قطر نے ایران سے تعلقات بحال کر لیے

ایڈیٹوریل  ہفتہ 26 اگست 2017
ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کی جلد بحالی کا بھی امکان ہے . فوٹو : فائل

ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کی جلد بحالی کا بھی امکان ہے . فوٹو : فائل

قطر نے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات دوبارہ بحال کر لیے ہیں اور قطری سفیر جلد تہران واپس جائیں گے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق دوحہ اور تہران کے درمیان پس پردہ تعاون جاری ہے۔ یاد رہے رواں برس جون میں سعودی عرب، مصر، بحرین، یمن، عرب امارات اور دیگر ملکوں نے قطر پر دہشتگردی کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر تے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ ایران سے تعلقات منقطع کرے۔ تاہم اب قطر نے ایران سے سفارتی تعلقات بحال کر لیے ہیں۔

دوسری طرف ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کی جلد بحالی کا بھی امکان ہے کیونکہ دونوں ملکوں میں جلد ہی سفارتی وفود کی آمد و رفت ہونے والی ہے۔ تہران نے سفارتی عہدے داروں کے تبادلوں کی جانب اشارہ کیا جس کے بعد یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے دونوں علاقائی حریفوں کے درمیان پچھلے سال سے جاری کشیدہ تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ سفارتی وفود کے تبادلوں کے لیے حج کے بعد ویزے جاری کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم آخری مراحل کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ دونوں ملکوں کے سفارت کار اپنے سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں جا سکیں اور ان کی دیکھ بھال کر سکیں۔ اس وقت ہزاروں ایرانی حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں موجود ہیں۔

ادھر افریقی ممالک چاڈ نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے اور قطری سفارتخانہ بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ قطری سفارتکاروں کو دس روز میں ملک سے چلے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ چاڈکی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ قطری ریاست کی جانب سے لیبیا سے چاڈ کو مسلسل عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششوں کے بعد حکومت نے یہ انتہائی اہم فیصلہ کیا ہے۔

قطر اور دیگر عرب ممالک کا بحران تاحال حل نہیں ہو سکا‘ بہرحال بعض ایسے اشارے بھی ہیں کہ یہ بحران بلاآخر طے ہو جائے گا‘ دیکھا جائے تو یہ بحران عرب اور دیگر مسلم ممالک کے درمیان اختلافات کا نتیجہ ہے‘ بہتر یہی ہے کہ مسلم ممالک ہی اسے باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کر لیں کیونکہ اگر یہ بحران حل نہ ہوا تو اس کے عرب ممالک پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔