امریکا میں مذہبی یکجہتی کے مظاہرے

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 25 اگست 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

امریکی ریاست منی سوٹا کی مسجد میں  ہونے والے دھماکے کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں لوگ مسجد کے باہر جمع ہوگئے اور امریکی انتہا پسندوں کے خلاف سخت احتجاج کیا، ان احتجاجی مظاہرین میں زیادہ تعداد غیر مسلموں کی تھی جن میں سیاستدان بھی شامل تھے۔

اسلامی مرکز کے منتظم اعلیٰ محمد عمر نے اس موقعے پر تقریرکرتے ہوئے کہاکہ اس اجتماع کا مقصد جس میں غیر مسلموں کی بھاری تعداد نے شرکت کی یہ ظاہرکرنا تھا کہ امریکا میں رہنے والے مسلم تنہا نہیں ہیں ان کے ساتھ امریکا میں رہنے والے غیر مسلم بھی ہیں۔ یہ اجتماع ان انتہا پسندوں کے لیے ایک پیغام بھی ہے جو امریکی معاشرے میں مذہبی تفریق کا زہر پھیلانا چاہتے ہیں۔ اجتماع میں شامل لوگوں نے غیر مسلم انتہا پسندوں کو متنبہ کیا کہ وہ امریکی معاشرے میں مذہب کے حوالے سے تفریق پھیلانے سے باز رہیں۔ مسجد پر حملے کے بعد تین دنوں کے دوران ہزاروں امریکیوں نے مسجد آکر مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا۔

امریکا میں جب سے ٹرمپ برسر اقتدار آیا ہے اور تارکین وطن اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہا ہے، امریکا میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے، لیکن امریکی عوام کی بھاری اکثریت امریکی مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف ہے جس کا اندازہ امریکی ریاست منی سوٹا کی مسجد پر حملے کے خلاف  ہونے والے احتجاج میں بھاری تعداد میں غیر مسلموں کی شرکت سے کیا جا سکتا ہے۔

پچھلے دنوں امریکی شہر لاس اینجلس سے ہمارے ایک دوست اور ہمارے کالموں کے قاری ذیشان صاحب نے فون کرتے ہوئے یہ دلچسپ بات بتائی تھی کہ بیدری بھائی اسلام تو مجھے امریکا میں نظر آتا ہے اسلامی اصولوں خاص طور پر مذہبی یکجہتی جیسے اصول امریکا کے ہر علاقے میں نظر آتے ہیں، بلاشبہ امریکی معاشرے میں غیر مسلم مذہبی انتہا پسند موجود ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے عام امریکی اعتدال پسند ہیں۔

یہ ایک المیہ ہے کہ کسی ملک کے حکمرانوں کی پالیسی کے حوالے ہی سے ہم اس ملک کے عوام کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔ حالانکہ عوام کی بھاری اکثریت حکمرانوں کی پالیسی کے خلاف ہوتی ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت ہی کو لے لیں بھارت میں برسر اقتدار بی جے پی کا شمار بھارت کی مذہبی انتہا پسند جماعتوں میں ہوتا ہے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کے حوالے سے بہت بدنام ہیں لیکن بھارتی عوام کی بھاری اکثریت مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ہے۔ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکمرانوں کی سخت گیر پالیسیوں کو نہ عوامی حمایت حاصل ہے نہ بھارت کے اہل علم اور اہل دانش ان پالیسیوں کو پسند کرتے ہیں۔ مودی کی ان امتیازی پالیسیوں کے خلاف بھارت کے کئی ادیبوں، شاعروں نے حکومت کی طرف سے دیے گئے ایوارڈز واپس کردیے۔

امریکی معاشرہ مجموعی طور پر مذہبی یکجہتی پر مبنی معاشرہ ہے۔ امریکا میں دنیا کے تقریباً ہر ملک اور دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والے لوگ کروڑوں کی تعداد میں رہتے ہیں اور مدتوں سے رہتے آرہے ہیں بلکہ یہ سب تارکین وطن امریکی معاشرے کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔ غالباً امریکی معاشرے کی اسی خوبی کی وجہ سے ہر ملک، ہر مذہب کے لوگوں کی اولین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ وہ امریکا کی شہریت حاصل کریں۔ اس رجحان کی دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکا میں حکومت کسی پارٹی کی ہو عوام کو روزگار مہیا کرنا اپنی ذمے داری سمجھتی ہیں۔ مذہبی یکجہتی اور روزگار امریکی معاشرے کی روایتی خوبیاں ہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کے عوام کو اپنی طرف کھینچتی۔ ہمیں اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امریکا میں سب فرشتے رہتے ہیں۔ امریکا میں مذہبی انتہا پسند بھی ہیں اور جرائم پیشہ لوگ بھی موجود ہیں لیکن امریکی قوم مجموعی طور پر امن پسند اور غیر متعصب ہے۔

اصل میں امریکی معاشرے میں جو برائیاں دکھائی دیتی ہیں، خاص طور پر سماجی برائیاں وہ در اصل سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں ہم نے اپنے پچھلے ایک کالم میں امریکا کی سماجی برائیوں خاص طور پر جرائم کے حوالے سے میڈیا میں آنے والے اعداد و شمار پیش کیے تھے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی معاشرے میں جرائم کی صورتحال کیا ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم کراچی پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی جرائم کے حوالے سے کس مقام پر کھڑا ہوا ہے۔ کراچی کے عوام نہ گھر کے اندر محفوظ ہیں نہ گھر کے باہر محفوظ ہیں اور بد قسمتی سے جرائم پیشہ افراد میں سے نوے فی صد کا تعلق بیرون کراچی اور دوسرے صوبوں سے ہے جن میں افغان  بڑی تعداد میں شامل ہیں۔

امریکا سمیت دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں مذہبی انتہا پسندی کی لعنت برائے نام ہے ورنہ عوام کی بھاری اکثریت اعتدال پسند عوام کی ہے اگر امریکا میں مذہبی انتہا پسندی شدید ہوتی تو دنیا کے ملکوں کے عوام میں امریکا کے شہری بننے کی خواہش اتنی شدید نہ ہوتی۔ امریکا کے چرچوں میں بھی عبادت گزار لوگ بڑی تعداد میں جاتے ہیں اور اپنے مذہبی اصولوں کے مطابق عبادت کرتے ہیں لیکن امریکا کی ہی نہیں بلکہ تقریباً تمام مذہبی ملکوں کی عبادت گاہوں، گرجا گھروں میں آنے والے عبادت گزاروں میں مذہبی منافرت اور مذہبی انتہا پسندی کا پرچار کرتے ہیں۔

اس کے برخلاف ہماری عبادت گاہیں مذہبی اور فرقہ وارانہ تفریق کی آماجگاہیں  بنی ہوئی ہیں اور حکومت نے اس وجہ سے عبادت گاہوں میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ ہر مسجد کے باہر پولیس اور رینجرز کے پہرے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک کی بھی بھاری اکثریت اعتدال پسند ہے اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتی ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتیں محفوظ ہیں۔

اگرچہ ایک چھوٹی سی تعداد مذہبی انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتی رہتی ہے لیکن عوام کی بھاری اکثریت مذہبی انتہا پسندی کے سخت خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتیں اپنے آپ کو مجموعی طور پر محفوظ سمجھتی ہیں۔ اس حوالے سے یہ رجحان قابل تعریف ہے کہ نہ صرف سیاسی رہنما بلکہ مذہبی اعتدال پسند قیادت دوسرے مذاہب کے مذہبی تہواروں میں شرکت کر رہے ہیں بلکہ مرکزی اور صوبائی حکمران بھی مذہبی یکجہتی کے حوالے سے دوسرے مذاہب کے مذہبی تہواروں میں نہ صرف شرکت کررہے ہیں بلکہ ان تہواروں پر عام چھٹی کا اعلان بھی کررہے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت سندھ کا کردار بہت مثبت ہے۔

ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمان غیر منطقی طور پر ساری دنیا میں مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے بدنام ہورہے ہیں۔ کیونکہ مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے چند گروہ دنیا پر حکمرانی کا تسلط حاصل کرنے کے خبط میں مبتلا ہیں اور اس چھوٹی سی اقلیت کی فکری کجروی کی وجہ سے دنیا میں رہنے والے تمام مسلمانوں کو ملزم ٹھہرایا جارہا ہے اور اس حقیقت بلکہ شرمناک حقیقت کو نظر انداز کیا جارہا ہے کہ دہشتگردی کے مراکز اسلامی ملک ہی بنے ہوئے ہیں اور دہشتگردی کی کارروائیوں میں مسلمانوں ہی کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس کلچر کو فقہی اختلافات کا نام دیا جارہاہے لیکن نقصان اٹھانے والوں میں ہر فقہ کے ماننے والے شامل ہیں۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے والوں کو ان حقائق کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔