جمہوریت اب پٹری سے نہیں اترے گی

اسد احمد  ہفتہ 16 فروری 2013

یہ 15 جنوری بروز منگل ہے، ہزاروں افراد ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں، تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا شرکا سے خطاب جاری ہے، اچانک سپریم کورٹ رینٹل پاور کیس میں وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کی گرفتاری کا حکم دیتی ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری خبر سنتے ہی جوش جذبات میں اعلان کرتے ہیں کہ آدھا کام آج ہوگیا، اور ملک میں صرف عدلیہ اور فوج اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جوں ہی ڈاکٹر صاحب کی زبانی شرکائے دھرنا وزیراعظم کی گرفتاری کا عدالتی حکم سنتے ہیں تو جیسے ان کی قربانی رنگ لے آئی، بعض تو فرطِ جذبات سے سجدے میں گرجاتے ہیں، ڈاکٹر صاحب سمیت ہر شخص کی زبان پر صرف ایک ہی شخص کا نام ہے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، ایک ہی ادارے کا نام ہے سپریم کورٹ۔ فضا چیف تیرے جانثار بے شمار، بے شمار کے نعروں سے گونج رہی ہے۔

یہ 13 فروری ہے، الیکشن کمیشن کی تحلیل سے متعلق ڈاکٹر طاہرالقادری کی درخواست کی سماعت کا تیسرا روز۔ گزشتہ دو سماعتوں میں عدالت یہ سوالات اٹھاچکی ہے کہ غیر ملکی شہری پارلیمنٹ پر کیسے عدم اعتماد کرسکتا ہے؟ درخواست دائر کرنے کے لیے قانونی جواز کیا ہے؟ غیر ملکی شہری کو سیاسی نظام لپیٹنے کی اجازت نہیں دیں گے، لگتا ہے طاہرالقادری سیاسی ایجنڈے پر آئے ہیں! سماعت کے دوران چیف جسٹس ڈاکٹر صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ کینیڈا کی شہریت کے لیے اٹھایا گیا وفاداری کا حلف پڑھ کر سنا سکتے ہیں؟ ڈاکٹر طاہرالقادری جواب دیتے ہیں کہ یہ سوال ہی نہیں بنتا۔ جسٹس عظمت سعید کہتے ہیں سوال وہ ہے جو ہم پوچھیں گے! سماعت کے تیسرے دن عدالت نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی درخواست خارج کردی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ طاہرالقادری اپنی نیک نیتی اور حق دعویٰ ثابت نہیں کرسکے، انھوں نے جو زبان استعمال کی اس پر توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے۔

عدالتی فیصلہ شیخ الاسلام کے خلاف گیا تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور بے قابو ہوکر چیف جسٹس اور عدلیہ پر تنقید کے تیر برسانے لگے، صاف نظر آرہا تھا کہ ان کی انا کو شدید ٹھیس پہنچی ہے، لیکن عدالت فیصلے شخصی پسند اور ناپسند کے مطابق نہیں بلکہ آئین و قانون کی روشنی میں کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس عدالت پر ڈاکٹر صاحب وطن واپسی کے بعد مسلسل اعتماد کا اظہار کررہے تھے اپنی پٹیشن خارج ہونے کے بعد بھی اسی اعتماد کا اظہارکرتے مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا اور شیخ الاسلام پیپلزپارٹی کے رہنما فیصل رضا عابدی کی صف میں جا کھڑے ہوئے۔

دراصل، عدالت کے سامنے پیش ہونے سے قبل شیخ الاسلام ہر چیز ڈکٹیٹ کرا رہے تھے، روز نیا الٹی میٹم دیتے، کبھی قومی اسمبلیاں تحلیل کرتے نظر آتے تو کبھی حسینیت کا نعرہ لگا کر یزیدیوں کو گلے سے لگاتے دکھائی دیتے۔ وفاقی وزرا ان کی درگاہ میں حاضریاں دے رہے تھے، تحریک انصاف بھی ان کی حمایت کے حصو ل کے لیے کوشاں تھی، ایسے میں خیال تھا کہ اگر عدالت نے انتخابات سے صرف چند ماہ قبل الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کا حکم دے دیا تو پھر ارکان کی نامزدگیوں اور تقرریوں کے معاملے پر اختلافات کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا۔ قومی اسمبلی تو 15 مارچ کو اپنی مدت پوری کرکے از خود تحلیل ہوجائے گی لیکن الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کا عمل مکمل نہ ہوسکے گا۔ اس سے پہلے نگران حکومت کی تشکیل کا مسئلہ بھی کھڑا ہوتا، یہ بحث ابھی ختم نہیں ہوئی ہے کہ نگران وزیر اعظم کون ہوگا؟ غرض کوئی وجہ نہ تھی کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوجاتے بلکہ اداروںکی عدم موجودگی کے باعث ملک میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوجاتی، یوں جمہوری عمل بھی داؤ پر لگ جاتا۔

عدالت اس ساری صورتحال پر گہر ی نظر رکھے ہوئے تھی، اس لیے آخری روز سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کررہی ہے، انتخابات ہونے والے ہیں، ایسی صورتحال میں ایک شخص آکر کہتا ہے سب کچھ ختم کردیں، کیا اسے نیک نیتی سمجھا جائے؟ اٹارنی جنرل وضاحت پیش کرتے ہیں اس میں بدنیتی بھی نہیں ہے۔ اس پر چیف جسٹس استفسار کرتے ہیں نظام کو چلنے نہ دینا نیک نیتی ہے یا بدنیتی؟

ڈاکٹر طاہرالقادری دو ماہ قبل پاکستان سیاسی منظرنامے پر انتخابی اصلاحات کے نعرے کے ساتھ دوبارہ اُبھرے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں خالدہ ضیا حکومت جب اپنی مدت پوری کرچکی اور انتخابات سر پر تھے تو اس وقت اپوزیشن رہنما حسینہ واجد نے عبوری حکومت کی تشکیل کے معاملے پر ملک میں ایک ہنگامہ کھڑا کردیا تھا، مہینوں کی ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں نہ صرف انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے بلکہ غیر آئینی طور پر فوج کی حمایت سے دو سال کے عرصے کے لیے ملک میں عبوری حکومت تشکیل دی گئی، بنگالی آرمی چیف مشاورتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کرتے اور فیصلوں پر اثر انداز ہوتے۔ پہلے بدعنوانی کے نام پر سیاستدانوں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی، پھر انتخابی نظام میں اصلاحات کا سلسلہ شروع ہوا، انتخابات ہوئے تو 4 جماعتی اتحاد کے حصے میں بدترین شکست اور حسینہ واجدکے حصے میں فتح آئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ’بنگلہ دیش ماڈل‘ کے نتیجے میں بننے والی حکومت اقتصادی محاذ پر تو کوئی بڑی پیش رفت نہ کرسکی مگر ملک میں ایسے تمام عناصر کو جنگی جرائم کے نام پر چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے جنہوں نے 71 میں تقسیم پاکستان کے مخالفت کی تھی۔

پاکستان میں بھی گزشتہ ایک سال سے بنگلہ دیش ماڈل کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ وہ تمام عناصر جو انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار نہیں آسکتے ملک میں کم از کم 2 سال کے عرصے کے لیے نگراں حکومت کا قیام چاہتے ہیں۔ بعض اصحاب تو اس کا اظہار کھلے الفاظ میں کررہے ہیں۔ انتخابات سے چند ماہ قبل انتخابی نظام میں اصلاحات اور پھر الیکشن کمیشن کی تحلیل کا مطالبہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے مگر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ماضی میں بھی واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان میں بنگلہ دیش ماڈل نہیں چلے گا اور طاہرالقادری کی درخواست خارج کرکے عدالت نے بتادیا ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کے کسی غیر آئینی کھیل کا حصہ نہیں بنے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔