تنزانیہ سُورج مُکھی افراد( البائنوز) کے بعد عورتوں کی قتل گاہ بن گیا

عبدالریحان  جمعرات 24 اگست 2017
چھے ماہ کے دوران سیکڑوں خواتین مار دی گئیں ۔  فوٹو  فائل

چھے ماہ کے دوران سیکڑوں خواتین مار دی گئیں ۔ فوٹو فائل

مشرقی افریقا میں واقع ملک تنزانیہ عالمی سطح پر سورج مکھی افراد (البائنوز)  کی قتل گاہ کے طور پر مشہور ہے۔

آپ نے کبھی نہ کبھی کوئی ایسا فرد ضرور دیکھا ہوگا جس کی جلد کی رنگت گلابی مائل گوری اور بال سنہری ہوتے ہیں۔ یہی افراد البائنو کہلاتے ہیں۔ جینیاتی خرابی کے باعث ان افراد کی رنگت اپنے والدین کی رنگت سے مختلف ہوجاتی ہے۔  البائنو دنیا کے ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔

تنزانیہ کے لوگ جادوٹونے پر اندھا اعتقاد رکھتے ہیں۔ اپنے مختلف کاموں کے سلسلے میں وہ جادو ٹونے کے ماہر مرد اور عورتوں کے پاس جاتے ہیں۔ مقامی جادوگروں کا عقیدہ ہے کہ البائنو افراد کے جسمانی اعضا کے استعمال سے کیا گیا جادو تیربہ ہدف ثابت ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ مہنگے داموں ان کے اعضا خریدنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ تگڑی رقم کے لالچ میں عموماً جرائم پیشہ افراد البائنو افراد کو قتل کرکے ان کے اعضا فروخت کردیتے ہیں۔ قدرتی طور پر تنزانیہ میں البائنوز کی شرح دوسرے ممالک سے زیادہ ہے۔ اسی لیے ان کی شرح اموات بھی دیگر خطوں سے بلند ہے مگر بیشتر اموات کا سبب طبعی نہیں بلکہ غیرطبعی یعنی قتل ہوتا ہے۔ البائنو افراد کا قتل اور ان کے اعضا کی فروخت تنزانیہ میں وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے غیرقانونی کاروبار کی شکل اختیار کرچکی  جس میں بڑے بڑے لوگ ملوث ہیں۔

جادوٹونے پر اعتقاد رکھنے والوں کی طرح اس سے نفرت کرنے والے بھی تنزانیہ میں موجود ہیں۔ ان میں سے بیشتر وہ ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں اپنے یا اہل خانہ کے ساتھ پیش آنے والے حادثات یا مالی نقصانات کو جادوٹونے سے جوڑتے ہیں اور جادوگروں خاص طور سے جادوگرنیوں کے دشمن ہیں۔ مبینہ طور پر جادوٹونے کرنے والی عورتیں ان کے نشانے پر ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق جادوٹونے کے شبہے میں گذشتہ بیس کے دوران ہزاروں عورتوں پر حملے کیے گئے۔ ان حملوں کے دوران یہ عورتیں زخمی ہوئیں یا جان سے چلی گئیں۔ بہت سی عورتوں کو خنجر وغیرہ سے نشانہ بنایا گیا، اس کے علاوہ سولی چڑھانے اور زندہ نذرآتش کیے جانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔

ساحرہ ہونے کے شبہے میں عورتوں کو جان سے مارنے کا سلسلہ ماضی کی طرح آج بھی جاری ہے۔ دارالحکومت دارالسلام میں قائم لیگل اینڈ ہیومن رائٹس سینٹر ( ایل ایچ آر سی) کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار  کے مطابق رواں سال کے دوران اب تک 479 خواتین جادوگرنیاں ہونے کے شبہے میں ماری جاچکی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ سے پیوستہ ہفتے میں لوگوں کے ہجوم نے پانچ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا جو مبینہ طور پر جادوٹونے کے پیشے سے منسلک تھیں۔ یہ ہلاکتیں صوبہ تابورا میں ہوئیں۔ پولیس کے صوبائی سربراہ ولبروڈ ایم فنگوا کہتے ہیں کہ مبینہ جادوگرنیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، پولیس اس پر قابو پانے کی پوری کوشش کررہی ہے مگر اس راہ میں مقامی لوگوں کا عدم تعاون سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہورہا ہے۔

ایل ایچ آر سی کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیلن کیجو بی سمبا کہتی ہیں کہ اس معاشرے میں جادوٹونے کا بہت عمل دخل ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد اپنے ہر جائز ناجائز کام کے لیے ساحروں سے رابطہ کرتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انھی میں سے بعض لوگ اپنا کام بگڑنے کا ذمہ دار مبینہ ساحراؤں کو ٹھہرا دیتے ہیں اور اجتماعی طور پر ان کی جان لے لیتے ہیں۔ اس نوع کے واقعات دیہی علاقوں میں پیش آتے ہیں جہاں لوگ جدید علوم سے بے بہرہ ہیں۔

البائنو افراد کی طرح خواتین کے قتل پر بھی انسانی حقوق کے ادارے شور مچاتے رہے ہیں مگر حکومتیں اس ضمن میں مؤثر اقدامات کرنے میں ناکام رہیں۔ موجودہ صدر جان موگوفولی کو زمام اقتدار سنبھالے دو سال گزرچکے ہیں، مگر وہ بھی اب تک البائنوز اور عورتوں کے قتل عام کو روکنے میں کام یاب نہیں ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔