تہذیبی ٹکراؤ، خوف کا اصل سبب

ڈاکٹر یونس حسنی  جمعرات 24 اگست 2017

امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اپنی صدارتی انتخاب کی مہم چلائی تو جو مسائل ان کے پیش نظر اہم تھے اس میں ایک دہشتگردی تھی اور دہشتگردی کا ملزم وہ من الحیث القوم مسلم دنیا کو قرار دیتے تھے۔

اپنی اس رائے کو نہ انھوں نے کبھی مخفی رکھا، اس پر کبھی نظر ثانی کی۔ اس انتخابی نعرے کے ساتھ ہی وہ کامیاب بھی ہوئے یعنی امریکی عوام کی اکثریت نے ان کی رائے سے اتفاق کیا اور انھیں اس ایشو پر منتخب بھی کیا۔ اپنے انتخاب کے فوراً بعد انھوں نے مسلمانوں کی گو شمالی کی ابتدا یوں کی کہ پہلے مرحلے میں چھ مسلم ممالک، شام، عراق، لیبیا، ایران وغیرہ کے شہریوں کی امریکا میں داخلے پر پابندی عائدکرنے کے احکامات صادر فرمائے۔ ان کا اس قسم کے احکامات کو امریکی عدالتوں نے دو مرتبہ غیر قانونی قرار دے کر مسترد کیا لیکن پھر بالآخر معمولی ترمیم و تنسیخ کے بعد وہ نافذ العمل ہوگئے۔

صدر ٹرمپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دہشتگردی مسلم ممالک کا شعار ہے اس لیے انھوں نے یورپی ممالک کو بھی مشورہ دیا کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندیاں عائد کریں۔ انھوں نے دہشتگردی کو امیگریشن سے وابستہ کر کے متعدد ملکوں کے باشندوں کو جو سب کے سب مسلمان تھے یورپ میں داخلے سے دور رکھنے کا مشورہ دیا۔

حالانکہ بعض یورپی ممالک پہلے ہی مسلمانوں سے سخت عصبیت میں مبتلا ہیں۔ فرانس میں حجاب کرنے والی لڑکیوں کو اسکولوں میں داخلے سے محروم رکھا جاتا ہے اور اس طرح انھیں اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کے بنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے بلکہ سب کے لیے آزادی کے تصور کو بھی داغدار کرتے ہوئے مسلمانوں کو امتیازی سلوک کا مستحق بنا دیا ہے۔ جرمنی اور فرانس وغیرہ میں سر راہ حجاب نوچنے کے واقعات بھی ہو چکے ہیں اور اسے نہ دہشتگردی قرار دیا جاتا ہے نہ دہشتگردی کی فضا پیدا کرنے کا سبب۔

مغربی دنیا نے آزادی رائے، آزادی اظہار اور آزادی ضمیر کے جو خوش نما نعرے لگائے تھے یہ رویہ ان کی نفی کرتا ہے۔

دراصل یہ سب لوگ، سارے ممالک جمہوریت، لادینیت اور مادر پدر آزادی کے بنیاد پرست ہیں۔ ان کو اپنی بنیاد پرستی پر کوئی اعتراض نہیں البتہ مسلم دنیا کی بنیاد پرستی انھیں کسی طرح گوارا نہیں۔

لطف کی بات یہ ہے کہ یہ جو آزادی اور ہر قسم کی آزادی کے نعرے پچھلے سو سال سے لگاتے آ رہے تھے تو یہ اس وقت غیر معمولی اکثریت میں اور اپنے اپنے معاشروں میں رہ رہے تھے اور عیسائیت اور بائبل کو بالائے طاق رکھ کر آزادی کا نعرہ لگانے کا مقصد محض یہ تھا کہ اب قانون سازی ان معاشروں میں بائبل اور اس کی تعلیمات کے مطابق نہیں بلکہ پارلیمانی اکثریت کے منظور کردہ قوانین کے مطابق ہو گی۔

ان کے نظام سیاست و حکمرانی کی بنیاد پارلیمانی قانون سازی پر ہے۔ اس کے نتیجے میں جو خوشحالی اور اقتصادی مساوات وجود میں آئی اس نے دنیا بھر کی اقوام کو اپنی طرف متوجہ کیا اور وہ دھڑا دھڑ اپنا ملک و معاشرہ چھوڑ کر مغرب کا رخ کرنے لگے۔ اب مغربی ممالک اور خود امریکا میں چینی، جاپانی، انڈونیشی، ملائیشین، ہندوستانی، افریقی، مسلم عرب ممالک اور پاکستان، ترکی، ایران غرض ہر وضع اور طرح طرح کے لوگ آباد ہیں جن کا اپنا کلچر ہے، اپنی زبان اور اپنی روایات ہیں۔

مغرب نے جو آزاد روی اختیار کی وہ نہ افریقی وحشی اقوام کے لیے اجنبی تھی نہ چینی، جاپانی، ہندوستانی، برمی، نیپالی وغیرہ معاشروں کے لیے ان کو قبول کرنے میں کوئی دشواری تھی اس لیے انھوں نے بہ رضا و رغبت ان اقدار کو اپنا لیا۔

مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی چیزکو اختیار کرنے اور کسی چیز کو ترک کرتے وقت پلٹ کر اپنے مذہب کی طرف دیکھتے ہیں اور اس کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ اپنے مذہب کے احکام کے مطابق کرتے ہیں۔

افریقی، ہندوستانی، چینی اور جاپانی اور دیگر غیر مسلم اقوام کو ان کی اقدار کو اپنانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ وہ پہلے بھی شراب پیتے تھے، ان کے معاشروں میں بھی ستر نہیں ہوتی وہ پہلے سے مخلوط معاشروں میں زندگی گزار رہے تھے وہ امریکیوں سے زیادہ جاہلانہ رقص و سرور کی محفلوں کو برپا کرتے آئے تھے اس لیے ان کے لیے یہ سب قابل قبول تھا۔

مسلمان ان اقدار کو آسانی سے قبول نہیں کرتے مگر اس عہد کی مقبول معاشرت کے اعتبار سے سکۂ رائج الوقت یہی تہذیب اور اس کی روایات ہیں۔ اس لیے جب مسلمان اس سے کتراتے ہیں تو وہ انھیں ’’بنیاد پرست‘‘ تنگ نظر اور جمہوریت و لادینیت کے دشمن قرار دیتے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ آپ تہذیب نوکے بنیاد پرست ہیں تو مسلمانوں کی بنیاد پرستی پر اعتراض کیوں۔ دوسری طرف جب آپ ہر شخص کو ہر معاشرتی گروہ کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق دیتے ہیں تو مسلمان کو اپنی ’’مسلمانی‘‘ پر عمل پیرا ہونا آپ کو اتنا ناگوار کیوں ہے۔

یہ در اصل مسلم تنگ نظری نہیں جس نے اہل مغرب کو پریشان کر رکھا ہے بلکہ یہ واقعتاً تہذیبوں کا ٹکراؤ ہے جو ان کی پریشانی کا سبب بن رہا ہے۔ دنیا کو گلوبل ولیج بنانے کے نعرے میں تہذیبوں کا یہ ٹکراؤ بڑی رکاوٹ ہے اور مغرب کی خواہش ہے کہ تہذیبیں شیر و شکر ہوکر رہیں، مگر شیر و شکر ہونے کے لیے شکر کا شیر میں حل ہو کر اپنا وجود کھو دینا ضروری ہے، مگر شکر اپنا وجود کھونا نہیں چاہتی اور یہی شیر کی غیر معمولی فکر مندی کا باعث ہے۔

ہوتا آیا ہے کہ غالب تہذیب دیگر کمزور تہذیبوں کو کھا جاتی ہے مگر یہ عمل مسلمانوں کی ’’سخت جانی‘‘ کے باعث تاخیر کا باعث بن رہا ہے۔ مغرب کے ذہن میں کہیں کہیں یہ خوف موجود ہے کہ مسلمانوں کی پیدا کردہ یہ تاخیر کہیں خود ان کے تہذیبی زوال کا باعث نہ بن جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔