- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
اعلیٰ عدلیہ پارلیمنٹ سے زیادہ طاقتور ہوگئی، قانونی ماہرین
اسلام آباد: قانونی ماہرین کاخیال ہے کہ مارچ 2009ء میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی زیر قیادت عدلیہ بحالی کے بعدکئی ایسے فیصلے آئے جن میں پارلیمنٹ کے اختیارات پر سوالات کیے گئے۔
سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدرکامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمنٹ ارکان پارلیمنٹ کی نااہلی سے متعلق آرٹیکل 62(1)(f)میں ترمیم کرکے نااہلی مدت کاتعین کردیا جائے توعدالت عظمیٰ اس کاجائزہ نہیں لے سکتی کیونکہ اس ترمیم سے آئین کے بنیادی خدوخال متاثرنہیں ہوتے۔انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت نااہلی مدت کابھی جائزہ لے رہی ہے کہ آیا یہ تاحیات ہے یاپانچ سال کیلئے ہے۔
سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم کونااہل قراردینے کے بعد سپریم کورٹ زیادہ طاقتورادارہ بن گیا ہے،اس فیصلہ سے ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوںکی سخت چھان بین ممکن ہوگئی ہے اورکسی بھی رکن پارلیمنٹ کوعدالت عظمیٰ اثاثے چھپانے کے الزام میں آرٹیکل 184 (3) کے تحت نااہل قرار دے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے 18ویں آئینی ترمیم کے تحت ججزتقرری کیلئے قائم پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات بھی محدودکیے تھے اور2012 میں سنائے گئے ایک فیصلہ میں قراردیا کہ پارلیمانی کمیٹی کے فیصلوں کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔ اس فیصلے سے کمیٹی غیرموثر ہوگئی ہے اوراس کے کئی فیصلے اعلیٰ عدالتوں نے ختم کردیے۔
ماضی میں توہین عدالت ایکٹ 2012 اورسابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے توہین عدالت کیس میں سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کوبھی عدالت عظمیٰ مستردکرچکی ہے ۔2010ء میں دہری شہریت اورجعلی ڈگری کے الزام میں بھی عدالت عظمیٰ آرٹیکل184 (3) کے تحت کئی ارکان اسمبلی کو نااہل قراردے چکی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اکاؤنٹس کے آڈٹ کے معاملے پر رجسٹرارکوپبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے بھیجنے سے انکارکردیا تھا جس سے ظاہرہوتا ہے کہ یہ ادارہ پارلیمنٹ سے زیادہ طاقتور ہے۔ سپریم کورٹ ججزکی دہری شہریت کے معاملے پرسینٹ کو معلومات فراہمی سے بھی انکارکیا گیا تھا۔
مارچ 2009ء کے بعد سے سیاسی جماعتیں مختلف امور پرایک دوسرے کیخلاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرتی رہی ہیں لیکن ان مقدمات میں فیصلوں سے پارلیمنٹ کی بالادستی متاثرہوئی ہے۔وفاقی حکومت ارکان پارلیمنٹ کی اہلیت اور نااہلیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 62 ،63 میں ترمیم کااعلان کررہی ہے لیکن سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں قراردے چکی ہے کہ پارلیمنٹ کے آئین میں ترمیم کے اختیارپر بھی کچھ حدود وقیود نافذ ہیں۔
21ویں آئینی ترمیم سے متعل مقدمہ میں سپریم کورٹ کے 13رکنی بینچ نے 5 اگست 2015 ء کو فیصلہ دیا کہ عدالت عظمیٰ آئینی ترمیم کوختم کرسکتی ہے ۔13رکنی بینچ میں سے 8جج صاحبان نے قراردیاکہ آئین کاآرٹیکل238 اور239آئین میںترمیم کااختیاردیتا ہے لیکن آئین کے بنیادی خدوخال کوتبدیل یا منسوخ نہیںکیا جا سکتا ۔ان جج صاحبان نے قراردیاکہ جمہوریت،پارلیمانی طرزحکومت اورعدلیہ کی آزادی آئین کے نمایاںخدوخال ہیں۔
عدالت کوآئین کے نمایاں خدوخال جاننے کیلیے آئین کی تشریح کااختیار ہے اورکسی بھی آئینی ترمیم کاجائزہ لیا جاسکتا ہے۔قانونی ماہرین کاخیال ہے کہ کسی بھی معاملہ پر نئی آئینی ترمیم کوبھی21ویں ترمیم سے متعلق فیصلہ کے تناظر میں پرکھا جاسکتاہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔