کراچی کا پہلا تجارتی بازار، مچھی میانی مارکیٹ

مختار احمد  ہفتہ 26 اگست 2017
 مورخین کے مطابق کراچی میں کوئی تجارتی مرکز نہیں تھا اور شہر کی بیشتر آبادی جو کہ مچھیروں پر مشتمل تھی اُن کی محنت مشقت سے پکڑی گئی مچھلیاں اکثر و بیشتر گل سڑ جایا کرتی تھیں۔ فوٹو:فائل

مورخین کے مطابق کراچی میں کوئی تجارتی مرکز نہیں تھا اور شہر کی بیشتر آبادی جو کہ مچھیروں پر مشتمل تھی اُن کی محنت مشقت سے پکڑی گئی مچھلیاں اکثر و بیشتر گل سڑ جایا کرتی تھیں۔ فوٹو:فائل

دنیا میں جہاں تک تجارت کی ابتداء کا تعلق ہے تو اُس کا آغاز دنیا کے وجود میں آتے ہی ہوگیا تھا مگر کیونکہ اُس وقت کسی قسم کی کوئی کرنسی موجود نہیں تھی لہذا لوگ بارٹر سسٹم کے تحت اشیاء ضرورت کے تبادلے کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص گندم اُگاتا تو وہ دال اور سبزی اگانے والے سے گندم کے بدلے سبزی اور دال لے لیتا اور اسے اپنی گندم دے دیا کر تا تھا۔ بارٹر سسٹم کا یہ طریقہ کار عرصہ دراز تک رائج رہا مگر جب انسان نے ترقی کی منازل طے کیں تو اُس نے ابتداء میں پتھر کے ٹکڑوں، سیپیوں اور پھر کوڑیوں، اشرفیوں اور سکوں کے ذریعے خرید و فروخت کا سلسلہ شروع کیا جو کہ آج بھی رائج ہے مگر اب پتھر کے ٹکڑوں کے بجائے خریداری کے لئے کرنسی نوٹوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اب جہاں تک کراچی میں تجارت کے آغاز کا تعلق ہے تو چونکہ کراچی کو ایک بین الااقوامی بندر گاہ کا درجہ حاصل تھا اور یہاں دنیا بھر کے مختلف ممالک سے تجارت کی جاتی تھی، اشیائے ضروریہ درآمد اور برآمد کی جاتی تھی جن میں قیمتی پتھر، خشک مچھلی، ہڈیاں، چمڑے کے رنگ، کپڑا، اُون، گھی، گندم، تیل، قلمی شورے کی تجارت ہوتی تھی۔ یہ تمام تجارت بندرگاہ پر ہی کی جاتی اور اِس کے لئے کوئی بازار قائم نہیں تھا جس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی تھی۔ مورخین کے مطابق کراچی میں کوئی تجارتی مرکز نہیں تھا اور شہر کی بیشتر آبادی جو کہ مچھیروں پر مشتمل تھی اُن کی محنت مشقت سے پکڑی گئی مچھلیاں اکثر و بیشتر گل سڑ جایا کرتی تھیں۔

اِس صورت حال کو دیکھتے ہوئے تالپور دور میں ہی فصیل شہر کے دروازے کھارادر کے باہر ایک بڑے سے گراؤنڈ میں مچھلیوں کی خرید و فروخت کے لئے باقاعدہ طور پر ایک مارکیٹ بنائی گئی۔ مچھیرے اپنی بادبانی کشتیوں کے ذریعے صبح سے شام تک سمندری لہروں کا مقابلہ کرتے ہوئے مچھلیاں پکڑتے اور پھر انہیں فروخت کرنے کے لئے آج کی مچھی میانی مارکیٹ کے گراؤنڈ میں لے آتے، جس کے گرد اُس وقت صرف ایک چار دیواری موجود تھی۔ پھر جب انگریزوں نے یہاں قبضہ کیا تو 1855ء میں باقاعدہ طور پر مچھی میانی مارکیٹ کی تعمیر کی جس کے بعد جوڑیا بازار اور اُس وقت کے کلکٹر کراچی مسٹر سی ایف بولٹن کے نام سے بولٹن مارکیٹ تعمیر کی گئی۔

اسی دور میں لکشمی داس مارکیٹ، کوچن والا مارکیٹ و دیگر مارکیٹوں کو بھی تعمیرات کے بعد آباد کردیا گیا۔ کیونکہ انگریزوں کی آمد کے بعد برطانوی افواج کو بھی خریداری میں دشواریوں کا سامنا تھا۔ لہذا صدر کے علاقے میں ایک کیمپ بازار قائم کیا گیا جہاں صرف فوجیوں کو خریداری کی اجازت تھی لیکن اِس کے باوجود انگریزوں نے مچھی میانی مارکیٹ پر اپنی توجہ کم نہیں کی۔ گو کہ اب اِس مچھی میانی مارکیٹ میں مچھلیاں تو فروخت نہیں کی جاتیں لیکن یہاں گھریلو سامان جن میں کپڑے، جوتے، ہوزری، کاسمیٹکس و دیگر اشیاء شامل ہیں، جو فروخت کی جاتی ہیں۔

آج بھی بازار کے قدیم ترین بورڈ پر اِس کا نام مچھی میانی مارکیٹ ہی لکھا ہوا ہے اور لوگ بھی اسے مچھی میانی مارکیٹ کے نام سے ہی جانتے اور پہچانتے ہیں اب جہاں تک مچھلی کے کاروبار کا تعلق ہے تو وہ کراچی فش ہاربر کو منتقل ہوچکا ہے، اور وہیں مچھلیوں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔

اِس مارکیٹ سے کچھ ہی فاصلے پر دریا لعل مندر ہے۔  دریا لعل مندر کے وجے مہاراج سے بات چیت کے دوران پتہ چلا کہ دریا لعل مندر، مچھی میانی مارکیٹ، ناخدا مسجد، دھرم شالہ اور نیو نہم روڈ قلعے کے اندر تھے اور جب انگریزوں نے 1840ء میں شہر کے دو دروازوں کھارادر اور میٹھا در کو مسمار کرا کے شہر سے ملایا تو مچھی میانی مارکیٹ سمیت یہ تمام جگہیں قلعے سے باہر آئیں جس کے آثار آج بھی نظر آتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف  کیساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔