام کر سکتا ہے؟

سوال یہ ہے کہ فوج کیوں33 سال تک براہ راست پاکستان پر حکومت کرتی رہی اور جب منتخب حکومت آتی ہے تو پھر بھی کیوں’’نادیدہ حکومت‘‘ ہی اصل آقا ہوتی ہے؟ Legatum Prosperity Index میں پاکستان میں صرف فوج کو ’’بہتر‘‘ قرار دیا گیا دیگر تمام سویلین محرکات کو یا تو اوسط یا پھر ناقص درجہ دیا گیا۔ (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔