شفاف نظام کی خاطر

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 26 اگست 2017
tauceeph@gmail.com

[email protected]

قومی اسمبلی نے گزشتہ ہفتے Public Interest Disclosure Bill منظورکرکے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ اب سینیٹ سے منظوری کے بعد یہ قانون ملک بھر میں نافذ ہوجائے گا۔ اس مجوزہ قانون کے ذریعے سرکاری افسروں یا کسی اور فریق کی طرف سے عوامی مفاد اور غیرقانونی اقدامات کے بارے میں معلومات کی فراہمی کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

وفاقی سطح پر اطلاعات کے حصول سے متعلق جامع قانون کی منظوری سے آئین کے آرٹیکل 19A پر عمل درآمد یقینی ہوجائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 19A کے تحت عوام کو ریاست کے تمام اداروں کے بارے میں جاننے کا حق ہے۔اس قانون کے تحت ملک کے مفاد اور سلامتی کو نقصان پہنچانے سے متعلق اطلاعات کے علاوہ عوامی مفاد میں اطلاعات کی فراہمی کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

ریاستی اداروں سے متعلق اطلاعات کا حصول عوام کو مستقبل میں اپنے نمایندوں کے انتخاب کے لیے مواد فراہم کرے گا۔ یوں حکمرانوں، بیوروکریسی اور ایسے افراد اور ادارے جو آئینی امور سے منسلک ہیں کا احتساب یقینی ہوجائے گا۔گزشتہ چند برسوں سے عوام کے مفاد میں سرکاری دستاویزات کو افشا کرنے کا ایک کامیاب سلسلہ شروع ہوا ہے۔ چند سال قبل Bradly Manning اور Edward Snowden نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید نظام کی مدد سے امریکی حکومت کی لاکھوں دستاویزات کو افشا کیا تھا۔ ان میں سے بیشتر دستاویزات امریکی وزاررت خارجہ سے متعلق تھیں۔

اگرچہ Edward Snowden کے وکی لیک کے افشا ہونے سے پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا تھا اور امریکی حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وکی لیک کی ظاہر ہونے والی دستاویزات میں یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک سے متعلق خفیہ پالیسیوں کو ظاہر کیا گیا تھا۔

ان میں سے بہت سے دستاویزات سے ظاہر ہوتا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکی ممالک کو تو چھوڑیں اپنے اتحادی یورپی ممالک کی حکومتوں کے بارے میں بھی منفی رائے رکھتی ہے۔ اسی طرح پاکستان سمیت مختلف ممالک میں تعینات امریکی سفارتکاروں کی رپورٹوں کے مطالعے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وزراء اور دیگر سرکاری عہدیدار سیاستدان امریکی سفارتکاروں سے ملاقاتوں میں کس قسم کی بات چیت کرتے ہیں اور یہ وزراء اور سیاستدان امریکی سفارت خانے سے کس کس نوعیت کی مدد حاصل کرتے ہیں۔

امریکی حکومت نے وکی لیک کو روکنے کے لیے ہر قسم کے اقدامات کیے۔ ان اقدامات میں فوجداری مقدمات اور عدالتی مداخلت بھی شامل تھی مگر امریکی عدالتوں نے ان دستاویزات کو عوام کے مفاد میں قرار دے کر کسی قسم کی کارروائی سے گریز کیا۔

امریکی حکومت جب قانونی طریقوں سے ان دستاویزات کے اجراء کو نہیں روک پائی تو پھر Edward Snowden کے خلاف یورپی ممالک میں مقدمات درج کرانے شروع کیے۔ ان کے خلاف ایک خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا مقدمہ درج ہوا۔ جب Edward Snowden کو اپنی گرفتاری یقینی نظر آنے لگی تو اس نے لندن میں قائم ارجنٹائن کے سفارت خانے میں پناہ لے لی۔ وہ گزشتہ 2 برسوں سے ارجنٹائن کے سفارت خانے کے ایک کمرے میں مقید ہیں اور ان کے کمرے کی کھڑکی کے باہر برطانیہ کا ایک سپاہی تعینات ہے مگر وکی لیک کے اجراء کا سلسلہ کسی حد تک جاری ہے۔ وکی لیک نے ایسی نوعیت کی پہلی تحقیقاتی رپورٹنگ کی بنیاد ڈالی تھی۔

پھرگزشتہ سال پاناما لیکس کی رپورٹوں نے تہلکہ مچادیا تھا۔ اس لیک میں یورپ اور ایشیائی ممالک کے ہزاروں اہم شخصیتوں کا ذکر تھا جو پاناما میں رجسٹرڈ آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ ان شخصیتوں میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے 400 کے قریب سیاستدان، جج، صنعتکار اور تاجر وغیرہ شامل ہیں۔

پاناما لیکس کو صحافیوں کے ایک بین الاقوامی نیٹ ورک نے مرتب کیا اور دنیا بھرکے بہت سے صحافیوں نے ان آف شور کمپنیوں کے مالکان کے بارے میں جامع تحقیقات کیں۔ پاناما لیکس نے 11.5 ملین دستاویزات چھان بین کے بعد جاری کیں۔ ان دستاویزات پر مشتمل رپورٹوں کی بناء پر میاں نواز شریف اور آئس لینڈ کے وزیر اعظم اقتدار سے محروم ہوئے۔ بھارت میں معروف فنکار امیتابھ بچن سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی زد میں آئے۔

پاکستان میں صرف میاں نواز شریف کے خاندان کے احتساب کا سلسلہ شروع ہوا۔ سپریم کورٹ اور نیب نے باقی افراد کے معاملات پر توجہ نہیں دی مگر پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدالتوںنے پاناما لیکس کو عوامی مفاد میں قبول کرلیا، مگر اس مسودہ قانون میں ملک کے مفاد کے خلاف اطلاعات کے افشا کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کے لیے آفیشل سیکریٹ ایکٹ، آرمی ایکٹ، سیکیورٹی ایکٹ اور مختلف نوعیت کے قوانین نافذ ہیں مگر ہر حکومت نے قومی مفاد کی مختلف تعریف کی ہے۔

معروف صحافی ضمیر نیازی نے اپنی کتاب ’’صحافت پابند سلاسل‘‘ میں ملک کے تیسرے وزیر اعظم محمدعلی بوگرا کی اپنی سیکریٹری لبنانی نژاد خاتون سے شادی سے متعلق خبرکا ذکرکیا ہے کہ 1953ء میں کراچی کے ایک اخبار مسلمان نے بوگرا کی اس شادی کی خبر شایع کی تھی۔

حکومت نے اس خبرکی تردید کی اور قومی مفاد کے خلا ف خبر کی اشاعت پرکمشنر کراچی نے اس اخبار پر پابندی لگادی۔ اخبار کے ایڈیٹر نے اس فیصلے کو قبول کرلیا۔ مگر کچھ عرصے بعد برطانیہ کے اخبارات میں شایع ہونے والی خبر سے وزیر اعظم بوگرا کی دوسری شادی کی خبر کی تصدیق ہوگئی۔ ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو اور ضیاء الحق نے قومی مفاد کے نام پر بہت سے اخبارات کو بند کیا۔

سینئر صحافی حسین نقی نے ایک آرٹیکل ہفت روزہ ویو پوائنٹ میں تحریر کیا۔ یہ آرٹیکل بائیں بازو کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے بارے میں وزارت داخلہ کے ایک سرکلر سے متعلق تھا۔ حسین نقی اور ہفت روزہ ویو پوائنٹ کے ایڈیٹر مظہر علی خان کو ملک کے مفاد کے خلاف آرٹیکل کی اشاعت پر گرفتارکیا گیا۔ حسین نقی کو لاہور کی سردیوں میں لاہور کے بدنام زمانہ شاہی قلعے میں خفیہ ایجنسیوں کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر یہ دونوں صحافی ایک سال سے زائد عرصے تک لاہور جیل میں نظربند رہے۔ بعد میں ظاہر ہونے والے حقائق سے واضح ہوا کہ اس آرٹیکل کی اشاعت سے قومی مفاد کوکوئی نقصان نہیں پہنچا تھا بلکہ عوام کے جاننے کے حق کو تسکین ملی تھی۔ ا س قانون کے حقیقی طور پر نفاذ کے لیے سیکریٹ ایکٹ اور دیگر متعلقہ قوانین میں ترامیم ہونی چاہئیں۔ وکی لیکس اور پاناما لیکس کی اشاعت کے بعد دنیا بھر میں سیکریٹ لاء کی ہیت تبدیل ہوگئی ہے۔

یورپی ممالک میں استعماری دورکے سیکریٹ ایکٹ پر عملدرآمد متروک ہوچکا ہے۔ اب ماہرین کی اس رائے کو تسلیم کرلیا گیا ہے کہ معاملات کھولنے سے بدعنوانی ختم ہوتی ہے۔ معاملات کو چھپانے سے بدعنوانی اور اقرباپروری کو تقویت ملتی ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے ساتھ اطلاعات کے حصول کے قانون کا جامع اور قابل عمل ہونا ضروری ہے۔ میثاق جمہوریت کی بناء پر آرٹیکل 19Aآئین کا حصہ بنا مگر اس آرٹیکل سے متعلق قوانین بین الاقوامی معیار کے مطابق نہ بنانے کی بناء پر عوام کی سطح پر احتساب کا عمل شروع نہ ہوسکا۔

اس قانون کو مزید جامع بنانے اور اس کے ساتھ اطلاعات کے حصول کے قوانین کو مؤثر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ جو افراد خاص طور پر عوام کے مفاد میں دستاویزات کا اجراء کرتے ہیں ان میں صحافی نمایاں ہیں۔ یہ لوگ جمہوری نظام کو شفاف بنانے کے لیے اہم خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اس قانون سے ایسے باشعور لوگوں کو تحفظ ملے گا۔ جمہوری نظام میں ان قوانین کے ذریعے ہر شخص کا خود کار طریقہ سے احتساب ہوتا ہے خواہ وہ وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو۔ بہرحال یہ وفاقی حکومت کی اچھی کوشش ہے۔ یہ قانون جمہوری نظام کے استحکام میں اہم کردار ادا کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔