- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
امریکی دھمکیاں اور پاکستان کی گھاس چرتی وزارتِ خارجہ
’’ہمارے لیے بہتر ہو نہ ہو لیکن اِس پاگل کا منتخب ہونا خود اِس کے اپنے ملک کے لیے تو بہتر ہی ہوگا، تب ہی اِسے عوام نے منتخب کیا ہے۔‘‘ یہ میری ابتدائی رائے ڈونلڈ جے ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے پر تھی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ رائے تقویت پا رہی ہے کہ وہ اپنے پاگل پن کا نشانہ دوسرے ممالک کو تو بنارہا ہے مگر امریکی مفادات کے پیش نظر اِس سے زیادہ عاقل شخص میری نظر میں تو کوئی دوسرا نہیں۔ اگر قارئین کو معلوم ہو ایسا شخص کوئی اور بھی ہے تو مجھے ضرور مطلع کریں۔
میکسیکو کی سرحد کے ساتھ دیوار کی تعمیر ہو یا شورش زدہ علاقوں سے فوج کی تعداد میں کمی، اخراجات کے حوالے سے نیٹو ممالک کی کان کھنچائی ہو یا پھر ہم خیال ممالک سے تعلقات، وہ ہر معاملے میں امریکی مفادات کا تحفظ کررہا ہے؛ اور میرے جیسے دیوانے جو توقع لگائے بیٹھے تھے کہ شاید اقتدار میں آنے کے بعد اِس کی روش تبدیل ہوجائے، ان کی یہ امید ایک خواب ہی رہی، حقیقت کا روپ نہیں دھار سکی۔
اور ہم خود کہاں کھڑے ہیں؟ وہ ہمارا نہیں امریکہ کا صدر ہے۔ وہی کرے گا جس سے اُس کے ملک کا مفاد وابستہ ہوگا۔ وہ اپنے لے پالک بیٹے اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات مضبوط کرے گا، بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں بھی مزید بلندی چھوئیں گی، وہ چین کی مخالفت میں اندرون خانہ اقدامات بھی کرتا رہے گا، ساتھ ہی بیرونی دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے پاگل پن دکھاتا رہے گا۔ مگر ہم نے اِس سارے معاملے میں ایسا کونسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ جس سے یہ تاثر ملتا ہو کہ ہم نے حال ہی میں اپنا سترواں (70) یوم آزادی منایا ہے اور اب ڈکٹیشن لینے سے آگے بڑھ چکے ہیں؟
مودی تو اتنا مضبوط ہوگیا کہ اپنے دامن پر گجرات میں مسلم کش فسادات کے ان مٹ داغ لیے ہونے کے باوجود بھی دنیا کی سُپر پاور کے کندھے پر اپنی بندوق رکھ کر چلا رہا ہے؛ اور وہ سپر پاور بھی اُس کی باندی بن کر اپنا کندھا بخوشی پیش کررہا ہے۔ لیکن اُس کے متبادل سی پیک کی بھبھکی کے علاوہ ہم نے دنیا کو کیا پیغام دیا جس سے ثابت ہو کہ ہم بے شک امریکہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن ہم میں ایران یا وینزویلا جتنی طاقت تو ضرور ہے کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور ہماری فوج سے دنیا نہیں ڈرتی؟ افسوس ہم ایسا کچھ نہیں کر پائے۔ بھارت سپر پاور کے کندھوں تک پہنچ چکا ہے جب کہ ہم ابھی تک اُس کے پاؤں سے ہی نہیں اُٹھ پائے۔ ہمارے حق میں چین بول پڑا اور واضح انداز میں بیان دیا مگر ہم شاید ابھی تک وہ کی بورڈ ایجاد ہی نہیں کر پائے جس سے ایک واضح جواب ٹائپ کرسکیں۔
روس اور چین اپنے مفادات کے لیے ہمارے حق میں بول پڑے لیکن اپنے مفاد کے لیے ہم نہ بول سکے، اور حیرت کی بات ہے جو سویلین حکمران فوج کے کردار پر تنقید کرتے ہیں وہ اِس لمحے کیوں خاموش ہو جاتے ہیں جب فوج آگے بڑھتی ہے اور اِس طرح کے پاگل پن پر دنیا کو جواب دیتی ہے۔ اِس وقت نہ جانے کیوں سویلین حکومت یہ نہیں کہتی کہ جناب آپ کا کام سرحدوں کا دفاع ہے، دنیا کو منہ توڑ جواب ہم دیں گے، دفتر خارجہ دے گا، وزیر خارجہ دے گا۔ ایسا نہیں ہوتا لیکن لولے لنگڑے سے بیانات اصل معاملے کے دو سے تین دن بعد آنا شروع ہو تے ہیں۔ وہ بھی شاید یہ دیکھنے کے بعد کہ کس کے بیان سے کون سا لفظ اُدھار لیں اور کس کی مذمت سے کون سا فقرہ؛ اور یوں ادھورا سا جواب ہم میڈیا کی زینت بنا دیتے ہیں۔
خدا کرے کہ ہم اُسی تیزی سے دنیا کو بھی جواب دینے کی صلاحیت پیدا کرلیں جس طرح ہم اپنے کسی سیاسی مخالف کے بیانات کے جواب میں تیزی دکھاتے ہیں۔ ابھی کسی فریق کی پریس کانفرنس، جلسہ، ریلی جاری ہوتی ہے کہ اُس کے دوران ہی پریس کانفرنس یا جلسے میں کہی گئی باتوں کے جواب آنا شروع ہو جاتے ہیں لیکن عالمی سطح پر جب ہمارا عیار دشمن عالمی طاقتوں کے کندھوں پر کنٹرول حاصل کر کے اپنے الفاظ اِس طاقت کے منہ میں ڈال دیتا ہے تو ہم کون سا ستو پی کر سو جاتے ہیں کہ اُس کا خُمار اترنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
یاد رکھیے! چین نے کُھل کر فوراً امریکہ جواب دیا کیوں کہ چین کے اپنے مفادات بھی وابستہ ہیں۔ چین ون بیلٹ ون روڈ میں کسی بھی جگہ رکاوٹ نہیں آنے دے گا، وہ جانتا ہے کہ سی پیک جیسا اہم منصوبہ اسی ون بیلٹ ون روڈ عالمی منصوبے کا حصہ ہے۔ روس اگر امریکہ کی مخالفت کرتا ہے تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری یاری میں کررہا ہے بلکہ وہ خود پر کیے گئے وار کو بھولا نہیں ہے اور اب اِس قدر سنبھل چکا ہے کہ امریکہ کی آنکھ کا کانٹا بن چکا ہے۔ ہمیں اپنے دوستوں پر انحصار کرنا ہوگا مگر اِس سے پہلے ہمیں دوستوں کو دکھانا ہوگا کہ ہم خود کیا ہیں اور ہم اپنی سالمیت کے دفاع کے حوالے سے کس قدر سنجیدہ ہیں۔
ہم خود اپنے آپ کو درست سمت میں گامزن کریں گے تبھی ہمارے دوست بھی ہمارے شانہ بشانہ چلیں گے۔ نظر آنا چاہیے کہ یہ وزیر خارجہ ایک ایٹمی قوت کا وزیرِ خارجہ ہے نہ کہ ایک عہدے سے سبکدوش ہو جانے والے سیاسی رہنما کا کارندہ۔ کندھے جھکانے سے انکار کر کے کبھی تو سینہ چوڑا کر کے کہیں کہ ہم دنیا کے ایک ایٹمی قوت کے حامل ملک کی طرح مل کر چلیں گے نہ کہ کسی دور افتادہ شورش زدہ کسی افریقی ملک کی طرح۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔