عمران خان کے لیے ایک نصیحت

نصرت جاوید  ہفتہ 4 اگست 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

محاورے ایسے ہی نہیں بن جایا کرتے۔ ان کے پیچھے صدیوں پر محیط نسلوں کے روزمرہ زندگی میں درپیش مسائل اور حقائق ہوا کرتے ہیں۔ محاورے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ سادہ اور مختصر ترین لفظوں میں بڑے گنجلک اور پیچیدہ معاملات کی بڑی وضاحت سے تشریح کر دیتا ہے۔ اسی خوبی کو اشتہاری کمپنیوں نے پوری طرح سمجھا اور ہمیں ’’صابن ہو تو 707‘‘ جیسے فقرے دیے۔ آج کی مصروف دنیا میں سیاست دان وہ مشہور ہوتا ہے جو ایک فقرے (One Liner) میں اپنی بات کہہ سکے۔

انٹر نیٹ پر ٹویٹر جو اتنا مقبول ہو رہا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ آپ کو 150 سے بھی کم لفظوں میں اپنی بات کہنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بنیادی طور پر فارغ نوجوانوں کی اکثریت اس سہولت کو علم وتحقیق کی فراوانی کے بجائے لوگوں کی توہین وتحقیر کے لیے استعمال کرتی ہے یا اپنے دیوتا بنائے سیاسی رہ نمائوں کے ساتھ اندھی عقیدت کے اظہار کے لیے۔

میرا مقصد اس کالم کے ذریعے محاوروں کی بُنت کے حوالے سے لسانی تشکیلات والا کوئی لیکچر دینا نہیں ہے، خواجہ آصف کی بدھ کو شوکت خانم اسپتال کے مالی معاملات کے حوالے سے کی جانے والی پریس کانفرنس اور پھر عمران خان اور ان کے متوالوں کی جانب سے آئے ردعمل پر تھوڑا غور کرنا ہے۔ میں نے اسی مقصد کی خاطر قلم اٹھایا تو سب سے پہلے ’’نیکی کردریا میں ڈال ‘‘ والا محاورہ ذہن میں اُچھل آیا۔

ابھی اس کو ہضم بھی نہ کر پایا تھا کہ وہ کہاوت یاد آ گئی جو اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ خیرات اس طرح بانٹو کہ دائیں ہاتھ والے کو بائیں طرف بیٹھے کی خبر بھی نہ ہو۔

کوئی ذہنی طور پر لاعلاج اور اپنی سرشت میں متعصب شخص ہی شوکت خانم اسپتال کی اہمیت سے انکار کر سکتا ہے۔ عمران خان تعریف کے مستحق ہیں کہ انھوں نے پاکستان کے لیے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد اپنی ذات کے لیے پیدا ہونے والی عزت و پیار کو بھکاریوں کی طرح گلی گلی جا کر چندہ اِکٹھا کرنے کے بعد کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کے لیے ایک جدید ترین اسپتال قائم کرنے کی خاطر استعمال کیا۔

اس ایک شخص نے وہ کچھ کر دکھایا جو ہمارے ملک میں آتی جاتی کمزور یاطاقتور حکومتیں کبھی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ میں آج بھی بڑے درد سے یہ خواہش کرتا رہتا ہوں کہ کاش عمران خان اپنی زندگی کو اسپتال اور تعلیمی ادارے بنانے کے نام وقف کر دیتے۔ مگر یہ نہ ہوسکا۔

اس بات پر ایک اور محاورہ یاد آ گیا جو نوجوان بیوہ سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہے جو اپنی بیوگی کے دن گوشہ تنہائی میں کاٹنے کو تیار ہوتی ہے مگر محلے کے اوباش نوجوان اسے ایسا کرنے ہی نہیں دیتے۔ مجھے شبہ نہیں بلکہ اچھی طرح پتہ ہے کہ کن لوگوں نے عمران خان کو سیاست کے راستے پر ڈالا جس میں پگڑی اچھلے اور اچھالے بغیر گزارہ ہی نہیں ہوتا۔ عمران خان کو سیاسی بازار میں ایک ’’پراڈکٹ‘‘ کے طور پر متعارف کرانے کے سچے یا جھوٹے دعوے داروں میں ایک جنرل مجیب الرحمٰن بھی ہوا کرتے تھے۔ جنرل ضیاء کے مارشل لائی دنوں میں انھیں وزارتِ اطلاعات میں بے پناہ اختیارات حاصل تھے۔

ان اختیارات کو انھوں نے ضیائی مارشل لاء کے دنوں میں لوگوں کی توجہ ’’غیر سیاسی‘‘ چیزوں کی طرف مائل کرنے کی طرف بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ وہ جانتے تھے کہ لوگوں کو برسر عام کوڑے مارتے ہوئے پاکستان ٹیلی وژن پر Live دکھانا ضیاء الحق کی مدد نہیں کرے گا، لوگوں کو Feel Good چیزیں دکھانا ہوں گی۔ اسی لیے تو انھوں نے دن رات لگا کر پاکستان ٹیلی وژن کو اس قابل بنایا کہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہونے والے کرکٹ اور ہاکی میچوں کو براہِ راست دکھا سکے۔ جنرل مجیب قسمت کے دھنی یوں بھی ثابت ہوئے کہ ان دنوں یہ دونوں کھیل ایئر مارشل نور خان جیسے چوکس اور ذہین فرد کی سرپرستی میں کھیلے جاتے تھے اور پاکستان اکثر ان کے مقابلوں میں جیت بھی جایا کرتا تھا۔

مجیب صاحب کو مگر یہ گھمنڈ ہوگیا کہ ان کے ہاتھ کوئی ایسی گیدڑ سنگھی آ گئی ہے جس کے استعمال سے وہ لوگوں کی قسمتیں بنا اور بگاڑ سکتے ہیں۔ ان سے آخر کار چوک یہ ہوگئی کہ وہ محمد خان جونیجو کو سمجھ ہی نہ پائے۔ 1985ء کے انتخابات کے بعد ضیاء الحق نے پیرپگاڑا کی سفارش پر سندھڑی سے ایک ’’مسکین‘‘ سے شخص کو وزیر اعظم نامزد کر دیا تھا۔ قومی اسمبلی میں اپنے ووٹ گنوانے کے بعد اس ’’مسکین‘‘ شخص نے صحافیوں سے بات کی تو صرف ایک فقرے میں اور وہ یہ کہ ’’مارشل لاء اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘

جنرل مجیب صاحب نے یہ فقرہ پاکستان ٹیلی وژن کے نو بجے والے خبرنامے میں چلنے نہ دیا اور جونیجو صاحب نے اسی وقت انھیں OSD بنا دیا۔ جونیجو صاحب کے بعد کئی حکومتیں آئیں اور فارغ ہوئیں مگر کسی نے بھی مجیب مرحوم کی عقل و دانش کو استعمال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ موصوف اپنے گھر میں تنہا بیٹھے کڑھتے رہتے۔ پھر اچانک 1995ء کے آخری مہینوں میں ان کے چہرے کی رونق اور بدن بولی میں ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی والی رعونت لوٹ آئی۔ میں ان سے گستاخانہ حد تک بے تکلف ہونے کی جرأت کر لیا کرتا تھا۔ ایک دن انھیں خوب کریدا تو بول اُٹھے کہ ’’عمران خان کو لیڈر بناکر رہنا ہے۔‘‘ پتہ نہیں مجیب مرحوم جیسے کئی اور لوگ بھی یہ گماں کیے بیٹھے ہوں گے۔

سیاسی عمران خان کے ’’خالق‘‘ ہونے کے دعوے داروں کی خود ستائشی اور مبالغہ آرائی ایک طرف رکھتے ہوئے ہمیں یہ بات ماننا ہو گی کہ یہ شخص اپنی مسلسل محنت سے ’’تبدیلی کا نشان‘‘ بنا ہے۔ مگر 30 اکتوبر2011ء کو لاہور میں ہونے والے شاندار جلسے کے بعد اسے ’’کچھ ہوگیا‘‘۔ اس نے سیاست میں وہ زبان اور لہجہ اختیار کر لیا جو اس دھندے میں کام نہیں آتا۔ سیاست ممکنات کا کھیل ہوا کرتا ہے۔ اس میں قدم قدم پر سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں۔ جو لوگ مکمل پارسائی کے مقام پر پہنچ جائیں۔ وہ نیک ہستیاں اس کاروبار سے دور رہتی ہیں۔ کسی پہاڑکی چوٹی یا گھاٹی میں تنہا بیٹھ کر مراقبے میں ڈوبی رہتی ہیں۔

عمران خان کی خود پرستی میں مبتلا کرنے والی پارسائی تو پھر بھی سمجھی اور گوارا کی جا سکتی تھی۔ مگر ان کے پرستاروں نے تو حد ہی کر دی۔ ان کی نظر میں ہر وہ شخص بکائو اور بدعنوان ٹھہرا جو عمران خان میں مسیحا ہونے کے نشانات نہ دیکھ پاتا۔ نیوٹن کے مطابق ردعمل، عمل کی شدت کے مطابق ہی ہوا کرتا ہے۔ اب دوسری ’’پارٹیوں‘‘ کو بھی ٹویٹر اور فیس بک استعمال کرنا آگیا ہے۔ ایسے میں ضرورت بس اتنی تھی کہ کوئی تگڑا آدمی میدان میں آ کر عمران خان کو عین ان ہی ’’ٹیکنیکل معاملات‘‘ کے بارے میں للکارے جن پر تحریک انصاف والوں کی اجارہ داری ہوا کرتی تھی۔

خواجہ آصف ایک جی دار آدمی تو ہیں مگر تحقیق کی لگن بھی رکھتے ہیں۔ اپنے ہدف کو چن کر اس کے ’’کمزور‘‘ پہلو ڈھونڈتے رہتے ہیں اور پھر بڑی شاندار ٹائمنگ کے ساتھ جارحانہ حملہ کر دیا کرتے ہیں۔ میں بڑی دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے خواجہ آصف نے بدھ کو عمران خان کو محض ’’ٹیکنیکل مار‘‘ ماری ہے۔ دُنیا بھر میں خیراتی ادارے محض چندوں پر نہیں چلاکرتے۔ انھیں اپنے منصوبوں کو دیرپا بنیادوں پر زندہ رکھنے کے لیے منفعت بخش دھندوں میں سرمایہ کاری کرنا ہی پڑتی ہے۔

عمران خان ایسے دھندوں کی پیچیدگیوں کو جان ہی نہیں سکتا۔ انھیں کسی نہ کسی پر بھروسہ کرنا ہے۔ انھوں نے بھروسہ کیا اور ایک خطیر رقم یقیناً ضایع ہو گئی۔ مگر خواجہ آصف یہ بھی تو ثابت نہیں کر سکتے کہ عمران خان نے مختلف دھندوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری اپنی ذات یا خاندان والوں کے لیے عشرت بھری زندگی کے حصول کے لیے کی تھی۔ عمران خان کی اپنی نیت اور مقصد نیک ہی رہے۔ مگر وہ سیاست کے میخانے میں آ چکے ہیں۔ یہاں پگڑی ہی اُچھلاکرتی ہے۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ وہ شوکت خانم کے مالی معاملات کو اور زیادہ شفاف بنائیں اور اس معرکۃ الارا معجزہ نما منصوبے کو اپنی سیاسی ساکھ بڑھانے کے لیے ہرگز استعمال نہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔