افغان پالیسی اور قومی امنگوں کی ترجمانی

ایڈیٹوریل  ہفتہ 26 اگست 2017
پاکستان کا افغانستان کے امن و استحکام میں مفاد وابستہ ہے ۔ فوٹو: فائل

پاکستان کا افغانستان کے امن و استحکام میں مفاد وابستہ ہے ۔ فوٹو: فائل

پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغان پالیسی کی چنگھاڑ کے سیاق و سباق میں قومی امنگوں کی مکمل ترجمانی کرتے ہوئے اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے پختہ عزم کا اعادہ کیا جب کہ  پاکستان کے خلاف امریکی صدر ٹرمپ کے مخصوص الزامات کو یکسر مسترد کیا اور اس امر پر زور دیا ہے کہ ہم پاکستان میں دہشتگردی کو ہوا دینے کے ذمے داروں سمیت افغان سرزمین پر دہشتگردوں اور شرپسندوں کی پناہ گاہوں کے خاتمہ کے لیے مؤثر اور فوری امریکی عسکری کاوشوں کے خواہاں ہیں، تاہم پاکستان نے واضح کیا کہ افغان جنگ پاکستان میں نہیں لڑی جا سکتی، بھارت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا جو جمعرات کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں وزیر دفاع خرم دستگیر، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر خارجہ خواجہ آصف، وزیر داخلہ احسن اقبال، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ذکاء اﷲ، چیف آف ایئر اسٹاف ایئر چیف مارشل سہیل امان، مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور سینئر سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ کے مطابق پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے سے افغانستان میں امن و استحکام پیدا کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔

پاکستان کا افغانستان کے امن و استحکام میں مفاد وابستہ ہے۔ پاکستان کو افغانستان میں دیرینہ تنازع سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا جس کے نتیجے میں اسے بڑی تعداد میں مہاجرین کا بوجھ اٹھانا پڑا، منشیات و اسلحہ کی نقل و حمل ہوئی اور حال ہی میں مشرقی افغانستان، جہاں سے پاکستان مخالف دہشتگرد گروہ کارروائیاں اور پاکستان کے اندر حملے کرتے ہیں، میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کی صورت میں پاکستان بری طرح متاثر ہوا ہے۔ وزیرخار جہ خواجہ آصف نے کہا کہ امریکی صدرنے پاکستان کی قربانیوں کو نظراندازکیا۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے دہشتگردوں کی  پشت پناہی کے الزام کے بعد چین اور روس نے پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ کو ٹیلی فون کر کے افغانستان میں پاکستان کے اہم کردار کا دفاع کیا اور کہا ہے کہ پاکستان کی حاکمیت اور جائز سیکیورٹی خدشات کا احترام کیا جانا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کی افغان پالیسی کو دنیا کا کوئی امن پسند ملک تسلیم نہیں کریگا جس میں خطے کے غیرمعمولی عوامل کا اس پالیسی میں سرے سے منصفانہ جائزہ نہیں لیا گیا اور پاکستان نے دہشتگردی اور افغانستان کی شورش زدہ صورتحال کے باب میں جتنے صدمے سہے ہیں، اس کا کہیں اعتراف نہیں کیا گیا۔ یہ بات باعث حیرت اور امریکی طرز عمل پر ایک چبھتا ہوا سوالیہ نشان ہے کہ ٹرمپ نے محض بھارت اور افغانستان کے اشتراک، ان کے بہیمانہ اشارے پر پالیسی بنائی، ستم ظریفی دیکھئے کہ پینٹاگان، محکمہ خارجہ، امریکی سینیٹرز اور نیٹو فورسز کے سینئر کمانڈرز پاکستان آ کر دہشتگردی کے خلاف اس کی قربانیوں اور خدمات کا بظاہر اعتراف کرتے رہے، مگر جب پالیسی کا اعلان ہوا تواس پر پاکستان ششدر رہ گیا، کیونکہ یہ پاکستان سے بے وفائی کی انتہا تھی۔

بلاشبہ پاک امریکی تعلقات تاریخی نشیب وفراز سے عبارت ہیں، مگر ٹرمپ نے پورے خطے کے مستقبل کو ایک اعصاب شکن کیفیت سے دوچار کردیا ہے جس میں پاکستان کو ظالمانہ طریقے سے سنگل آؤٹ کرنے کا عندیہ ملتا ہے۔ یہ انداز نظر اور افغان پالیسی کے لبادہ میں چھپے ہوئے غیر یقینی امن،استحکام، اشتراک، مذاکرات اور ڈو مور کے تقاضے خطے کی ڈائنامکس سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، ٹرمپ انتظامیہ اپنی اسٹرٹیجی پر نظر ثانی کرے، اس  پر لازم تھا کہ وہ پاکستان کو نان نیٹو اتحادی، معتبر حلیف اور سرد وگرم چشیدہ دوست کی حیثیت میں پالیسی تشکیل دینے سے پہلے اعتماد میں لیتا، ٹرمپ اس بات سے لاعلم نہیں تھے کیونکہ اپنی انتخابی مہم کے دوران افغانستان اور پاک بھارت معاملات میں صائب کردار ادا کرنے کی یقین دہانی بھی کرا چکے تھے جب کہ پاکستان کی اہمیت اور خطے میں ناگزیر کردار و خدمات سے انھیں بدگمان کرنے کے لیے پاکستان مخالف لابی کی مکاریوں سے بھی وہ بے خبر نہیں رہ سکتے،اس لیے پورا ملبہ پاکستان پرگرانا ایک المیہ ہے۔

پاکستان کی خدمات پر خط تنسیخ پھیر کر پاکستانی عوام کی قربانیاں فراموش کی گئیں، اگر امریکا پاکستان پر بے جا الزام لگانے سے پہلے حقیقت پسندی کے ساتھ اپنی عسکری طاقت اور طالبان کی شورش و مزاحمت کا تقابلی جائزہ لے تو حقیقت خود بہ خود سامنے آئے گی کہ بے پناہ عسکری قوت کا حامل امریکا طالبان کو میدان جنگ میں کیوں زیر نہیں کرسکا اور اسے مذاکراتی میز پر بھی نہیں لاسکا، آخر کیوں؟ وقت یہی ہے کہ امریکا افغانستان میں امریکا اپنی عسکری، اقتصادی، تزویراتی، سیاسی اور سفارتی اقدامات کی ناکامیوں کا بوجھ پاکستان پر نہ ڈالے بلکہ خطے میں امن ،استحکام اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ اسٹرٹیجی پر عملدرآمد کے لیے وسیع البنیاد میکنزم تیار کرے جس میں پاکستان اپنے فرنٹ لائن اسٹیٹ کردار کی ادائیگی میں اس بار بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے گا، مگر carrot اور stickپالیسی سے اجتناب وقت کا تقاضہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔