عالی ظرف لوگ

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 26 اگست 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

رشی کپورکا تعلق ہندوستان کے صف اول کے اداکاروں میں ہوتا ہے۔ان کے آبا واجداد پشاورکے رہنے والے تھے۔ انھوں نے بارہا اپنی اس خواہش کا اظہارکیا ہے کہ انھیں اپنے اجدادکی جنم بھومی دیکھنے کا بہت شوق ہے اور وہ جب بھی موقعہ ملے پشاورکا دورہ ضرور کریں گے۔ 1947ء کی تقسیم کے نتیجے میں لاکھوں خاندانوں کو ترک وطن کرنا پڑا۔ لاکھوں لوگ مارے گئے یہ سارے نقصانات اس لیے ہوئے کہ بھارت میں دو قومیں آباد تھیں جن کے مذہب الگ الگ تھے۔

یہ دو قومیں ہزاروں سال سے بھارت میں ایک ساتھ رہتی رہی تھیں اور ان میں مذہبی یکجہتی بھی برقرار رہی تھی پھر انیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں اچانک ایسا کیا ہوا کہ یہ دونوں قومیں ایک دوسرے کی دشمن ہو گئیں اور دشمن بھی ایسی کہ لاکھوں انسانوں کو محض مذہبی تفریق کی وجہ سے وحشیانہ انداز میں قتل کردیا حتیٰ کہ حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کرکے پیٹ کے بچوں کو بھی خون میں نہلادیا۔ اس قتل و غارت کا الزام نوآبادیاتی حکمران انگریزوں پر بھی لگایا جاتا ہے کہ ان کی سازش ہی کی وجہ اتنے بڑے پیمانے پر قتل و غارت ہوئی۔

اب تقسیم کو 70 سال ہو رہے ہیں لیکن ابھی تک اس قتل وغارت کے اصل ذمے داروں کا پتہ نہ چل سکا، دونوں ملک ایک مشترکہ کمیشن بنائیں جو ایک بار پھر تحقیق کرے کہ اس بھیانک سازش کے اصل کردار کون تھے جو آج یقینا زندہ نہیں ہوں گے لیکن اگر ان پر سازش کا جرم شہادتوں کی روشنی میں ثابت ہوجائے تو بعدازمرگ بھی ان کو سخت سے سخت سزائیں سنائی جائیں تاکہ تاریخ ان مجرموں کے کارناموں سے واقف ہو جنھوں نے 22 لاکھ بے گناہ انسانوں کو جن میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی بیدردی سے قتل کردیا دونوں ملکوں کے عوام ایک معینہ تاریخ پر یوم سوگ منائیں۔

رشی کپور نے 14 اگست کو اپنی طرف سے تمام پاکستانیوں کو خلوص دل سے یوم آزادی پر مبارک باد دی ہے 14اگست 2017ء ہی کے دن بھارت کے گلوکاروں نے پاکستان اور ہندوستان کے قومی ترانے مشترکہ طور پر پیش کرکے مذہبی اور قومی یکجہتی کا جو پیغام دیا ہے، وہ قابل ستائش ہے اس تقریب کا اہتمام کرنے والوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان دوستی اور بھائی چارے کے لیے جو کوششیں کرنا چاہتے ہیں دونوں ملکوں کے قومی ترانے پیش کرنا اس دوستی مہم کا آغاز ہے۔ فنکار خواہ ان کا تعلق کسی ملک سے رہا ہو ہمیشہ اس خیال کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ فن کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں نہ اسے ویزا پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ فن اور فنکار ملکوں اور قوموں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے سفیر ہوتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر 70 سال سے دونوں ملکوں کے درمیان اہنی دیوار بن کرکھڑا ہوا ہے حکمران طبقات کے دعوؤں کے مطابق وہ اس مسئلے کو قومی مفادات کے پس منظر میں دیکھتے ہیں اور انھی نام نہاد قومی مفادات کی وجہ سے یہ مسئلہ پچھلے 70 سال سے لٹکا ہوا ہے، اگر یہ مسئلہ حل ہو تو دونوں ملکوں کے تعلقات میں جو بہتری آئے گی اس کا فائدہ نہ صرف دونوں ملکوں کے عوام کو ہوگا بلکہ اس خطے میں رہنے والے عوام کو بھی پاک بھارت دوستی کا فائدہ ہوگا۔

قومیں انسانوں سے بنتی ہیں اور برصغیر میں رہنے والے انسانوں کی خواہش ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوستی اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہو، اگر ایسا  ہوا تو جہاں دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان موجود دوریاں ہی ختم نہیں ہوں گی بلکہ اسلحے کی احمقانہ دوڑ پرتھوی اور غوری کا کلچر بھی ختم ہوگا اور دفاع کے نام پر خرچ کیا جانے والا اربوں روپیہ بھی بچ جائے گا جو عوام کی بہتری میں کام آئے گا۔

سیاستدان قومی مفاد کی زنجیروں میں بندھے ہوتے ہیں اور انھیں ان نام نہاد قومی مفادات کے مطابق چلنا ہوتا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل ہوجائے تو قومی مفاد کوکیا نقصان پہنچے گا؟

یہ سوال بھارت سے کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس مسئلے کے حل میں بھارت کے قومی مفاد ہی آڑے آرہے ہیں کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں کی معیشت کا دارومدار سیاحوں کی آمد پر ہے کشمیر پر قبضے کو برقرار رکھنے سے بھارت کوکوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ کشمیر پر بھاری رقوم کشمیریوں کی حمایت حاصل کرنے کی احمقانہ کوششوں پر صرف کی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے کشمیری عوام کو قابو میں رکھنے کے لیے بھارتی حکمران طبقے نے جو 8 لاکھ فوج کشمیر میں تعینات کر رکھی ہے اس پر اربوں روپے ضایع ہو رہے ہیں، لیکن بھارت کا وہ مقصد پورا نہیں ہو رہا ہے جس کے حوالے سے بھارتی حکمرانوں نے کشمیر میں 8لاکھ فوج لگا رکھی ہے۔

کشمیر کے حوالے سے اگر پاکستان کا موقف زیادتی پر مبنی ہوتا تو پاکستان کے اہل قلم اہل دانش اس کی مذمت میں تکلف نہیں کرتے پاکستان تو اس حوالے سے صرف اقوام متحدہ کی منظورکردہ قراردادوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کر رہا ہے ہمارے بعض حکمرانوں نے اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی پس پشت ڈال کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) مشرف نے بڑی پیشرفت کی تھی اور اس پیشرفت کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ تھی کہ فوج کے حوالے سے یہ تصور عام تھا کہ فوج کشمیر کے حوالے سے ایک بے لچک موقف رکھتی ہے جب فوج کے سربراہ اور ملک کے صدرکی طرف سے اس موقف میں غیر معمولی لچک دکھائی گئی تو بھارت نے اس کا فائدہ کیوں نہیں اٹھایا۔ یہ سوال بھارتی حکمرانوں کی گردن پر سوار رہے گا۔

حکومت عوام پر عوام کی مرضی سے کی جاتی ہے یہی جمہوریت کا اصول ہے۔ بدقسمتی سے پچھلے 70 سال  سے بھارت اپنے پٹھوؤں کے ذریعے کشمیر پر حکومت کر رہا ہے اور اس نیک کام کے لیے اربوں روپے بھی خرچ کر رہا ہے۔ لیکن اسے ابھی تک عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوسکی۔ جو حکومتیں عوام کی حمایت سے محروم ہوتی ہیں وہ جمہوری نہیں آمرانہ حکومتیں کہلاتی ہیں۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔ دنیا یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ دنیا کا یہ سب سے بڑا جمہوری ملک کشمیر میں کیوں آمریت استعمال کر رہا ہے۔

کشمیر میں اب لاکھوں عوام سڑکوں پر آرہے ہیں اور مارے بھی جا رہے ہیں۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ اس خطے میں مذہبی انتہا پسندی کا سب سے بڑا سبب مسئلہ کشمیر ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مذہبی انتہا پسند طاقتیں طاقت کے ذریعے اس مسئلے کے حل پر تلی ہوئی ہیں اور وہ طاقت فوجی نہیں بلکہ دہشتگردی کی ہوگی۔ کیا بھارتی حکمران اس کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ اندھی اور بہری طاقتیں جو پاکستان کو نہیں بخش رہیں وہ بھارت کو چھوڑ دیں گی؟ اس سے پہلے کہ بھارت پاکستان اور افغانستان جیسی صورتحال کا شکار ہو اسے کشمیر کے مسئلے کے آبرو مندانہ حل کی طرف آنا چاہیے۔

رشی کپور نے پاکستان کے یوم آزادی پر پاکستانی عوام کو مبارک باد کا پیغام بھیجا ہے جس کا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ رشی کپور جیسے لاکھوں کی خاموش اکثریت بھارتی حکمرانوں پر مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور دے گی اور اس حوالے سے عوام کو ایک دوسرے سے ملنے کے لیے پاسپورٹ اور ویزا کی سختیاں ختم کرکے آزادی کے ساتھ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے سے ملنے کے مواقعے فراہم کرے گی۔ یہ مسئلہ کشمیر کے حل میں بہت بڑی پیشرفت ثابت ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔