احتساب سب کا!

اکرام سہگل  جمعـء 25 اگست 2017

نواز شریف کی جی ٹی روڈ یاترا سے عیاں ہوگیا کہ ان کی نظر میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی کیا توقیر ہے اور قانون کی حکمرانی کا تصور ان کے نزدیک کیا ہے۔ ان کے اس اقدام سے واضح ہوگیا کہ 1998ء میں سپریم کورٹ پر مسلم لیگ ن کے کارکنوں کا حملہ محض حالات کا جبر نہ تھا بلکہ یہ  خاص سوچ کا مظہر تھا۔ اب بھی جب تک انھیں نااہل نہیں کیا گیا، وہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی عظمت کے قائل تھے، اس فیصلے کے بعد عدلیہ کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا گیا اور اشاروں کناؤں میں معزز ججوں پر کیسے کیسے طنز نہیں کیے گئے۔

اب اگر نظر ثانی کی اپیل بھی مسترد ہوجاتی ہے تو کیا ہو گا‘ اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ معذرت کے ساتھ حقیقت حال بیان کرنے کے لیے کچھ سخت لفظوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔اپنے اقتدار کو مفادات کے لیے استعمال کرنے والے سیاستدان بڑی ثابت قدمی سے اس تاثر کو ہوا دے رہے ہیں کہ ان کے خلاف امتیازی سلوک کیا گیا یا قانونی کارروائی کی بنیادیں سیاسی تھیں۔

خطے کے حالات اور داخلی سیاست کا جبر تھا کہ فوج مضبوط ہوئی اور خارجی خطرات سے حفاظت کے ساتھ ساتھ بدعنوان سیاسی کلاس سے ملک کو محفوظ رکھنے کی ذمے داری بھی اسی کے کاندھوں پر آ پڑی۔ بلاشبہ تعمیر وترقی اور معیشت میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ ہوسکی اور فوج کو حکومت کرنے کا خاصا نقصان ہوا۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ قومی سلامتی اور سپاہیوں کے مورال کے سبب افواج میں سخت احتساب کو بمشکل ہی کبھی منظر عام پر آنے دیا گیا۔ اس لیے عوامی سطح پر یہ تاثر پیدا ہوا کہ دیانت و احتساب کے نعرے صرف سیاست دانوں اور سویلینز ہی کے لیے ہیں۔ بہرحال فوج کو ادارہ جاتی سطح پر احتساب کو یقینی بنانا ہوگا۔ احتساب فوج کو مضبوط ادارہ بنانے والے نظم و نسق کا اہم ترین جزو ہے۔

روایتی خیال یہ ہے کہ نظم و نسق بنیادی طور پر حفظ مراتب کے سبب قائم ہوتا ہے، اعلیٰ افسران پر اعتماد اور اعتبار ہی ان کے ماتحتوں کو اطاعت گزار بنائے رکھتا ہے۔ نواز حکومت جنرل پرویز مشرف کی گرفتاری کو سیاسی ایشو بنا کر ان کی تضحیک کرنا چاہتی تھی۔ اگر ادارہ جاتی سطح پر ہی ان کا احتساب ہو جاتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔ پاکستان میں عدلیہ کا احتساب ماتحت عدلیہ تک محدود رہا ہے۔ خود احتسابی کا نظام موجود ہو تبھی عدلیہ بدعنوان افراد کا احتساب کرنے کے بھی قابل ہوتی ہے۔

دستور پاکستان کی دفعہ 209کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے احتساب کی ذمے دار ہے۔ تقریباً گیارہ ریفرنس اس وقت بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہیں، کئی برسوں سے یہ کونسل غیر فعال ہے۔گڈ گورننس بھی اسی وقت ممکن ہوگی، جج صاحبان اگر اپنے ساتھیوں کی بدعنوانی کو برداشت کرنے سے انکار کردیں۔

دستور ساز اسمبلی سے 11اگست 1947ء کو خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا تھا ’’بدعنوانی، اقرباء پروری اور رشوت ستانی کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا جائے۔‘‘ انسداد بدعنوانی کے بارے میں ان کا ویژن ’’انسداد بدعنوانی ایکٹ 1947ء‘‘ سے عیاں ہے۔ فوج اور عدلیہ سمیت اٹھارہ ’’سرکاری عہدوں‘‘ کو اس ایکٹ کے تحت لایا گیا تھا۔ بابائے قوم اور شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد کرپشن کا خاتمہ کرنے کے لیے 51 مختلف قوانین بنائے گئے جن میں ’’قومی احتساب آرڈیننس‘‘ واحد قانون ہے جس کی توثیق عدالت سے ہوئی اور آج تک یہ نافذ بھی ہے۔

نیب کو سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور آڈیٹر جنرل کی طرح ایک خود مختار اداراہ ہونا چاہیے، بصورت دیگر یہ سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کا محض ایک آلہ بن کر رہ جائے گا۔ جب پارلیمان کے ارکان، بیوروکریٹ، کاروباری افراد وغیرہ کے خلاف قانون حرکت میں آتا ہے تو وہ خود پر لگنے والے الزامات کو غلط ثابت کرنے کے بجائے اپنے دفاع کے لیے رائے عامہ کو ریاست کے دو انتہائی ناگزیر ستونوں، عدلیہ اور فوج، کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔

حالیہ واقعات، بالخصوص سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حقائق چھپانے کے جرم میں نااہلی کے بعد حیران کُن طور پر ’’انقلاب‘‘ کی باتوں کو پیش نظر رکھا جائے تو اس بات کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے کہ عوامی مناصب پر فائز افراد کا  احتساب اب ہماری قومی ترجیحات میں سب سے اوپر ہونا چاہیے۔ احتسابی عمل کو اگر کامیاب بنانا مقصود ہے تو تمام ریاستی اداروں کو اس دائرے میں لانا ہوگا۔ پارلیمنٹ کی جانب سے ایسے قانونی دائرۂ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے جو ابہامات کو دور کریں اور اس کے نتیجے میں احتساب کے عمل کو شفاف اور قابل اعتبار بنایا جاسکے۔

عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ فوج اور اعلیٰ عدلیہ پر قومی احتساب آرڈیننس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ عسکری اداروں سے تعلق رکھنے والوں کے حوالے سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ افواج کے اہل کار و افسران ’’عوامی عہدے‘‘ کی قومی احتساب آرڈیننس کی شق 5 میں بیان کردہ تعریف کے دائرے میں نہیں آتے۔ میرے خیال میں یہ دلیل پیش کرتے ہوئے یہ حقیقت نظر انداز کردی جاتی ہے کہ اسی آرڈیننس کی شق 4 اس قانون کا دائرہ پورے ملک تک پھیلاتی ہے اور یہ پاکستان میں رہنے والے ہر فرد پر لاگو ہوتا ہے۔ اسے صرف سرکاری عہدے داروں تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔

ضروری ہے کہ شق 5میں ترمیم کرنا کردی جائے ، یہی اس کا مناسب حل ہے تاکہ استثنٰی کے مسئلے کی جڑہی ختم ہوجائے۔ بظاہر احتساب آرڈیننس کا اطلاق عدلیہ پر نہیں ہوتا لیکن اسفندیار ولی بنام وفاق مقدمے میں سپریم کورٹ کی جانب سے اس بات کی توثیق یا تائید نہیں ہوتی کہ یہ آرڈیننس اعلیٰ عدلیہ کے ارکان پر لاگو نہیں ہوتا یا ان کے خلاف فوجداری قوانین کے تحت کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ تمام عدلیہ اور اس کا عملہ ’’سرکاری عہدیدار‘‘ کی تعریف کے تحت آتے ہیں تاہم عدلیہ کی آزادی و خود مختاری کے لیے چند ایسی آئینی دفعات موجود ہیں جن کی بنیاد پر عدلیہ کو  نیب کی کارروائیوں سے مستثنٰی رکھا گیا ہے۔عدلیہ کے لیے اپنے اہلکاروں کے خلاف ’’وائٹ کالر کرائم‘‘ کی تحقیق و تفتیش کا کوئی اختیار واضح نہیں کیا گیا۔

عدلیہ کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالے بغیر تفتیشی اداروں کے ساتھ مل کر اس کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔ پاناما گیٹ کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی سے ایسے کسی انتظام کی کامیابی پہلے ہی ثابت ہوچکی ہے۔ جج صاحبان کے احتساب کے لیے سپریم کورٹ اور صوبائی ہائی کورٹس میں، ان کے چیف جسٹس کی زیر نگرانی،   ’’شکایات سیل‘‘ قائم ہونے چاہئیں۔ عوامی شکایات اس قابل ضرور ہیں کہ مبینہ شواہد کی تحقیق کے لیے انھیں علاقائی نیب کو ارسال کیا جائے اور یہ تصدیق کی جائے کہ پیش کردہ ثبوت بے سروپا تو نہیں۔ جھوٹی اور غیر سنجیدہ شکایات کرنے کو جرم قرار دیا جائے اور اس کے مرتکب کو وہی سزا دی جائے جو اس کی جانب سے  لگائے گئے الزام کے ثابت ہونے کی صورت میں دی جاسکتی تھی۔

ایسے اقدامات سے دیگر ادارے بھی بدعنوانی کے خلاف کارروائیوں کے سامنے سرتسلیم خم کریں گے۔ نیب کو بھجوائے جانے والے مقدمات میں معلومات تک رسائی کے حوالے سے فوج واضح نشان دہی کرسکتی ہے تاکہ قومی سلامتی سے متعلق کوئی معلومات لیک نہ ہو۔ اس نظام میں ملزم کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا موقع بھی مل جائے گا۔

پاکستان میں ہونے والی ہر تفتیش و تحقیق، مقدمے کی کارروائی اور ان کے تنائج میں جعل سازی کی بو آتی ہے اور مجرموں کے صاف بچ نکلنے کے مواقع فراواں ہیں۔ میڈیا کا کردار بھی مشکوک ہوچکا، یہاں عدلیہ اور فوج کے نیب سے استثنی پر تو تنقید ہوتی ہے لیکن دوسری جانب پاناما گیٹ پر جے آئی ٹی کی مرتب کردہ رپورٹ میں منکشف کیے گئے حقائق سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔ اس لیے اب یہ ناگزیر ہوچکا کہ کوئی مناسب نظام وضع کیا جائے جس کے لیے نیب میں عدلیہ کے سینئر افسران پر مشتمل ’’جوڈیشل ونگ‘‘ اور فوج کے اعلیٰ افسران پر مشتمل ’’ملٹری ونگ‘‘ قائم کیے جائیں تاکہ اس تاثر کی نفی ہو کہ اس ملک میں بلاامتیاز احتساب نہیں ہوتا۔ ان اقدمات کے نتیجے میں نیب کو ریاست اور عوام پاکستان کی حقیقی معنوں میں خدمت کے لیے موثر، کارآمد اور معتبر بنایا جاسکتا ہے۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔