گورکھا لینڈ کی تحریک

آصف زیدی  اتوار 27 اگست 2017
گورکھا لینڈ تحریک کی شدت بڑھتی جارہی ہے اور اب اس میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔ فوٹو : فائل

گورکھا لینڈ تحریک کی شدت بڑھتی جارہی ہے اور اب اس میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔ فوٹو : فائل

بھارت کے سیاست دان خاص طور پر اقتدار کے ایوانوں میں رہنے والے اس بات پر بڑا فخر کرتے ہیں کہ ہم سب سے بڑی جمہوریت کے مالک ہیں، لیکن بہت سی برائیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی سرکاری کے منہ پر ایک اور بد نما داغ یہ ہے کہ مختلف ادوار میں بھارتی حکومتوں نے صرف اپنے لیے سوچا اور انتہاپسند ہندوؤں کے علاوہ مسلمانوں سمیت کسی بھی مذہبی اور لسانی اقلیت کو ذرا برابر بھی اہمیت نہیں دی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج مختلف علاقوں میں بھارت سے آزادی کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ اس کی تازہ مثال گورکھا لینڈ تحریک ہے۔

گورکھا لینڈ تحریک کی شدت بڑھتی جارہی ہے اور اب اس میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد سے ہی گورکھا کمیونٹی کا مطالبہ رہا ہے کہ ان کو شناخت دی جائے۔ انھیں ہر سطح پر نظرانداز کرنے کے اقدامات نہ کیے جائیں، لیکن یہ تواتر سے آنے والی بھارتی حکومتوں کی ہٹ دھرمی ہے جس کی وجہ سے اب اپنے حقوق کے آواز اٹھانے والے سڑکوں پر نکل کر سیکیوریٹی فورسز سے جھڑپوں میں مصروف ہیں۔ دارجلنگ جو بھارت کا سب سے خوب صورت سیاحتی مقام کہلاتا تھا اور مختلف ملکوں سے آنے والوں کے لیے انتہائی پرکشش تھا، اب فائرنگ کی آوازوں، توڑ پھوڑ، حکومت مخالف نعروں اور جلاؤ گھیراؤ کے لیے مشہور ہورہا ہے۔

گورکھا قومیت کے حامل لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی معاشی ترقی اور بہتر معیار زندگی کے لیے ایک الگ یونٹ ضروری ہے۔ مختلف دانشوروں اور ارکان اسمبلی نے مختلف ادوار میں گورکھا قوم کے لیے الگ ریاست کی آواز اٹھائی، لیکن دہلی میں موجود حکم رانوں نے اسے نظر انداز کردیا۔ کلمپونگ (Kalimpong) سے تعلق رکھنے والے ایک بیرسٹر ازی بہادر گورنگ نے ریاستی اسمبلی میں اس کے لیے آواز بلند کی تو 1986 میں سابق فوجی اور شاعر سبھاش گشنگ نے ان خیالات کا اظہار کیا کہ گورکھا ریاست ضروری ہے۔ انھوں نے ہی ’’گورکھا لینڈ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی اور گورکھا نیشنل لبریشن فرنٹ (CGNLF) کے بینر تلے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ 2007 میں بیمل گورنگ نے گورکھا نیشنل لبریشن فرنٹ کو چھوڑ کر ’’گورکھا جن مکتی مورچہ‘‘ کے نام سے پارٹی تشکیل دی۔ تقریباً ایک سال کے احتجاج اور مظاہروں کے بعد گورکھا جن مکتی مورچہ کے لیڈر گورکھا لینڈ خود مختار پارٹی کی تشکیل پر راضی ہوگئے۔

بھارت میں 2009 کے عام انتخابات کے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے وعدہ کیا کہ ملک میں مزید 2 ریاستیں تلنگانہ اور گورکھا لینڈ بنائی جائیں گی۔

21 مئی 2010 کو گورکھا لینڈ تحریک میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب اکھل بھارتیہ گورکھا لیگ (Akhil Bharatiya Gorkha League) کے اہم راہ نماؤں مدن تمانگ (Madan Tamang) کو قتل کردیا گیا۔ شواہد بتاتے ہیں کہ مدن تمانگ کا دار جلنگ میں قتل گورکھا جن مکتی مورچہ کے حامیوں کے ہاتھوں ہوا۔ اس قتل کے بعد دارجلنگ سمیت مختلف علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال اور احتجاج کا سلسلہ کئی روز جاری رہا، جس کے بعد گورکھا لینڈ علاقائی انتظامیہ (gorkhaland territorial administration) کے لیے مفاہمتی یادداشت پر 18 جولائی 2011 کو دستخط کیے گئے۔

بنگال کی ممتا بینرجی مختلف فورمز پر بار بار یہ کہتی رہیں کہ دارجلنگ بنگال کا اہم حصہ ہے اور رہے گا، جب کہ گورکھا لینڈ تحریک کے راہ نماؤں بہ شمول بیمل گورونگ کا کہنا تھا کہ گورکھا لینڈ تحریک جاری رہے گی اور مفاہمتی یادداشت پر دستخط اس مقصد کے حصول کی طرف صرف ایک قدم ہے۔

30 جولائی 2013 کو کانگریس ورکنگ کمیٹی نے تلنگانہ کو آزاد ریاست بنانے کے حوالے سے قرارداد منظور کی۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد بھارت کے مختلف علاقوں میں جاری آزادی کی تحریکوں میں شدت آگئی اور علیحدہ ریاستوں کا مطالبہ زور پکڑ گیا ان میں مغربی بنگال میں گورکھالینڈ اور آسام میں بوڈو لینڈ (Bodoland) تحاریک نمایاں تھیں۔

آزادی کے مطالبات اور اس کے حق میں احتجاج، مظاہروں کا سلسلہ کئی سال تک جاری رہا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ 2017 میں بھی دارجلنگ مظاہروں اور پر تشدد احتجاج کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سیاح اب بھی دارجلنگ آرہے ہیں، لیکن اب ہر جگہ سیکیوریٹی حصار ہے، الرٹ دیے جارہے ہیں کہ وہاں جائیں وہاں نہ جائیں۔

اس جلتی ہوئی آگ پر مزید تیل رواں سال جون میں اس وقت چھڑکا گیا جب مغربی بنگال کی حکومت نے ریاست کے تمام اسکولوں میں بنگالی زبان کو لازمی قرار دینے کا فرمان جاری کیا۔ اس اعلان سے دارجلنگ اور اس سے ملحق علاقوں کے لوگوں کو شدید تشویش لاحق ہوگئی تھی، کیوںکہ ان کی زبان نیپالی ہے۔ انھوں نے مغربی بنگال حکومت کے اس فیصلے کو گورکھا لینڈ تحریک سے وابستہ افراد کے خلاف کھلی کارروائی سے تعبیر کیا۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ گورکھا لینڈ تحریک کا احتجاج کئی ہفتوں سے جاری ہے، گاڑیاں نذر آتش ہورہی ہیں، املاک کو نشانہ بنایا جارہا ہے، سرکاری املاک خاص طور پر مظاہرین کا نشانہ ہیں۔ متعدد افراد پولیس اور فورسز سے جھڑپوں میں زخمی ہوچکے ہیں جب کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دارجلنگ میں احتجاج کے دوران تا حال 4 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

ایک ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا ہے علاقے میں حکومت نے انٹرنیٹ سروس بھی بند کی ہوئی ہے۔

دیکھا جائے تو دارجلنگ جیسے خوب صورت سیاحتی مقام کو خطروں سے بھرا علاقہ بنانے اور اس شہر کی خوب صورتی کو داغ دار کرنے میں مودی حکومت اور مغربی بنگال کی سرکار کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ گورکھا لینڈ تحریک کے لوگ اپنی شناخت اور اپنے علاقے کی ترقی چاہتے ہیں۔ وہ بار بار مطالبہ کررہے ہیں کہ انھیں بھی سارے حقوق دیے جائیں اور انھیں بھارتی شہری سمجھا جائے، لیکن بھارتی حکم رانوں کی سرشت میں ہی نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے حقوق دیں، ان کے کام آئیں یا دوردراز علاقوں کو ترقی دینے کے منصوبے بنائیں۔

مختلف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گورکھا لینڈ تحریک کی ضرورت اس لیے پڑی کہ علاقہ ترقی کے ثمرات سے مکمل طور پر محروم ہے، یہاں کے لوگ احساس محرومی میں مبتلا رہے جس کی وجہ سے وہ انتہائی قدم اٹھاکر اب اپنی الگ ریاست کے لیے سڑکوں پر آگئے ہیں۔

یہاں لوگوں کی آمدنی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں کافی کم ہے، روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ گورکھا برادری چاہتی ہے کہ انھیں غیرملکی نہ سمجھا جائے اسی لیے وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو زبردستی اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے۔ ہر روز مظلوم کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور بھارت سرکار کے نمائندے قومی و بین الاقوامی فورم پر انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ سکھوں کی خالصہ تحریک بھی زوروں پر ہے، بھارتی حکومتوں کے اقدامات اور فیصلوں سے بھارت کے سکھ بھی پریشان ہیں۔ اس طرح گورکھا لینڈ تحریک اور دیگر تحاریک ہیں جو رفتہ رفتہ زور پکڑ رہی ہیں۔

بھارتی ظلم و ستم، خودساختہ چوہدراہٹ اور کمینے پن کا یہی عالم رہا تو بھارت بہت جلد آزادی کی مزید کئی تحاریک دیکھے گا اور بہت جلد ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔