گلیورز ٹریول؛ اٹھارہویں صدی کا پاکستان

ذیشان محمد بیگ  اتوار 27 اگست 2017
للپیٹ میں سب سے دلچسپ بات جو گلیور کے علم میں آئی وہ بادشاہ کا اپنے وزراء کے انتخاب کا طریقۂ کار تھا۔ فوٹو : فائل

للپیٹ میں سب سے دلچسپ بات جو گلیور کے علم میں آئی وہ بادشاہ کا اپنے وزراء کے انتخاب کا طریقۂ کار تھا۔ فوٹو : فائل

انگلستان کی تاریخ میں اٹھارویں صدی کی بہت اہمیت ہے۔ اس کو ’’اگسٹن ایج‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دور میں گو صنعتی ترقی شروع ہوچکی تھی مگر معاشرے میں اس کے مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ مادیت پرستی، نمود و نمائش، لفاظی اور دولت کی فراوانی سے در آنے والی دیگر غیر معقولات سراعت کرگئیں تھیں اور سیاست میں بھی ان بدعات کا عکس بہت واضح دکھائی دے رہا تھا۔ ایسے میں سماج کا باشعور طبقہ مضطرب تھا۔ جس کا اظہار شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات میں نظر آنے لگا۔

اسی دور میں انگلستان کے مشہور ادیب ’’جوناتھن سوئفٹ‘‘ کا ناول ’’گلیورز ٹریول‘‘ سامنے آیا۔ یہ ناول دنیا کے چار دور دراز مقامات کے خیالی سفر ناموں پر مشتمل ہے (مصنف انہیں حقیقی قرار دیتا ہے)۔ اس ناول نے منظر عام پر آتے ہی عوام میں مقبولیت کی سند حاصل کرلی کیونکہ اس کے ذریعے مصنف نے معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور طنزیہ اسلوب کے بے مثال استعمال کے ساتھ انتہائی لطیف پیرائے میں سماج کی ان خرابیوں کو اجاگر کیا جو انسانی رویوں میں بگاڑ کا باعث بن رہی تھیں۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ آج جب پاکستان کے معروضی حالات پر غور کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں بھی وہ تمام خرابیاں بدرجہ اتم موجود نظر آتی ہیںجو اٹھارویں صدی کے انگلستان میں دکھائی دیتی ہیں۔ چند سال پہلے تک پاکستان کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ یہ ملک سائنس اور ترقی کے لحاظ سے مغربی ممالک سے کئی سو سال پیچھے ہے لیکن لگتا ہے کہ شاید ہم اخلاقی اور معاشرتی برائیوں کے تدارک کے حوالے سے بھی ان ممالک سے کئی صدیاں پیچھے ہیں۔

اکثر لوگوں نے اپنے بچپن میں وہ کہانی پڑھی ہوگی جس میں ایک آدمی بونوں کے دیس میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ کہانی ہی ’’جوناتھن سوئفٹ‘‘ کی ’’گلیورز ٹریول‘‘ ہے۔ ہم اس مضمون میں اسی کہانی کو بچپن میں پڑھی گئی کہانی کی بجائے اسی تناظر میں پڑھیں گے جیسے مصنف نے اسے اپنے معاشرے کی اصلاح کے لیے تحریر کیا تھا۔

یقینا اٹھارویں صدی کے انگلستان اور موجودہ پاکستانی سماج کا تقابلی جائزہ اس ضمن میں دلچسپی کا حامل ہوگا اور ہمیں اپنے کئی سیاسی و معاشرتی کرداروں کی گہری مماثلت اس دور کے انگلستان کے لوگوں کے ساتھ محسوس ہوگی۔

کہانی کے مطابق ’’گلیور لندن میں اپنے کاروبار میں مسلسل نقصان کے باعث فیصلہ کرتا ہے کہ اسے سمندری تجارتی سفر پر نکلنا چاہیے۔ وہ ایک بحری جہاز پر اپنے تجارتی مال و اسباب کے ساتھ سفر پر روانہ ہوجاتا ہے مگر دوران سفر موسمی حالات ناموافق ہوجاتے ہیں اور ایک سمندری طوفان کی زد میں آکر جہاز تباہ ہوجاتا ہے۔ گلیور سمیت چند لوگ ایک چھوٹی کشتی میں سوار ہوجاتے ہیں مگر شومئی قسمت وہ کشتی بھی سمندر کی بپھری ہوئی لہروں کی تاب نہ لاتے ہوئے ڈوب جاتی ہے۔ زندگی بچانے کی جدوجہد میں گلیور کے ہاتھ سمندر میں بہتا ہوا ایک لکڑی کا تختہ لگتا ہے اور وہ اس کے سہارے تیرتے ہوئے ایک ساحل پر جاپہنچتا ہے۔ اس دوران وہ اتنا تھک چکا ہوتا ہے کہ سمندر کے کنارے پر ہی بے ہوش ہوجاتا ہے۔

جب اس کی آنکھ کھلتی ہے اور وہ اٹھنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ پیر اور یہاں تک کہ اس کے لمبے لمبے بال بھی زمین کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ گردن دائیں بائیں گھما کر دیکھنے سے بھی قاصر ہے۔ اچانک اسے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی چیز اس کے سینے پر رینگتی ہوئی اس کی ٹھوڑی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ جب وہ اپنی آنکھیں نیچے کرکے اپنی ٹھوڑی کی جانب نظریں دوڑاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک چھوٹا سا بونا جو بمشکل اس کی انگلی کے برابر تھا اس کے سینے پر کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں چھوٹی سی کمان اور چھوٹے چھوٹے تیر تھے اور اس کے پیچھے اسی جیسے چالیس پچاس دیگر بونے بھی تیر کمانوں سے لیس کھڑے تھے۔

جس جزیرے پر گلیور پہنچا تھا وہ بونوں کا مسکن تھا اور اس کا نام ’’للیپٹ‘‘ تھا۔ بعدازاں بے ضرر مان کر ’’للیپٹ‘‘ کے بادشاہ نے گلیور کو آزادی سے اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دے دی۔ للیپٹ میں قیام کے دوران گلیور کو وہاں کے طرز معاشرت اور سیاسی نظام کا بغور مشاہدے کرنے کا موقع ملا۔ بادشاہ کے معتمد خاص نے گلیور کو بتایا کہ مملکت دو فریق دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک دھڑا ’’ٹرامیکسنس‘‘ کہلاتا ہے جبکہ دوسرے کو ’’سلامیکسنس‘‘ کہتے ہیں۔

’’ٹرامیکسنس‘‘ کو ’’ہائی ہیلز‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ اونچی ایڑی کے جوتے پہنتے ہیں اور ’’سلامیکسنس‘‘ چھوٹی ایڑی کے جوتے پہننے کے باعث ’’لوہیلز‘‘ کہلاتے ہیں۔ دونوں گروہ ایک دوسرے سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ نہ اکٹھے کھاتے پیتے ہیں اور نہ ہی آپس میں بات چیت کرنے کے روادار ہیں۔

ان دونوں پارٹیوں میں فرق یہ ہے کہ اونچی ایڑی والے ملک کے آئین کو بالاتر مانتے ہیں اور چھوٹی ایڑی والے بادشاہت کے پرستار ہیں۔ اسی وجہ سے بادشاہ، حکومت کے وزراء اور اعلیٰ حکام کا تقرر صرف چھوٹی ایڑی والوں میں سے ہی کرتا ہے۔ بادشاہ خود بھی چھوٹی ایڑی کے جوتے پہنتا ہے جبکہ اس کا ولی عہد کیونکہ ابھی تک فیصلہ نہیں کرپایا کہ وہ کس گروپ میں شامل ہو اس لیے وہ ایک پاؤں میں چھوٹی ایڑی اور دوسرے میں اونیچی ایڑی کا جوتا پہنتا ہے۔ اسی مخمصے کے باعث اس کو چلنے پھرنے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔‘‘

آئیے کچھ دیر کیلئے گلیور کی کہانی کو یہیں روکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا ہمارے معاشرے میں آج اسی طرح کی صورتحال نہیں ہے؟ ’’جوناتھن سوئفٹ‘‘ نے تو اپنے ملک کی اس وقت کی سیاسی جماعتوں اور ان کے پیروکاروں پر طنزیہ تنقید کی تھی، پر کیا ہمارے معاشرے میںبھی یہ تقسیم موجود نہیں؟ چھوٹی چھوٹی فروعی باتوں کو لے کر کیا ہم ایک دوسرے کی مخالفت نہیںکرتے؟ ایک جماعت دوسری کو ملک دشمن اور غدار کہتی ہے تو دوسری جماعت پہلی کو جمہوری آمر اور بادشاہت کی علمبردار قرار دیتی ہے اور ان جماعتوں کے کارکن اور ہمدرد سیاسی مخالفت کو ذاتی مخاصمت کے درجے پر لے آتے ہیں۔ ایک تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنے ذاتی مفادات کے اسیر ہونے کے باعث ’’للیپٹ‘‘ کے ولی عہد کی طرح دو کشتیوں کے سوار ہیں۔ بقول شخصے:

جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
کو ایک بیرونی خطرہ بھی لاحق تھا۔اس کی اپنے پڑوسی جزیرے ’’بلیفسکو‘‘ کے ساتھ تین سال سے جنگ جاری تھی۔ جنگ کی وجہ یہ تھی کہ للیپٹ کے موجودہ حکمران کا دادا اپنے بچپن میں انڈہ توڑتے ہوئے اپنی انگلی زخمی کروا بیٹھا تھا۔ حکمران کے پڑدادا کا خیال تھا کہ اس کے بیٹے کی انگلی انڈے کو اس کی گول والی بڑی سائیڈ سے توڑنے کے سبب زخمی ہوئی تھی، اگر وہ انڈے کو چھوٹی والی نوک دار سائیڈ سے توڑتا تو یہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔ اس وقت تک للیپٹ میں سب لوگ انڈہ اس کی گولی والی بڑی سائیڈ سے ہی توڑتے تھے مگر شہزادے کے زخمی ہونے کے بعد یہ شاہی فرمان جاری ہوا کہ آئندہ انڈے کو چھوٹے والی نوک دار سائیڈ سے ہی توڑا جائے گا۔ یوں جو لوگ انڈے کو گول والی بڑی سائیڈ سے توڑتے تھے وہ ’’بگ اینڈینز‘‘ کہلاتے اور جو چھوٹی نوک دار سائیڈ سے توڑتے تھے وہ ’’لٹل اینڈینز‘‘ کہلانے لگے۔

’’بگ اینڈینز‘‘ اس قانون کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے انڈے کو گول والی بڑی سائیڈ سے ہی توڑتے رہے اور اس ضمن میں انہیں ’’بلیفسکو‘‘ کی بھر پور حمایت اور مالی مدد حاصل تھی تاکہ للیپٹ میں اس خلفشار کے باعث اندرونی حالات بے چینی اور عدم استحکام کا شکار رہیں کیونکہ بلیفسکو کے باشندے بھی انڈے کو اس کی گول والی بڑی سائیڈ سے ہی توڑنا صحیح سمجھتے تھے اور اسی لیے للیپٹ میں موجود اپنے ہم خیال لوگوں کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ جب للیپٹ کے ’’بگ اینڈینز‘‘ نے حالات سے تنگ آکر بلیفسکو ہجرت کرنی شروع کی اور بہت بڑی تعداد میں مہاجر ’بلیفسکو‘ پہنچنے لگے تو بلیفسکو کی حکومت نے اپنی فوجوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ اس پر تنگ آکر للپیٹ کے موجودہ حکمران نے بلیفسکو کے خلاف جنگ شروع کردی جو تین سال سے جاری تھی۔‘‘

کہانی کو ایک بار پھر روکتے ہوئے جائزہ لیتے ہیں کہ کیا ہمارے ملک کے چند عاقبت نااندیش لوگ اپنے ساتھ ناانصافی ہونے کا رونا رو کر پڑوسی ممالک سے امداد کے طالب نہیں ہوتے؟ اور یوں اپنے ہی وطن عزیز کے خلاف بیرونی قوتوں کے آلۂ کار بن کر ملک کو شورش میں مبتلا کردیتے ہیں۔

ایک دفعہ پھر کہانی کی طرف لوٹتے ہیں۔ للیپٹ کے حکمران کا خیال تھا کہ اسے کیونکہ خدا نے حکومت اور اقتدار کا مالک بنایا تھا اس لیے وہ ظل الہی (اللّٰہ کا سایہ) ہے اور مملکت کے لیے ناگزیر ہے۔‘‘ آج ہمارے حکمران بھی خود کو ملک کے لیے ناگزیر خیال کرتے ہیں جبکہ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ قبرستان’’ ناگزیر‘‘ لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔

اسی طرح دوسری طرف عوام الناس کا یہ حال ہے کہ ’’للیپٹ‘‘ کے لوگ اپنے مردوں کو سر کے بل زمین میں دفن کرتے تھے کیونکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ قیامت کے روز زمین پلٹ دی جائے گی اور یوں ان کے مردے اپنی قبروں میں سیدھے کھڑے ہوجائیں گے۔ آج ہمارے ملک میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو چمگادڑ کی طرح الٹے لٹک کر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیروں پر آسمان کو اٹھا رکھا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو آسمان زمین پر گرپڑے۔

للپیٹ میں سب سے دلچسپ بات جو گلیور کے علم میں آئی وہ بادشاہ کا اپنے وزراء کے انتخاب کا طریقۂ کار تھا۔ وزراء کی تقرری کے لیے معیار یہ تھا کہ جو لوگ زمین سے کئی فٹ اوپر تنی ہوئی رسی پر چل سکتے تھے یا کسی بانس کی مدد سے اس رسی کو پھلانگ سکتے تھے صرف وہی وزارت کا منصب سنبھالنے کے اہل سمجھتے جاتے تھے۔ تنی ہوئی رسی کے اوپر جتنی اعلیٰ کارکردگی یا رسی پر سے جتنی اونچی چھلانگ، اتنی ہی بڑی وزارت کا قلمدان۔ گو، جوناتھن سوئفٹ نے اس طرح اپنے دور کے انگلستان کے وزراء کی تقرری کے معیار کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن کیا ہمارے وطن پاک میں آج حالات مختلف ہیں؟

عقلمندرا اشارہ کافی است
گلیور تو بالآخر للیپٹ سے نکل آنے میں کامیاب ہوگیا اور بعدازاں اس نے تین بحری سفروں کے دوران تین دنیاؤں کی مزید سیر کی، جن کا تذکرہ آئندہ کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ پہلا سفر اٹھارویں صدی کے انگلستان کے علاوہ آج ہمارے لیے بھی سوچ کے کئی در وا کرتا ہے۔

آج نہ صرف حکمران اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ جمہوریت کو صرف اپنے ذاتی مفادات، حکومتی مراعات اور خاندانی تعیشات کے حصول کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ اس کی حقیقی روح کو نافذ کرکے عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے کے مقولے پر عمل کرتے ہوٗے جمہوریت کے صحیح اثرات کو لوگوں تک پہنچانے کی تگ و دو کریں کہ یہی جمہوری نظام کا محاصل ہے۔

مناصب پر تقرری کے وقت ذاتی وفاداری کی بجائے میرٹ کو یقینی بنائیں اور عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے بناتے ہوئے ان کے بنیادی حقوق پر مبنی منصوبوں کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھیں۔ ان کا مقصد اولین عوام کی زندگیوں کو آسان بنانا ہونا چاہیے ناکہ عوام کو ووٹ ڈالنے والے آلے سمجھتے ہوئے جمہوریت کے باقی ثمرات سے محروم کردیا جائے۔ دنیا میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب کسی قوم کے لیڈر نے اپنی قوم کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کیا اور پھر اس مقصد کے لیے اپنا تن، من، دھن قربان کردیا۔

اس کی خلوص نیت نے ناصرف اس کی عوام کو آسودگی اور ترقی کی منزل سے ہم کنار کرتے ہوئے دوسری اقوام کے لیے باعث رشک بنا دیا بلکہ وہ لیڈر بذات خود بھی اپنی قوم میں محبوبیت کے اس درجے پر فائز ہوا کہ جس کی تصدیق کے لیے نہ اس کے جلسوں میں شریک لوگوں کے تعداد کے اعداد و شمار گننا پڑے اور نا اسے مصنوعی مقبولیت کے سروے کروانا پڑے۔

دوسری طرف عوام کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے حکمران چنتے وقت ذات، برادری کے حصار سے باہر نکل کر اہل، ایمان دار اور پڑھے لکھے امیدوار کو منتخب کریں اور چھوٹے چھوٹے لالچوں میں پڑنے کے بجائے اپنے ملک اور اپنی آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے صحیح فیصلے کریںتو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان بھی معاشرتی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کی اوج کو چھولے کیونکہ معاشرتی اقدار کی پاسداری ہی معاشی استحکام کی بنیاد ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہوجائے تو کوئی بڑی بات نہیں کہ پاکستان کبھی سنگاپور کے ’’لی کیوان یو‘‘ اور جنوبی افریقہ کے ’’نیلسن منڈیلا‘‘ اور ملائشیا کے ’’مہاتیرمحمد‘‘ جیسے لیڈر پالے جو ہمارے ملک کو بھی ترقی کی شاہراؤں پر گامزن کرکے عوامی فلاح و بہبود کی منزل کے حصول کا ذریعہ بن جائیں۔

جب ہم آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی جدید ایجادات اور ٹیکنالوجی کے استعمال میں ان سے پیچھے نہیں تو پھر معاشرتی وجمہوری اقدار کی پیروی میں ان سے صدیوں پیچھے کیوں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔