وقت کم اور مقابلہ سخت

کشور زہرا  جمعـء 25 اگست 2017

وطن عزیزکی موجودہ صورت حال جو اس وقت گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی چلی جا رہی ہے، جس کا تعلق آج یا گزشتہ کل کی غلطیوں کے سبب نہیں بلکہ اس کے ڈانڈے ماضی کی کئی دہائیوں پر محیط ہیں لیکن اب اس تفصیل میں جائے بغیرکہ ہم نے کیا کچھ کھویا ؟اوراب مزیدکیا کھونے جارہے ہیں۔ امتحان کی گھڑی میں ایک جملہ کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے کہ ’’وقت کم اورمقابلہ سخت ہے ‘‘ لیکن ہمارا مقابلہ کسی سے نہیں ہم کچھ عرصے سے تنہا ہوتے جارہے تھے اوراب حالیہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تقریرکے بعد جھوٹی اورآخری موہوم سی تسلی بھی سرکتی نظرآرہی ہے۔

اصل مسئلہ گھرکے دفاع کا سامنے آکھڑا ہوا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان کے لیے لابنگ کرنے والوں کی ناعاقبت اندیشیوں نے اس حال کو پہنچا دیا ۔ میں نے حالیہ دنوں میںقانون سازی کے لیے ایک بل پیش کیا ہے جس پہ عمل درآمد کرنے کی صورت میں سرحدوں کی حفاظت کے لیے باوقت ضرورت اضافی کُمک بھی دستیاب ہوسکے گی ۔ شدید خو اہش ہے کہ حکومت اس پر جلد ازجلد عملدرآمدکرلے ۔

اردگرد کے طوفان پر نظر ڈالیں تو ان وا قعات پر روشنی ڈالنی ضروری ہے جن میں کچھ ملکی اور بین الا قوا می ہونے والے اتحاد اور معاہد ے طے پارہے ہیں ان پر غورکرنا ہوگا جو ہمار ی سالمیت ومعیشت کے لیے بڑی حد تک نقصان پہنچانے کا سبب بنتے نظرآرہے ہیں۔

1 ۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل ایک ریلو ے لائن کی تعمیرکا آغاز کرنے جا رہا ہے جو مشر ق وسطی کے ممالک کو آپس میں ملا نے اورمعیشت وتجارت کی ترسیل کے لیے بھی استعمال ہوگی ۔اسرائیل کے ان ممالک سے مستقل بنیادوں پر ہونے والی قربت۔

2 ۔ بھارت ایران کے ساتھ گوادرکی بندرگاہ سے تقریبا 70 کلومیٹر دور چاہ بہارکی سمند ر ی حدود میں تجارتی مقاصد کے حصو ل کے لیے ایک بندرگاہ کی تعمیرمیں حصہ لے رہا ہے جو ایران بھارت معاہدے کے تحت ہے۔اس کے ہمارے ملک اور خطے پرکیا اثرا ت مر تب ہوسکتے ہیں۔کیا اس کی پیش بند ی ضرو ری نہیں ؟

3 ۔ اسی طرح افغانستان اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور تجارتی معاہد ے جس میں خا ص طور پرکچھ ڈیمو ںکی تعمیر بھی شامل ہے جب کہ افغانستا ن کے دریاؤں کا پانی ہمارے ملک میں داخل ہوتا ہے۔کیا اس تقسیم سے ہمارے لیے پانی کی ترسیل میں خلل آنے کا اندیشہ نہیں ؟ کچھ تجارتی اورغیرتجارتی معاہدے ان دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی قربتوں کا اشارہ دے ر ہے ہیں جو ایک اور ایک گیارہ کے مصداق کیا خطر ے کی گھنٹی نہیں ؟

4 ۔ پاکستان وقطرتعلقات کی نوعیت میں کچھ تبدیلیاں نظرآرہی ہیں یہ ملک عرب کا حصہ ہونے کے علاوہ ایک امیر ترین ریاست بھی ہے، اس نے دنیا کے 80 ممالک کے شہریوں کو اپنے ملک میں آنے کے لیے ویزے سے مستثنی کردیے ہیںلیکن اس میں پاکستان شامل نہیں۔ ہمارے برادرانہ روابط غیرمستحکم تو نہیں ہورہے ؟ یہ بھی ایک سوال ہے ؟

5 ۔ بے روزگاری ہمارا ابدی مسئلہ رہا جس کے سبب ایک بڑی افرادی قوت روزگار کی تلا ش میںجو سعودی عرب ودیگر خلیجی ریاستو ں میں جاتی رہی ہے لیکن اب اس میں نمایاں کمی واقع ہے، بلکہ وہاں جو پہلے سے موجود مزدور طبقہ تھا اس کی واپسی میں بھی تیزی آگئی ہے جو یقینا ہمار ے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

ان تمام مسائل کو حل کرنے اور اپنے پیروں پرکھڑ ے ہو نے کے لیے اقدامات کرنا ہوںگے ۔

الف ۔ ایک جانب افواج پا کستان کی سرحدی ذمے داری اتنی بڑ ی ہے جب کہ دوسر ی طرف انتہائی غیر ذمے دا رانہ فیصلوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کے تدارک کے بجائے اس کے خاتمے کی ذمے داری ان ہی عسکر ی قوتو ں پر ڈال دینا ایک لمحہ فکر یہ ہے جو سرحدوں کے مضبوط پاسبان ہیں۔ ان قوتوں کو اندرونی معاملات میں انتہائی مصروف کردینا دشمنو ں کی خوشی کا سبب بن سکتا ہے اور اس دہشت گردی سے نمٹتے ہوئے ہمارے جانباز پروفیشنل افواج کے ذمے دارشہید بھی ہو ئے جو قوم کا بہت بڑا نقصان ہے جب کہ اس دہشت گردی کی بیخ کنی کا دوسرا حل موجود ہے، بقول معروف مفکر خلیل جبران کہ ’’مذہب بھاگتے گھوڑے کے منہ میں لگام ہے‘‘ لیکن ہمارے یہاں ماضی میں کیے گئے غلط فیصلوں کے سبب یہ لگام انتہا پسند مذہبی جنونی لوگوں کے ہاتھوں میں دے دی گئی ۔

جنہوں نے پر امن دین اسلام کو دہشت گردی کا لبادہ پہناکر نفرت کی وہ مشعلیں پکڑائیں جنہوں نے اپنے ہی گھرکوآگ لگا دی ۔ اس کے کنٹرو ل کے لیے بھی میں نے ایک قانون سازی کی کوشش کی ہے لیکن اس بل کوگزشتہ 7  سال سے پنگ پونگ کی بال کی صورت میں مختلف کمیٹیوں میں بھیجا اور واپس لیا جا رہا ہے۔ یہ بل ان دینی اسکالرز، علما ومشائخ اورخطیبوں کے لیے جو باقاعدہ حکومت کے پاس اپنی تعلیمی اسناد کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں، وہ دینی علو م کو ملکی قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے مساجدکے خطبات میں ، تعلیمی اداروں یعنی اسکولز،کالجز اور یونیورسٹیز میں پیغام آگے بڑھاسکیں لیکن ان کے معاشی تحفظ کے لیے ان کا مشاہر ہ مقرر اوررہا ئش کا انتظا م کیا جائے تاکہ وہ پوری ذمے داری اور توجہ کے ساتھ معاشر ے کے سدھارکی ذمے داری کو پورا کرسکیں اورعوام کے سامنے جوابدہ ہوں۔

ب ۔ ریاست کو اپنی ذمے داریوں کا ثبوت انتہائی سمجھداری سے دینا ہوگا ۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ خطے کے دیگر ممالک اسلحے کی دوڑمیں شامل ہوچکے ہیں اورہمیں اپنی سلامتی واستحکام کے لیے مجبوراً روایتی ہتھیاروں کے علاوہ جدید جنگی سازوسامان حاصل کرنے کے لیے بھاری رقوم درکار ہیں جن کے لیے عوامی بجٹ پر اضافی دباؤ ڈالنے کے بجائے اپنا زرمبادلہ بچانے کے راستے اختیاکرنا ہوںگے جس کے لیے اول غیرضروری امپورٹ بند ہونی چاہیے کیونکہ اشیاء کی پروڈکشن یہاں ہو رہی ہوتی تو بے روزگاری کا مسئلہ کم ہوتا ۔

امپورٹ کے عمل نے بے روزگاری کو لامتناہی حد تک بڑھا دیا ۔ ایک مینوفیکچرزجوکسی بھی چیزکی فیکٹری یا ہاتھ کے ہنر کاکارخانہ چلاتا تھا جن میںسیکڑو ں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ کام کرتے نظر آتے تھے۔ جب سرمایہ دار نے امپورٹ ڈیوٹی میں کمی دیکھی تو ایک ہول سیل دکان کھول کر چار ملازم رکھے اور ملائیشیا، بینکاک ، ہانک کانگ سے ملبوسات وجیولری،کھلونے، جوتے ، سینیٹری، ٹائلزاور رنگ برنگی اینٹیں حتی کہ دروازیں،کھڑکیاں اورفرنیچر، فال سیلنگ ودیگر آرائشی سامان امپورٹ کرکے کم خرچ بالانشینی کا راستہ اختیارکرتے ہوئے کارخانوں کو تالے لگا دیے۔

جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ بے روزگار ہوئے ۔ جن میں سلائی کے کارخانوں میں مشینوں پر بیٹھنے والو ں سے لے کر ماربل، لکڑی، پتھر اور شیشہ گر متاثرہوئے، ان مندرجہ بالا اشیاء کے علاوہ ہمارے زرمبادلہ کا بڑا اصراف تیل کی آمد کا سبب بھی ہے نہ صر ف پیٹرول بلکہ ایسی گاڑیاں جو ری کنڈیشن کے نام پر امپورٹ کی جارہی ہیں جو سراسر دھوکا ہے کیونکہ ان کی مد میں زرمبادلہ کی خطیر رقم ہاتھوں سے نکل رہی ہے۔ VIP کلچرل ہمارے لیے سوہان روح بن چکا ہے ۔

اس کے متبادل کا انتظام یعنی پبلک ٹرانسپورٹ ریاست کی اہم ترین ذمے داری ہے۔ امریکا کے ایک معروف شہر میں ہر رہائشی علاقے کے باہرایک کار پارکنگ بنادی گئی ہے جہا ں لوگ گاڑی پارک کرکے اس 50 سیٹیوں والی شیٹل وین میں سوار ہوجاتے ہیں جوکاروباری اوردفاترکی طرف ہرگھنٹے روانہ ہوتی ہے، نتیجے میں سڑک ان 50 گاڑیوں کے ہجوم سے بچی رہتی ہے اوریوں شہری ٹریفک جام کے مسئلے سے دوچار نہیں ہوتے گاڑی والے کا پیٹرول خرچ ہونے کے بجائے معمولی سا کرایہ لگتا ہے۔

ج ۔ ہمیں نہ صرف سرزمین پا کستان پہ بسنے لوگوں کو بلکہ ساری دنیا میں رہنے والے محب وطن پاکستانیو ں کو اپنا سفیر بنانا ہوگا جو پہلے ہی موقع بہ موقع بھیجے ہوئے زرمبادلہ سے ایک ستون کا کام سر انجا م دیتے رہے ہیں، جب کہ وہ اور بات ہے کہ انھیں ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا۔اس قانون میں ترمیم لازمی ہونی چاہیے اور جو مجبوریوں کی بناء پر باہر جابسے اور دہری شہریت کے حامل ہیں انھیں انتخابات کے حق سے محروم کردینے کا فیصلہ وا پس کردینا چا ہیے۔

لیکن اب یہ نئے چیلنجزکو دیکھتے ہوئے ہمیںسائبریا کے ان پرندوں کو جو یہاں کی سختیوں کے سبب ادھر اُدھر جا بسے جس سے ہماری افرادی توانائی کا ایک بہت بڑا حصہ ہاتھوں سے نکل گیا۔ انھیں یہاں واپس لانے کے لیے وطن عزیزکو معاشی، سیاسی اور خصوصی طور پرتحفظ کے اعتبار سے راہ ہموارکرنے کے لیے ہمہ جہتی کی ضرورت ہے۔ جو جذ بہ حب الوطنی کے مرہون منت ہے، جذبہ بھی ہے، وطن بھی ہے لیکن سسک رہا ہے۔ اسے وینٹیلیٹرسے ہٹانے کے لیے یہاں سے وہاں تک سب کو میدان عمل میں اترنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔