پاکستانی وبائی امراض کے ساتھ ’زہریلے پانی‘ کا شکار

ایڈیٹوریل  ہفتہ 26 اگست 2017
بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو شہر میں صحت کے مسائل تیزی سے جنم لیں گے ۔ (فوٹو: فائل)

بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو شہر میں صحت کے مسائل تیزی سے جنم لیں گے ۔ (فوٹو: فائل)

ملک میں پھیلے وبائی امراض کے ساتھ اب عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میںپینے کے صاف پانی میں خطرناک اور زہریلے مادے آرسینک کی بہت زیادہ مقدار موجود ہے جس سے 6کروڑ شہریوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ پانی میں سنکھیا کی سب سے زیادہ مقدار لاہور اور حیدرآباد میں دیکھی گئی ہے جس کے باعث وہاں اس سے وابستہ خطرہ بھی سنگین ترین ہے۔ واضح رہے کہ سنکھیا یا آرسینک قدرتی طور پر پائی جانے والی معدنیات میں شامل ہے جو بے ذائقہ ہوتا ہے اور گرم پانی میں حل ہوجاتا ہے۔

لمبے عرصے تک سنکھیا سے آلودہ پانی استعمال کرنے کے نتیجے میں خطرناک بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں، جب کہ کسی انسان کو ہلاک کرنے کے لیے سنکھیا کے ایک اونس کا  100 واں حصہ یعنی صرف 284 ملی گرام بھی کافی ہوتا ہے۔ صحت کے عالمی اداروں کی جانب سے اس قدر واضح الرٹ کے باوجود وفاقی و صوبائی سطح پر کسی قسم کی ہلچل محسوس نہیں کی گئی، اقدامات سے یوں لگتا ہے کہ صحت کا میدان کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ اس وقت خیبرپختونخوا ڈنگی وائرس سے بری طرح متاثر ہے جہاں ڈنگی کے ہزاروں مریض رپورٹ ہوچکے ہیں، خیبرپختونخوا میں ڈنگی کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر بھی ڈنگی سے متاثر ہونے لگے ہیں، خیبر ٹیچنگ اسپتال میں ایک ہاؤس آفیسر ڈاکٹر بھی ڈنگی کا شکار ہوگیا۔ جب کہ صوبائی وزیر صحت کا کہنا ہے کہ صوبہ بھر کے اسپتالوں میں 24 گھنٹوں کے دوران ڈنگی سے متاثرہ 118 افراد میں سے47 ڈسچارج ہوچکے ہیں، اس وقت 71افراد اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ حکومت نے ڈنگی کی روک تھام کے اقدامات کی مانٹیرنگ کے لیے ’’صحت پورٹل‘‘ کی نئی ایپ بنالی ہے۔

علاوہ ازیں ماہرین صحت نے انتباہ کیا ہے کہ کراچی میں مون سون کی بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو شہر میں صحت کے مسائل تیزی سے جنم لیں گے۔ بارش کے موسم میں مچھروں کی افزائش نسل بڑھ جاتی ہے جس سے ڈنگی، چکن گنیا اور ملیریا پھیلنے کا خدشہ ہے۔ ماہرین صحت نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ اگر گندگی اور مچھروں کی افزائش کو ختم نہ کیا گیا تو آیندہ برسوں میں مچھروں سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریاں بھی پاکستان منتقل ہوسکتی ہیں۔ صائب ہوگا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر وبائی امراض اور پانی کی آلودگی ختم کرنے کے لیے فوری اور راست اقدامات کیے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔