مگر ہم ٹھہرے طبلہ نواز!

وسعت اللہ خان  ہفتہ 26 اگست 2017

ہم وفائیں کر کے رکھتے ہیں وفاؤں کی امید

دوستی میں اس قدر سوداگری بھی جرم ہے (اقبال عظیم)

مجھے یہ تو نہیں ادراک کہ پاکستان کی ستر برس پرانی امریکا پالیسی کتنی حقیقت پسند اور کتنی خواہش پسند ہے پر اتنا ضرور جانو ہوں کہ امریکا سے ہمارے تعلقات کی بنیاد ’’اجرتی، خدمتی، مروتی ’’اور ہم سے امریکا کے تعلقات کی بنیاد دہاڑیانہ یا بہت سے بہت کرائے دارانہ ہے۔

نہ تو ہمارے پاس تیل کے کنوئیں کہ امریکا آخری حد تک ناز اٹھائے، نہ ہم کوئی اقتصادی طاقت کہ امریکا ہمارے بارے میں کچھ کہنے یا کرنے سے پہلے دس بار سوچے، نہ ہم کوئی غریب افریقی ملک جہاں کے ہیروں، یورینیم یا دیگر قیمتی معدنی ذخائر کے لیے امریکا ہمیں بزور کسی طفیلی ّڈکٹیٹر کے جوتے تلے مسلسل دبا کے رکھنے میں سکھی ہو۔ہم تو بس سروسز دے سکتے ہیں، سو جیسی سروس ویسی دوستی۔

ایسے میں دوستی، مروت، اخلاص جیسی اصطلاحات کا استعمال سوائے لفظی جگالی کے اور کیا ہے۔ویسے بھی ممالک کے مراسم گاہک اور دکاندار کے تعلقات ہیں۔تم نے ہماری ضرورت پوری کی ہم نے تمہاری۔جتنی مروت ایک دکاندار اور گاہک کے مابین ہوتی ہے اتنی ہی ملکوں کے درمیان بھی ضروری ہے۔جو جتنا سودا خریدتا یا بیچتا ہے اتنا ہی مسکراہٹی پروٹوکول بھی پا لیتا ہے۔اللہ اللہ خیر صلیٰ۔

محبت، دوستی،انسیت، الفت، وقت پڑنے پر ساتھ دینا وغیرہ خصوصیات انسانی و انفرادی ہیں۔اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے کے لنگر پر کھڑے بین الاقوامی تعلقات میں انفرادی برتاؤ اور روایات کی توقع بے وقوفی کی علامت ہے۔ایسے یقینیوں کے ہاتھ مایوسی اور فرسٹریشن کے کچھ نہیں آتا۔

مگر پتھر کی آنکھ میں بھی مروت تلاش کرنے والے ہم سادے مختلف حیلے بہانوں سے آس باندھنے اور پھر اس آس کے ہاتھوں لٹنے اور پھر آس باندھنے سے کبھی باز نہیں آتے۔ جب کچھ مل جاتا ہے تو ایک کے دس بتاتے ہیں، کچھ نہیں ملتا تو ایک کی دس سناتے ہیں۔ ہمارا خیال ہوتاہے کہ فلانا ملک شاید ہمارا مسئلہ یا بات سمجھ نہیں پا رہا۔ حالانکہ ہر ملک اپنے مفاد کی بات خوب سمجھ رہا ہوتا ہے۔ مطلب نہ ہو تو بہرہ بن جانا اور مطلب ہو تو نہ بھی بولیں تب بھی کہنا ’’جی آپ نے کچھ فرمایا عالی جاہ‘‘۔ یہی سکہِ رائج الوقت ہے بین الاقوامی سفارتکاری میں۔

اسی لیے مجھ جیسوں کو کبھی کبھی فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ کہیں ایک دن یہ سوال نہ کھل جائے کہ سمندروں سے گہری، ہمالہ سے بلند اور شہد سے بھی میٹھی دوستی دراصل ایک چینی محاورہ ہے یا ہم نے خود یہ اودھی محاورہ سہولتاً بنایا ہے جو چینیوں کو بھی پسند آ گیا۔ ورنہ تو اس دنیا میں چین کے ایک سو ایک دوست اور بھی ہیں۔کبھی کسی اور کے لیے یہ محاورہ سنا نہیں؟ اللہ خیر کرے گا۔ ویسے بھی مبالغہ آرائی ایشیائی لسانیات کا نمک ہے۔انکار بھی یوں ہوتا ہے کہ آدمی اقرار سمجھ کے لٹ جائے۔

کچھ اپنی ناسمجھی یا پھر ضرورت سے زیادہ سمجھ یا افسانوی توقعات میں رہنے کی لت جانے کن کن بیابانوں میں پھراتی رہتی ہے۔جیسے یہی کہ مسلمان ممالک دراصل برادر مسلم ممالک ہیں اور پھر ہم نے اپنی زندگی میں ہی دیکھ لیا کہ برادرانِ یوسف عملاً کیسے ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے لیے یہ متھ بھی باندھی کہ پاکستان عالمِ اسلام کا قلعہ ہے۔مجھے اب تک اس دوسرے مسلمان ملک کی تلاش ہے جو یہ گواہی دے سکے کہ پاکستان ٹھیک کہتا ہے۔یہ واقعی عالمِ اسلام کا قلعہ ہے۔

ایک زمانے تک ہمارا خیال تھا کہ ایران اور پاکستان دراصل تاریخی و ثقافتی جڑواں بھائی ہیں۔کیا آج بھی یہی خیال ہے؟ چند برس پہلے تک ہمیں پختہ یقین تھا کہ سب روٹھ جائیں مگر خلیجی ممالک ہمیشہ ہمارے شانہ بشانہ رہیں گے۔کیا آج بھی ہمارا یہی خیال ہے یا رفیق؟ کسی کو یاد پڑتا ہے کہ فلسطین کے بارے میں پاکستان کا اصولی موقف کبھی بدلا ہو مگر کشمیر پر برادر عرب یا برادر خلیجی ممالک نے ہمیشہ ایک ہی موقف رکھا ہو؟ پر اپنا اب بھی یہی حال ہے کہ

لے شبِ وصلِ غیر بھی کاٹی

تو ہمیں آزمائے گا کب تک

اسی طرح ہم نے امریکا کے بارے میں بھی اپنے تئیں کچھ ایسے تصورات پیڑھی در پیڑھی باندھ رکھے ہیں جو امریکیوں کی سمجھ میں بھی آج تک نہیں آئے۔جیسے یہی کہ ڈیموکریٹ بھارت نواز ہوتے ہیںاور ریپبلیکن پاکستان نواز۔ امریکی کانگریس کا جھکاؤ بھی تاریخی طور پر اس لیے بھارت کی جانب ہوتا ہے کہ وہاں کبھی سینیٹ میں تو کبھی ایوانِ نمایندگان میں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہوتی ہے۔مگر صدر اگر ریپبلیکن ہو تو وہ پاکستان کے بارے میں کسی بھی ڈیمو کریٹ کانگریس سے زیادہ ہمدردانہ رویہ رکھتا ہے۔

یہ تصور غالباً اس لیے بندھا  کیونکہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے دوران امریکا نے پاکستان کو اسلحے کی فراہمی بند کر دی تھی اور اس وقت ڈیموکریٹ جانسن صدر تھے۔مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اسی ڈیموکریٹ صدر نے بھارت کو بھی اسلحہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ریپبلیکن پاکستان کے دوست ہوتے ہیں۔یہ تصویر غالباً آئزن ہاور کے دور میں بندھا جب امریکا نے ہمیں جپھی ڈال کر ایک ہاتھ سے سیٹو اور سینٹو میں شامل کر کے دوسرے ہاتھ سے بڈبیر کا جاسوسی اڈہ پکڑ لیا اور اس کے عوض پاکستان کی فوجی امداد بھی بڑھا دی اور یو ایس ایڈ کی خوردنی مدد بھی آنے لگی۔یہ وہ زمانہ ہے جب سرحد پار ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے لگ رہے تھے۔اور جیسے ہی کینیڈی نے سرخ چین کے ہاتھوں پٹائی سے زرد بھارت کو اسلحہ روانہ کرنا شروع کیا۔پاکستان نے خود کو ہلکا سا چین کی جانب کھسکا لیا مگر امریکا سے بھی ایک محبوبانہ روٹھم راٹھی چلتی رہی۔

اکہتر میں ساتواں بحری بیڑہ تو چٹاگانگ نہ آیا مگر یہ تاثر اور مضبوط ہوگیا کہ ریپبلیکن نکسن پاکستان کا دوست ہے۔اگرچہ پاکستان نے جنگ سے پہلے چین اور امریکا کے درمیان سفارتی پل کی خدمت انجام دی مگر مشرقی اور مغربی پاکستان کا پل جلنے کا عمل نکسن بھی نہ روک سکا۔بس یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ نکسن نے اندراگاندھی کو پیغام بھیجا کہ مشرقی پاکستان پر صبر کرو اور مغربی پاکستان سے پرے رہو۔

سوویت افغان جنگ کے زمانے میں جب کارٹر نے مونگ پھلی کے دانے کے برابر امداد کی پیش کش کی تو کہا گیا کہ دیکھا نا! ہم نہ کہتے تھے ڈیموکریٹس کتنے خصیص ہوتے ہیں۔اور جب ریگن نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے خزانے کے منہ کھول دیے اور ایٹمی پروگرام سے بھی منہ موڑ لیا تو کہا گیا دیکھا نا! یہ ہوتا ہے خاندانی ریپبلیکن۔ اس خاندانی ریپبلیکن کی مہربانیوں نے پاکستان کو آج تک سیاسی، علاقائی، معاشی، سماجی و نظریاتی اعتبار سے کہاں پہنچا دیا؟ کیا یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے؟ اور جب مشن پورا ہوگیا تو اگلے ریپبلیکن صدر بش سینئر نے پاکستان کی فوجی امداد بھی روک دی اور ایٹمی پروگرام کے بارے میں استثنائی سرٹیفکیٹ دینے سے بھی انکار کر دیا۔بیچ میں پھر پاکستان دشمن ڈیموکریٹ کلنٹن آ گیا۔اس اللہ مارے نے بھارت کا تو پانچ روزہ سرکاری دورہ کیا مگر اسلام آباد میں بمشکل پانچ گھنٹے ہی گزار پایا۔

اور پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ بش جونئیر آ گیا۔تھا تو وہ ریپبلیکن مگر نائن الیون کے اڑتالیس گھنٹے میں اس کی جانب سے پاکستان کو پیغام ملا ’’یا ہمارا ساتھ دو یا پتھر کے زمانے میں جانے کے لیے تیار ہو جاو‘‘۔ ظاہر ہے ہمیں ریپبلیکن صدر کا ساتھ تو دینا تھا۔افغانستان میں امریکی فوجیں اترتے ہی ہمارا میٹر بھی چالو ہوگیا۔مگر پہلی بار شدت سے محسوس ہوا کہ نئے زمانے کے ریپبلیکن پرانوں کی طرح بامروت نہیں۔یہ پہلے بوٹی دیتے ہیں اور پھر بدلے میں پورا بکرا مانگتے ہیں۔

افغانستان کے ضمن میں پچھلے ریپبلیکنز کا ساتھ دینے کی قیمت میں پناہ گزیں، کلاشنکوف اور ہیروئن ہی آئے تھے پر اس بار تو دہشتگردی کا سانپ بھی ادھار میں مل گیا۔ بش جونئیر کی بھارت نوازی بھی ایسی تھی کہ پہلی بار شک سا ہونے لگا کہ کہیں یہ اندر سے ڈیموکریٹ تو نہیں۔

اگلے وقتوں کے ریپبلیکنز امداد اور اسلحے کا زیادہ حساب کتاب نہیں رکھتے تھے لیکن نئے ریپبلیکنز نہ صرف رسیدیں مانگتے ہیں بلکہ ڈو مور کی گردان بھی کرتے رہتے ہیں۔

اوباما پہلا ڈیموکریٹ تھا جس نے پاکستان کو ڈو مور تو کہا مگر لہجہ مہذب رہا۔کولیشن سپورٹ فنڈ کی اجرت کے ساتھ ساتھ گیری لوگر قانون کے تحت ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کی اقتصادی و عسکری امداد بھی آتی رہی لہذا پاکستان بھی اوباما کے ساتھ گزارہ کرتا رہا۔بھارت کی جانب اوباما کا جھکاؤ بھی اس لیے قابلِ برداشت تھا کہ ایک ڈیموکریٹ صدر سے اور کیا توقع ہو سکتی ہے۔

لیکن اب جو ریپبلیکن بصورِت ٹرمپ آیا ہے اس کے بعد پاکستان کا یہ متھ بھی ٹوٹ گیا کہ کون سی امریکی جماعت یا صدرپاکستان نوازہے اور کون بھارت نواز۔ اب توکانگریس کے دونوں ایوانوں میں بھی ریپبلیکن اکثریت ہے۔

کاش ہم خود ساختہ افسانوی جھونپڑی میں رہنے کے بجائے کبھی اس پر بھی دھیان دے لیتے کہ جو بھی امریکی صدر آتا ہے وہ پہلے امریکا نواز ہوتا ہے اور پھر بندہ نواز۔مگر ہم ٹھہرے طبلہ نواز۔ایسا سوچنے میں کیا وقت گنوانا۔ روز کمانا روز کھانا، گانا، بجانا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔