پاکستان میں جمہوریت کمزور کیوں ہے؟ (آخری حصہ)

بابر ایاز  جمعـء 25 اگست 2017
ayazbabar@gmail.com

[email protected]

ملک کی نان سویلین اور سویلین حکومتوں کے درمیان دائمی چپقلش بنیادی طور پر انتہائی ترقی یافتہ اداروں اور نیم جاگیردار سیاسی قوتوں کے درمیان ہے ۔ طویل عرصے تک نان سویلین حکمرانی ، مدت پوری ہونے سے قبل منتخب حکومتوں کی برطرفی اور جمہوری کلچر کے فقدان کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی افزائش ، سست رہی۔ تمام بڑی جماعتیں اپنے اندر منصفانہ الیکشن نہیں کراتیں، اس لیے قیادت ایک شخصیت یا ایک خاندان کے گرد گھومتی رہتی ہے۔

پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی الیکشن کراتی ہیں مگر پی ٹی آئی بھی عمران خان کی شخصیت کے طلسم پر قائم ہے۔ جن جماعتوں کی قیادت شہری اشرافیہ یا متوسط طبقے کے ہاتھوں میں ہے، ان کی سوچ بھی جاگیردارانہ ہے اور اس طرح تمام تراختیار ایک ہی شخص کے پاس ہے۔

سیاسی جماعتوں کی ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ ان کے صوبائی اور وفاقی رہنما بلدیاتی اداروں کے ساتھ اختیارات بانٹنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ اسی لیے وہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات نہیں کراتے اور پاکستانی جمہوریت مقامی حکومت کی ایک مضبوط بنیاد کے بغیر ہوا ہی میں معلق رہتی ہے۔

سیاست دانوں کو اسٹیبلشمنٹ نواز لائن پر چلنے کے لیے ’’ نادیدہ حکومت‘‘ کی طرف سے پیسہ دیا جاتا ہے اور بلیک میل کیا جاتا ہے اور میڈیا میں بہت سے لوگ اس کام میں مدد دیتے ہیں۔ متعدد سیاست دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حکومت میں آنے کے لیے انھیں نادیدہ قوتوں کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔بڑی ایجنسیاں منتخب حکومت کو دباؤ میں رکھنے کے لیے اس سوچ کو پوری طرح سے استعمال کرتی ہیں۔

پاکستان میں جمہوریت کے حق میں ایک کلیدی محرک اس پر عوام کا یقین ہے۔2013 کے انتخابات میں56 فیصد رائے دہندگان نے ووٹ ڈالا۔اگر ہم پچھلے سات انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی اوسط شرح نکالیں تو یہ43 فیصد سے زیادہ بنتی ہے۔اس سے جمہوریت اور سیاسی جماعتوں سے عوام کی حقیقی دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی کمزوریوں کے باوجود لوگ جمہوریت کی حمایت کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ جمہوریت ہی انھیں اقتدارکے ذرایع تک رسائی دیتی ہے۔

60 فیصد پاکستانیوں کی تعداد دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور یہ لوگ زیادہ تر نیم جاگیردار نمایندوں کو ووٹ دیتے ہیں کیونکہ ان تک لوگوں کی رسائی ہوتی ہے، مگر اب جاگیر دار طبقے کا اثرورسوخ کم ہو رہا ہے کیونکہ وہ اپنے حلقے کے ووٹروں کو آسان نہیں لے سکتے اور جب ضرورت پڑے گی انھیں لوگوں کی مدد کرنی ہوگی۔ نصابی کتابوں کے علم کے بر عکس زمیندار طبقات جمہوری نظام کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ یہ نظام انھیں اقتدار میں حصہ دیتا ہے۔

پاکستان کے متوسط طبقات اور بڑے کاروبار اب سیاسی بیانیہ کی قیادت کر رہے ہیں، دو وزرائے اعلیٰ کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اورایک صنعتی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی طرح اہم وزارتوں کی سربراہی کرنے والے وزیر بھی اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر الیکشن میں متوسط طبقے کے نمایندوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

اس عرصے میں بڑی سیاسی جماعتیں بالغ ہوئی ہیں اور وہ نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل کر جمہوری نظام کو پٹڑی سے اتارنے پر تیار نہیں ہیں ۔ چند ایجنٹوں کو چھوڑکرمیڈیا بھی کم وبیش جمہوریت کی حمایت کرتا ہے اور جمہوری عمل کے پٹڑی سے اترنے کے خلاف ہے۔

ایک اور محرک جو ظاہر کرتا ہے کہ اگر مکمل مدت پوری کرنے دی جائے تو پارلیمنٹ بہتر طریقے سے کام کرسکتی ہے ، قانون سازی کا وہ اہم کام ہے جو پی پی پی کی حکومت نے کیا تھا۔ اس نے 18 ویں ترمیم منظورکرائی اور آئین کے101 آرٹیکلز اور شقوں میں تبدیلیاں کیں۔18 ویں ترمیم اور 7 ویں نیشنل فنانشل کمیشن(NFC) ایوارڈ سے صوبائی خود مختاری کی جانب ایک بڑی پیش رفت کی گئی اور یہ ایسا کام تھا جو پاکستان کی تاریخ میں متنازع چلا آرہا تھا۔

پی پی پی نے دیگر جماعتوں کے اتفاق رائے سے آرٹیکل58 (2) (b) کو ختم کیا ،جو جنرل ضیاء کی طرف سے آئین میں شامل کیا گیا تھا اور صدر کو منتخب حکومت کو برطرف کرنے اور پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا اختیار دیتا تھا۔ضیاء ملک کے بانیوں کے نقش قدم پر چلتے رہے ، جب گورنر جنرلز نے اپنی مرضی کے مطابق اختیار استعمال کرتے ہوئے چھ حکومتوں کو برطرف کیا۔

اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کیوں پاکستان کی سب سے زیادہ منظم سیاسی پارٹی ہے۔

وجہ: پاکستان عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ قائم ہوا تھا۔اس کے وجود کی بنیاد ایک کمزور عقلی استدلال پر تھی، یعنی یہ کہ ہندوستان کے مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔انڈین کانگریس پارٹی نے بھی قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔اس کے بعد کشمیر کے بھارت میں چلے جانے اور فوجی جھڑپ نے پاکستان میں بھارت کا خوف پیدا کر دیا۔اس سے ایک مضبوط فوج تیار کرنے اور امریکا کے ساتھ اتحادوں کی خواہش پیدا ہوئی۔جناح سے لے کر اور اس کے بعد پاکستان اپنی جیو اسٹریٹجک پوزیشن امریکا اور دیگر مغربی اقوام کو فروخت کرتا رہا ۔اس کا نتیجہ انتقامی عزائم کے ساتھ ایک سیکیورٹی اسٹیٹ کی تشکیل کی صورت میں نکلا۔ نتیجہ یہ ہے کہ نادیدہ قوتوں کے پاس نہ صرف سیکیورٹی کا بالادست کردار ہے بلکہ وہ خارجہ پالیسی کے اہم فیصلے بھی اپنی مرضی سے کراتی ہیں۔

اب تک پاکستان کی قومی سلامتی کی اورخارجہ پالیسی ناکام رہی ہے۔ملک کو داخلی طور پر سنگین نتائج کا سامنا ہے اور اسے دنیا کا خطرناک ترین خطہ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ اب ضروری ہے کہ پاکستان کا نیا چہرہ اجاگر کرنے کے لیے ترتیب وار تبدیلی لائی جائے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ پر امن بقائے باہمی استوار کرنے کے قابل ہو۔ اس کے نتیجے میں سیاست پر نادیدہ قوتوں کا کنٹرول کمزور ہوگا اور جمہوریت مضبوط ہوگی۔

پاکستان کی سویلین حکومت اور نان سویلین اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری تناؤ کے پیش نظر یوں لگتا ہے کہ شریف خاندان کے سیاسی انجام پر مہر لگائی جا رہی ہے۔مگر پی ایم ایل(ن)جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتی ہے اور اسے مارچ2018 میں سینیٹ کے الیکشن تک کھینچنا چاہتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنے کے باوجود2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے کے قابل ہو گی یا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔