پاکستان کو خطے میں بھارتی بالادستی کا چیلنج درپیش

ذیشان محمد بیگ / حسان خالد  جمعرات 24 اگست 2017
امریکا کے بعد کسی اور عالمی طاقت پر مکمل انحصار کی پالیسی ترک کرکے خود پر بھروسہ کرنا ہوگا ۔ فوٹو : فائل

امریکا کے بعد کسی اور عالمی طاقت پر مکمل انحصار کی پالیسی ترک کرکے خود پر بھروسہ کرنا ہوگا ۔ فوٹو : فائل

صدر ٹرمپ نے بالآخر طویل مشاورت کے بعد امریکا کی نئی افغان پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی افغان جنگ جیتنے کے لیے بنائی گئی ہے۔پاکستان سے حسب سابق ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ افغانستان میں انڈیا کو ’مثبت کردار‘ ادا کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرے اور اس پر الزام لگانے کے بجائے دہشت گردی کے خاتمے میں اس کا ساتھ دے۔ چین نے بھی کھل کر پاکستان کے نقطہ نظر کی حمایت کی ہے جبکہ روس کا کہنا ہے کہ امریکا کی اس پالیسی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ دوسری طرف برطانیہ، نیٹو، بھارت اور افغانستان نے اس پالیسی کا خیرمقدم کیا ہے۔اس ردعمل سے خطے کا نیا منظرنامہ واضح ہو رہا ہے۔

2011ء میں ایک عام شہری کے طور پرٹرمپ اس بات کے حامی تھے کہ امریکا کو کم از کم دس ہزار فوج افغانستان میں رکھنی چاہیے مگر صدارتی امیدوار بننے کے بعد اور انتخابی مہم کے دوران وہ اس موقف سے ہٹ گئے، انہوں نے صدر اوباما کی افغانستان میں فوج رکھنے کی پالیسی کو ہدف تنقید بنایا۔ لیکن اب حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے یا امریکی اسٹبلشمنٹ کے قائل کرنے پر ان کو بھی افغانستان میں فوج رکھنے کی پالیسی کا اعلان کرنا پڑا ہے۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے ابھی اپنی پالیسی کے خدوخال واضح نہیں کیے اور یہ نہیں بتایا کہ کب، کتنی فوج بھجوائی جائے گی۔ اس کا بھی ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ کون سے واضح اہداف ہیں، جن کا حصول امریکا کی افغانستان میں فتح کا تعین کرے گا۔

افغان ایشو اور امریکی پالیسی کے پس منظر کو دیکھا جائے تو نوے کی دہائی سے قبل دنیا دو بلاکس میں تقسیم تھی۔ ایک بلاک اس وقت کی سپرپاور امریکا کے زیر اثر ممالک پر مشتمل تھا جبکہ دوسرے کی قیادت سویت یونین کررہا تھا۔ یہ سرد جنگ کا دور تھا جب دسمبر 1979ء میں سویت یونین نے گرم پانیوں تک پہنچنے کی کوشش میں افغانستان پر حملہ کردیا۔ سویت یونین وہ ملک تھا کہ جس نے جہاں بھی اپنے پنجے گاڑے پھر وہاں سے کوئی اسے نکال نہ سکا لیکن افغانستان سے اسے نکلتے ہی بنی۔

اس کی یہ پسپائی مگر اس کے ٹکڑے کرگئی اور یوں دنیا یونی پولر ہوگئی اور امریکا بلا شرکت غیرے ساری دنیا کا مالک و مختار بن بیٹھا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ اس جنگ میں پاکستان کا کیا کردار تھا اور اس نے کیا کیا قربانیاں دیں، خطے میں حالات بتدریج بدلتے چلے گئے۔ کل تک جن عرب اور افغان جنگجوؤں کو امریکا مجاہدین کہتا تھا بعدازاں وہی دہشت گرد ٹھہرے اور نائن الیون کے بعد تو سارا بیانیہ ہی تبدیل ہوگیا۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج بش جونیئر نے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا اعلان کردیا اور امریکا اسامہ بن لادن کو اس کے حوالے نہ کرنے کا بہانہ کرکے افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا کی سولہ سالہ جنگ صدر بش کے دو ادوار کے بعد اوباماکے آٹھ سالہ دور حکومت سے ہوتے ہوئے تیسرے صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک آپہنچی ہے۔

گو صدر اوباما اپنی انتخابی مہم کے دوران بش جونیئر کے افغانستان میں امریکی فوجیں بھیجنے کے فیصلے کے برخلاف وہاں سے فوجیں نکالنے کے حق میں تھے مگر بوجوہ صدر بننے کے بعد وہ نہ صرف یہ کہ اس فیصلے کو بدل نہ سکے بلکہ مزید فوجی افغانستان بھیجنے پر مبجور ہوگئے۔ اب یہی مسئلہ موجودہ صدر ٹرمپ کو بھی درپیش ہے۔پہلے ان کا مؤقف بھی یہ تھا کہ امریکا کو دنیا کا ٹھیکے دار بننے کے بجائے اپنے اندرونی معاملات کے حل کی طرف دیکھنا چاہیے۔ مگر اب انہوں نے امریکی اداروں کی بنائی ہوئی پالیسی کی منظوری دے کر اس خیال کو تقویت دی ہے کہ وہ اسٹبلیشمنٹ سے مفاہمت کرتے ہوئے خود کو امریکی صدارت کا اہل ثابت کر رہے ہیں۔ امریکا اور دنیا بھر میں لوگوں کی اکثریت یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے اور اس جنگ کے نتائج امریکیوں کی توقعات اور تجزیوں کے برعکس ثابت ہوئے۔

افغانستان میں امریکا کو پہنچنے والے زبردست جانی و مالی نقصانات اور شدید سیاسی دھچکے اس کے لیے ایک عبرت ناک شکست کا سبب بن سکتے ہیں جو ان کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی تلخ یادیں چھوڑ جائے گی۔ امریکی ماہرین سرتوڑ کوشش میں لگے رہے کہ اس ضمن میں وہ کوئی ایسا منصوبہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں جو ایک طرف تو اس جنگ کو ان کی موافقت کی جانب موڑ دے اور دوسری طرف ان کی بین الاقوامی سیاسی، فوجی اور معاشی بالادستی کی ساکھ کو بحال کردے۔ مگر تجزیاتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اس مسئلے کا حسب منشا حل ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق جمعرات 3 اگست 2017ء کو افغانستان میں امریکا کو درپیش اس دوہری مشکل کے حل کے سلسلے میں منعقدہ ایک اجلاس میں بحث کے دوران قصر سفید کے حکام بری طرح دو حصوں میں بٹ گئے۔ جس پر صدر ٹرمپ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ اس وقت تک افغانستان میں امریکی افواج میں اضافے کے منصوبے کی توثیق نہیں کریں گے جب تک انہیں مکمل طور پر یہ یقین نہ ہوجائے کہ وہ اس لاحاصل جنگ میں فتح سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔

افغانستان میں دوہری مشکل میں گرفتار امریکا کی نئی حکومت کے اسی متذبذب رویئے کو تجزیہ کار اس کی عبرتناک شکست سے تعبیر کررہے ہیں۔ یہ وہ جنگ ہے جو خود امریکا کے فوجی کمانڈروں کے نزدیک جیتی نہیں جاسکتی۔ اس تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوئے بدنام زمانہ پرائیویٹ سکیورٹی فرم، ’’بلیک واٹر‘‘ کے بانی ’’ایرک ڈی پرنس‘‘ اور ’’ڈائن کارپ انٹرنیشنل‘‘ نامی کرائے کے فوجیوں کی جناتی تنظیم کے ارب پتی مالک ’’اسٹیفن اے فینبرگ‘‘ جیسے سرمایہ کار اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس میدان میں سرمایہ کاری کے لیے پر تولنے لگے۔ ان دونوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو تجویز دی کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے بجائے ان کی تنظیموں کے کرائے کے فوجی بھیجے جائیں اور اس تجویز پر انہیں صدر ٹرمپ کے چیف سٹراٹیجسٹ، اسٹیفن بینن اور جاریڈ کوشنر، جو صدر ٹرمپ کے سینئر مشیر اور داماد بھی ہیں، کی حمایت حاصل تھی۔

جب اس سلسلے میں بات کرنے کے لیے اسٹیفن بینن نے وزیر دفاع جم میٹس سے پینٹاگون میں ملاقات کرکے ان کا عندیہ لینے کی کوشش کی تو ایک امریکی عہدہ دار کے مطابق جم میٹس نے تحمل سے اس تجویز کو سننے کے باوجود بیرونی ذرائع سے آنے والی ایسی تجاویز کو اس افغان پالیسی کی نظرثانی کے معاملے میں شامل کرنے سے انکار کردیا جس کو وہ خود نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل ایچ آر میک ماسٹر کے ساتھ مل کر تشکیل دے رہے تھے۔ تاہم جم میٹس اور میک ماسٹر نے یہ وعدہ کیا کہ وہ صدر ٹرمپ کو افغانستان کے بارے میں اپنی حکمت عملیوں پر نظرثانی شدہ تجاویز سے رواں ماہ میں آگاہ کردیں گے۔ بلیک واٹر جیسی تنظیموں کے مفاد میں یہ بات ہے کہ جنگ و جدل چلتی رہے تاکہ ان کے لیے آمدنی کے ذرائع برقرار رہیں۔ اسی لیے ایرک پرنس یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں جنگ ہوتی رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کررہا اور پورا زور اس بات پر لگا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسے بڑے پیمانے پر فنڈز فراہم کرے تاکہ افغان جنگ جاری رہے۔

ایرک پرنس نے ایک امریکی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ امریکا افغانستان کی جنگ پر سالانہ ستائیس بلین ڈالرز جتنی بڑی رقم خرچ کررہا ہے اور پھر بھی اس جنگ کو جیتنے کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے۔ اس کی بجائے اگر امریکا یہ جنگ لڑنے کی ذمہ داری بلیک واٹر کے کرائے کے جنگجوؤں کے سپرد کردے تو صرف اخراجات ہی کی مد میں تقریباً چالیس فیصد سالانہ بچت یقینی ہے۔ ایرک پرنس نے خبردار کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے مکمل انخلاء کی صورت میں موجود افغان کٹھ پتلی حکومت کا گرنا ناگزیر اور صرف چند ہفتوں کی بات ہے۔ ایرک پرنس اپنی بدنام زمانہ تنظیم بلیک واٹر کے عراق میں اربوں ڈالرز کے جنگی منصوبوں کا عوام میں دفاع کرتا کرتا ہوا نظر آتا ہے، حالانکہ اس کی تنظیم سینکڑوں بے گناہ عراقی عوام کے قتل ناحق میں ملوث رہی ہے۔

بلیک واٹر کی سفاکی منظر عام پر آنے کے بعد ایرک پرنس نے متحدہ عرب امارت کے لیے بھی ایک خفیہ پرائیویٹ آرمی بنانے کی کوشش کی، جس میں ہزاروں میکسیکن کرائے کے جنگجو شامل تھے۔ اس طرح ایرک پرنس نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی۔ ایک تو جنوبی سوڈان میں موجود اپنے گاہکوں سے ان کے بتائے گئے اہداف کو نشانہ بنانے کے عوض دولت سمیٹنا اور دوسرے اپنی جنگجو تنظیم کے توسط سے مشرق وسطیٰ میں قدم جماتے ہوئے مبینہ طور پر اس وقت کے امریکی صدارتی امیدوار (موجودہ امریکی صدر) ڈونلڈ ٹرمپ کے روابط بیک چینل کے ذریعے کریملن (روس) کے ساتھ استوار کروانا۔ بعدازاں ٹرمپ اور روسی صدر کے تعلقات کا سکینڈل بھی بہت زور و شور کے ساتھ سامنے آیا اور امریکی سیاست میں ایک بھونچال کی کیفیت پیدا کرتے ہوئے ٹرمپ کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ ایرک پرنس ایک زیرک سرمایہ دار کی طرح اپنے متعدد منصوبوں میں کامیاب ٹھہرا۔ اس کی بہن، ’’بیٹسی ڈیوس‘‘ اب صدر ٹرمپ کی حکومت میں وزیر تعلیم ہے اور ایرک پرنس کے نئے منصوبے کے تحت افغانستان میں بلیک واٹر کو استعمال کرنا جیسے کثیر الاسرمایہ منصوبے کی ٹرمپ انتظامیہ سے حمایت حاصل کرنے میں اس کی مدد گار ہے۔ اسی تناظر میں وزیر دفاع ’’میٹس‘‘ تک وائٹ ہاؤس کے ’’چیف اسٹرٹیجک‘‘ اسٹیفن بینن اور صدر ٹرمپ کے داماد اور مشیر ’’کوشنز‘‘ کے ذریعے رسائی، انتخابات کے دوران کی گئی اپنی سرمایہ کاری کے فوائد حاصل کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔

افغانستان کے لیے ایرک پرنس اور سٹیفن فیبرگ جیسے کرائے کے جنگجو تنظیموں کے مالکان کا منصوبہ اور تجویز یہ ہے کہ وہاں وہی حکمت عملی اپنائی جائے جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنائی تھی۔ ایرک پرنس کے خیال میں افغانستان میں مقامی کٹھ پتلی حکمران کی بجائے ایک امریکی وائسرائے تعینات کیا جائے جو کرائے کے جنگجوؤں کے ذریعے افغانستان پر حکومت کرے۔ یہ وائسرائے براہ راست امریکی صدر کو جوابدہ ہو۔ ایرک پرنس کے بقول ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس ماڈل کے ذریعے انتہائی کامیابی سے نہ صرف ہندوستان بلکہ 1842ء میں افغانستان کا بھی نظم و نسق چلایا۔

گو گزشتہ سے پیوستہ روز امریکی حکومت کی جانب سے آنے والی نئی افغان پالیسی میں کرائے کے جنگجو افغانستان بھیجنے والی اس تجویز پر صاد نہیں کیا گیا مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس کے بعد بھی بلیک واٹر کے مالک ایرک پرنس اور سٹیفن فینبرگ جیسے سرمایہ دار خاموش ہوکر بیٹھ جاتے ہیں یا اپنے منافع کے لیے خطے میں بدامنی کے فروغ کے لیے کوئی نئے منصوبے بنانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کو بھی اس جنگ میں اپنے کردار کے حوالے سے واضح بیانیہ دینا ہو گا۔ اس سلسلے میں سویلین اور ملٹری دونوں کے موقف میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ ٹرمپ کی حالیہ پالیسی کے بعد امریکی سفیر نے وزیر خارجہ خواجہ آصف سے ملاقات کی ہے۔ خواجہ آصف کا آنے والے دنوں میں دورہ امریکا بھی متوقع ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو اس حوالے سے اپنا ہوم ورک مکمل کرنا چاہیے۔ تاکہ وزیر خارجہ کا دورہ امریکا نمائشی ثابت نہ ہو بلکہ پاکستان اپنا مقدمہ اچھے انداز میں پیش کرتے ہوئے تحفظات کا شافی جواب دے سکے۔ امریکا کے پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ مستقل حیثیت صرف امریکی مفادات کی ہے اور اسی کے زیراثر دوستیاں اور دشمنیاں ہوتی ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کب اپنے مفادات کو اہمیت دینا شروع کریں گے؟

شمشاد احمد خان
(سابق سیکرٹری خارجہ)
امریکا کی اس پالیسی اور ماضی کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ امریکا کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی گزشتہ دس پندرہ برسوں سے تین چار چیزوں کے گرد گھوم رہی ہے: دہشت گردی، ایٹمی ہتھیار، افغانستان اور بھارت۔ امریکا کا بھارت کے ساتھ سٹریٹجیک تعلق ہے، جس کا ہدف ہم نہیں بلکہ چین ہے، چنانچہ وہ معاملات کو اس تناظر میں بھی دیکھتا ہے۔

جہاں تک ٹرمپ کی حالیہ افغان پالیسی کا تعلق ہے، اس میں لہجہ ٹرمپ کا نظر آتا ہے۔ پہلے امریکی صدور ذرا محتاط انداز میں گفتگو کرتے تھے۔ امریکا میں صدارتی امیدوار کی کسی بھی ایشو پر کوئی بھی رائے ہو سکتی ہے، لیکن جب وہ ایک دفعہ صدر منتخب ہو جاتا ہے تو اسے امریکا کے مفادات کا تحفظ ہی کرنا ہوتا ہے۔ ٹرمپ نے آغاز میں مختلف ایشوز پر اپنی من مانی کرنے کی کوشش کی، لیکن گزشتہ کچھ ماہ سے نظر آ رہا ہے کہ وہ امریکی اداروں پینٹا گان اور سی آئی اے کی رائے کو اہمیت دے رہے ہیں۔ اس سے ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ امریکا کے صدر بننے کے اہل ہیں اور یہ پالیسی بنیادی طور پر انہیں مکمل طور پر امریکا کا صدر بنائے گی۔

اگر صدر ٹرمپ کی تقریر کا ابتدائی اور آخری حصہ دیکھا جائے تو انہوں نے امریکی فوج کے کردار کی کھل کر تعریف کی ہے اور ان کی قربانیوں کو سراہا ہے، جبکہ دوسری طرف آپ دیکھ لیں کہ ہمارے حکمران فوج کے بارے میں کیا کہتے ہیں، اس لیے فرق صاف ظاہر ہے۔ ہمارے حکمران فوج کو اپنا حریف سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ فوج کا ملکی سالمیت میں اہم کردار ہے جس کو تسلیم کرنا چاہیے۔ امریکا تو وہی پالیسی بنائے گا جو اس کے لیے بہتر ہو گی، دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایک ریاست کے طور پر اپنے آپ کو منظم اورمستحکم کریں۔ ٹرمپ اور انڈیا کی پالیسی ہمارے ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، ہماری دشمن وہ سوچ ہے جو قیام پاکستان کو ایک حادثہ قرار دیتی ہے اور ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ اگر ہم اپنے اندر ایک قوم کا جذبہ پیدا کریں تو ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

شبیر احمد خان
(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات ،پنجاب یونیورسٹی)
دیکھا جائے تو ابھی کوئی پالیسی اس طرح سے نہیں آئی جس طرح سے ماضی میں اعلان کیا جاتا تھا کہ فوجوں کی تعداد میں میں اضافہ یا کمی کر رہے ہیں اور مستقبل کے حوالے سے ان کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ ٹرمپ نے ابھی صرف اتنا کہا ہے کہ ہم واپس نہیں جا رہے، لیکن ہم یہ نہیں بتائیں گے کہ کتنے فوجی بھیجیں گے اور کب بھیجیں گے۔ ٹرمپ کا یہی انداز رہا ہے تو آپ اسے ٹرمپ ازم کہہ سکتے ہیں۔

اس سے پہلے بش اور اوباما بھی اسی طرح کی باتیں کرتے رہے ہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کرے لیکن وہ سفارتی انداز میں بات کرتے تھے جبکہ ٹرمپ کا انداز غیر روایتی رہا ہے۔ امریکا افغانستان سے نہیں جا رہا، اس کے کیا مقاصد اور عزائم ہیں، یہ نہ تو اس نے پہلے بتایا اور نہ اب بتایا ہے۔ یہ بات ضرور ہوئی ہے کہ اب انہوں نے کہہ دیا ہے کہ ان کا مقصد دہشت گردوں کو ختم کرنا اور جنگ جیتنا ہے۔ پہلے وہ افغانستان کے استحکام اور ترقی کی بات کرتے تھے، لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں کہا گیا۔

اس دفعہ ایک نئی بات یہ ہوئی کہ انڈیا کو سراہا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ انڈیا افغانستان میں اپنا کردار ادا کرے۔ اب یہ ہمارا مسئلہ ہے کہ انڈیا افغانستان میں آ جاتا ہے تو ہمارے جو تحفظات اس حوالے سے رہے ہیں، ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ میرے خیال میں یہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔ اگر ہم امریکا کو چھوڑ کے چین اور روس کی طرف مائل ہوں گے تو امریکا یقینی طور پر خطے میں ایسے متبادل تلاش کرے گا جو اس کے لیے وہ کردار ادا کر سکیں جو ہم کرتے رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ افغان نیشنل آرمی کو مضبوط کرے، اور اس کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کرے۔ ہماری حکومت بہرحال امریکا کے خلاف نہیں جائے گی کیونکہ اس سے ہمیں مختلف شعبوں میں امداد مل رہی ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے ٹیکس دینے والوں کی بڑی رقم کسی دوسرے ملک پر خرچ نہیں کرتا، اس لیے امریکا کہتا ہے ہم سے پیسے لے رہے ہو تو ہماری بات بھی مانو۔

دوسری طرف ہم بھی ڈھیٹ لوگ ہیں۔ ہمیں بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم نے ضیاء کے دور میں امریکا کی جنگ لڑی اور پھر مشرف کے دور میں بھی امریکا کا ساتھ دیا۔ ہم نے جب لیٹنا ہو تو مکمل طور پر لیٹ جاتے ہیں پھر اچانک ہماری غیرت جاگ اٹھتی ہے اور سوچنے لگتے ہیں چین یا روس سے ہمیں مدد مل جائے گی۔ یہ غلط رویہ ہے، ہمیں خود اپنے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے درست حکمت عملی بنانی چاہیے۔ یہ سوچنا غلط ہے کہ امریکا چلا جائے گا تو پھر ہم طالبان کی مدد سے افغانستان میں اپنا کردار ادا کر یں گے۔ اب چیزیں ریورس نہیں ہوں گی۔ ہمیں ایک ایٹمی ملک کی حیثیت سے سوچنا چاہیے۔ دوسرے ہمارے ہاں جو سویلین اور فوجی مائنڈ سیٹ کی تفریق ہے، یہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس سے دنیا کو غلط پیغام جاتا ہے۔ جب وزیراعظم یہ کہتا ہے کہ طاقت کا مرکز کہیں اور ہے تو ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ فوج اپنے طریقے سے سوچتی ہے اور سویلین اپنے نقطہ نظر سے۔ لیکن ان کو ایک پیج پر ہونا چاہیے اور واضح پالیسی بنانی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔