ٹرمپ کی دھمکی؛ قومی اتفاق رائے کی ضرورت

ایڈیٹوریل  جمعـء 25 اگست 2017
پاکستان یہ بارہا واضح کر چکا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کر رہا ہے۔فوٹو: فائل

پاکستان یہ بارہا واضح کر چکا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کر رہا ہے۔فوٹو: فائل

امریکی صدر کے دھمکی آمیز بیان کے بعد پاکستان میں ملکی سلامتی اور خود مختاری کے حوالے سے تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور اس گمبھیر صورت حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سرجوڑ کر بیٹھ گئی ہے۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت جمعرات کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی‘ تینوں مسلح افواج کے سربراہان‘ قومی سلامتی کمیٹی کے ارکان‘ وزیر دفاع‘ وزیر خارجہ‘ وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ ذرایع کے مطابق اجلاس کے شرکاء نے امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ادھر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکا کی نئی افغان پالیسی کے حوالے سے لائحہ عمل طے کرنے اور صورت حال کے بہتر حل کے لیے سعودی عرب میں اعلیٰ حکام سے صلاح مشورے بھی کیے۔

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے پاک امریکا تعلقات کی نئی پالیسی پر سینیٹ میں رہنما اصول وضع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سفارشات کی تیاری کے لیے 6رکنی سب کمیٹی قائم کر دی ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستان کو ویتنام اور کمبوڈیا نہ سمجھے اس نے کوئی غلطی کی تو پاکستان امریکی فوجیوں کا قبرستان بن جائے گا‘ انھوں نے کہا کہ وزیر خارجہ کو دورہ امریکا ملتوی کر دینا چاہیے اس سے اسے اچھا پیغام جائے گا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بدھ کو جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے ملاقات کے موقع پر اپنا موقف ان پر واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امریکا سے کسی بھی مالی یا عسکری امداد کی ضرورت نہیں بلکہ ہم اعتماد اور قربانیوں کا اعتراف چاہتے ہیں۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑی اور اب بھی وہ آپریشن ضرب عضب کے بعد ردالفساد کے نام پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان نے بے انتہا قربانیاں دی ہیں اور اب بھی اس کے سیکیورٹی اہلکار دہشت گردوں کا مسلسل نشانہ بن رہے ہیں۔ امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے موقع پر اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کی قدر کرتا ہے لیکن حیرت انگیز امر ہے کہ اس اعتراف کے باوجود امریکا پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے اسے دھمکیاں دے رہا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں جو تصویر ابھرتی ہے وہ اس امر کی غماز ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنے تمام تر وسائل اور قوت کے باوجود ناکام ہو چکا اور وہ اپنی ان ناکامیوں کا الزام پاکستان پر لگا رہا ہے، اس نے افغانستان میں مزید فوج بھیجنے کا بھی اعلان کیا ہے لیکن اس حقیقت کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ 16برسوں سے جاری جنگ سے افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکا اور جنگجو آج بھی امریکا اور نیٹو فورسز کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کرنے پر ٹرمپ کے بیان سے پاکستان کو شدید مایوسی ہوئی۔ ٹرمپ کا بیان اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ امریکا افغانستان کے اندر اب پاکستان کے کردار کو ختم کر کے بھارت کے کردار کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ پاکستانی حکام کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے کوئی بھی پالیسی تشکیل دیتے وقت پاکستانی مفادات کا تحفظ کیا جائے مگر اب امریکا نے پاکستانی مفادات تو رہے ایک طرف پاکستانی سلامتی اور خود مختاری کے حوالے سے سوالات پیدا کر دیے ہیں۔

تجزیہ نگار تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ابھی امریکا نے پاکستان کے خلاف صرف دھمکی آمیز رویہ اپنایا ہے اگر مستقبل میں عملی قدم اٹھاتے ہوئے اس نے کوئی کارروائی کی تو اس صورت میں پاکستان کی حکمت عملی کیا ہو گی۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا رہا تو وہ نان نیٹو اتحادی کی حیثیت کھو دے گا۔

پاکستان یہ بارہا واضح کر چکا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کر رہا ہے اور اس نے دہشت گردوں کو کوئی ٹھکانے فراہم نہیں کیے بلکہ ان کے ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں جہاں سے وہ نہ صرف افغانستان کے اندر کارروائیاں کر رہے بلکہ پاکستان میں بھی داخل ہو کر اس کی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کر رہے ہیں۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان سرحد کے ساتھ ساتھ باڑ لگانے کے علاوہ سرحدی نگرانی کا نظام موثر بنا رہا ہے۔اس پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے علاوہ  دہشت گردی کے خلاف اپنی بے مثال قربانیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔