معصوم بچیوں پر ظلم

زبیر رحمٰن  ہفتہ 26 اگست 2017
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

ویسے تو مزدور طبقہ ہی دنیا کا سب سے زیادہ استحصال زدہ طبقہ ہے، مگر پاکستان دنیا کے ان تین چار ملکوں میں سے ہے جہاں بچیوں اور خواتین کا زیادہ قتل ہوتا ہے۔ ہر سال یہاں بے دردی سے بچیاں اور عورتیں جھوٹے الزامات کے تحت قتل کردی جاتی ہیں۔

گزشتہ برس چھ ہزار سے زیادہ لڑکیاں اور عمر رسیدہ خواتین کا قتل ہوا، سسرالی ظلم ستم، ونی، غیرت، کاروکاری، بے جوڑ شادی، گھریلو ملازمہ پر تشدد، اغوا، زیادتی اور پھر قتل کی واردات، بردہ فروشی اور عصمت فروشی کے واقعات عام ہیں۔ ان عوامل پر بہت کم سزا رکھی گئی ہے اور ان پر کوئی سخت قانون بھی نہیں۔ ویسے تو بے شمار واقعات روزانہ کے معمول ہیں۔

ٹی وی اور اخبارات میں دو چار واقعات تو روز چھپتے اور نشر کیے جاتے ہیں مگر ان کے علاوہ بہت سی ایسی خبریں ہمیں معلوم ہی نہیں ہوپاتی ہیں، جن کی رپورٹنگ ہوتی نہیں یا دبا دی جاتی ہے۔ گھاس کاٹنے کی مشین میں ملازم کا ہاتھ کاٹنا، اثر ورسوخ رکھنے والے افراد آئے روز اپنے ملازمین پر تشدد کرتے ہیں اور عدالت سے بری بھی ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ وہ صاحب جائیداد طبقات کے لوگ ہوتے ہیں۔

اگر صاحب جائیداد طبقات کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو ٹی وی اور اخبارات پر نہ صرف اودھم مچ جاتا ہے بلکہ خبروں کی زینت بن جاتی ہے جب کہ غریب کے ساتھ اگر کوئی واقعہ ہو تو کوئی شنوائی نہیں ہوتی بلکہ اس پر ہی الٹا الزام عاید کردیا جاتا ہے۔ میں ایک ہی مثال دوں گا، شاید یہی کافی ہے۔

18 اگست 2017 کو اخبارات میں جو خبر شایع ہوئی۔ شادی سے پندرہ روز قبل اغوا کی گئی لڑکی کی لاش اغوا کار کے گھر سے ملی۔ ڈی آئی جی میرپورخاص نے واقعے کا نوٹس لے کر غفلت برتنے پر ڈی ایس پی جھنڈ اور ایس ایچ او نوکوٹ کو معطل کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق جھڈو پولیس نے نواحی علاقے گھگھ موری میں شہریوں کی اطلاع پر امیر کپری نامی شخص کے گھر چھاپہ مارا اور لڑکی کی لاش برآمد کرلی۔ متوفیہ نوکوٹ کے نواحی علاقے فقیر محمد کموہ کی رہائشی تھی، جسے اس کی شادی سے پندرہ روز قبل مایوں بیٹھنے کے دوران ایک درجن سے زائد مسلح افراد نے اغوا کرلیا تھا۔ جس کا مقدمہ مغویہ کے والد پریل کی مدعیت میں حسین بخش کپری اور رسول بخش کپری، چھ افراد کے خلاف نوکوٹ تھانے میں درج کیا گیا تھا۔

پولیس نے اس مقدمے میں چار افراد کو حراست میں لیا تھا لیکن مرکزی ملزمان تاحال گرفتار نہیں ہوسکے، جب کہ لڑکی کی بازیابی کے لیے اہلخانہ نے سرتوڑ کوششیں کیں اور احتجاج بھی کیا لیکن پولیس بااثر افراد کی سرپرستی کے باعث نامزد مرکزی ملزمان کو گرفتار کرنے اور لڑکی کی بازیابی میں ناکام رہی۔ متوفیہ کی والدہ اور بھائی نے صحافیوں کو بتایا کہ 56 سالہ ملزم حسین بخش کپری، جو کہ پولیس کو درجنوں مقدمات میں مطلوب ہے، نے لڑکی کا رشتہ مانگا تھا لیکن زائد عمر اور ملزم کے کرمنل ریکارڈ کے باعث اس نے انکار کردیا۔

ملزم نے دھمکی دی تھی کہ وہ لڑکی کو اغوا کرا لے گا۔ گھر والے اس کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ ملزمان نے لڑکی کو اسلحہ کے زور پر اغوا کرلیا، جس کا مقدمہ درج کرایا لیکن پولیس نے نشاندہی کے باوجود ملزمان کو گرفتار نہیں کیا۔ ملزمان نے لڑکی کے اہل خانہ کو دھمکی دی کہ اگر مقدمہ واپس نہ لیا تو لڑکی کو قتل کردیں گے۔

دوسری جانب ڈی آئی جی میرپورخاص نے واقعے کا نوٹس لیا اور پندرہ روز گزر جانے کے باوجود لڑکی کی بازیابی میں ناکامی پر ڈی ایس پی جھڈو ایوب درس اور ایس ایچ او نواں کوٹ محمد افضل کو معطل کرتے ہوئے مرکزی ملزمان کی گرفتاری کی ہدایت کی، جس پر پولیس نے پھرتی دکھاتے ہوئے مرکزی ملزم حسین کپری اور امیر بخش کو گرفتار کرلیا ہے۔ یہ تو رہی واقعات کی تفصیلات۔ اب یہ مقدمہ کیسے چلتا ہے، کب تک چلتا ہے، ضمانت کیسے ملتی ہے، یہ سب بعد کی بات ہے۔ اس لیے کہ ایسے مقدمات عدالتوں میں لاکھوںکی تعداد میں التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ آخرکار غریب لوگ عدالتوں کا چکر اور رقوم کے اخراجات سے تنگ آکر تھک ہار کر گھر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ کہہ کر صبر کرلیتے ہیں کہ اﷲ ہی نمٹے گا۔

شیخ سعدی نے درست کہا تھا کہ ’تنگ آمد بجنگ آمد‘۔ ایسا وقت آنے والا ہے کہ ہمارے ملک کی لڑکیاں اور خواتین آزاد ہوں گی۔ 1917 کے عظیم سوشلسٹ اکتوبر انقلاب سے قبل دنیا میں کہیں بھی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا۔ 1917 میں روس میں، 1918 میں جرمنی میں، 1919 میں امریکا میں، 1929 برطانیہ میں اور 1973 میں سوئٹزرلینڈ میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ اسی طرح اس وقت دنیا میں اسمبلی میں اور اعلیٰ عہدے پر براجمان سب سے زیادہ خواتین کی شرح بلغاریہ میں ہے، یعنی 52 فیصد، جو کہ پہلے سوشلسٹ ملک تھا۔ سابقہ سوشلسٹ وسطی ایشیائی ممالک میں اس وقت سو میں ساٹھ خواتین ڈاکٹرز اور پچاس انجینئرز ہیں۔ یہ سب حاصلات انقلاب کی وجہ سے ہوا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں تین ممالک ایسے ہیں جہاں سب سے شرح خواندگی خواتین کی کم ہے اور وہ ہیں روانڈا، ایتھوپیا اور پاکستان (خاص طور پر فاٹا کا علاقہ)۔ جب کہ ہمارے ہاں سب سے کم بجٹ تعلیم کا ہے اور زیادہ جنگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ تعلیم کا بجٹ بڑھایا جائے اور فوجی بجٹ کم کیا جائے۔ لڑکیوں اور خواتین پر جبر، قتل، تیزاب گردی، اغوا، ونی، کاروکاری، بے جوڑ شادی اور زیادتیوں کے خلاف عمر قید کی سزا دی جائے تو یہ جبر و زیادتیاں گھٹ سکتی ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا واحد حل صرف ایک کمیونسٹ سماج کی تشکیل میں ہی مضمر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔