شکر ہے ’’ریلوکٹے اور پھٹیچر‘‘ کرکٹرز نہیں آ رہے

سلیم خالق  ہفتہ 26 اگست 2017
چیئرمین نے ورلڈالیون کے کھلاڑیوں کا آخرکار اعلان کر ہی دیا ہے۔ فوٹو: این این آئی/فائل

چیئرمین نے ورلڈالیون کے کھلاڑیوں کا آخرکار اعلان کر ہی دیا ہے۔ فوٹو: این این آئی/فائل

’’پاپاکیا قذافی اسٹیڈیم میں میچز نہیں ہوتے، لوگ کرکٹ اسٹیڈیمز میچز دیکھنے جاتے ہیں مگر ہم ڈنر کرنے یا آئس کریم کھانے یہاں آیا کرتے ہیں، ہماری ٹیم کب یہاں کھیلے گی‘‘۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے میرے ایک دوست نے مجھے یہ بات بتائی تھی،ان سے چھوٹا بیٹا ہمیشہ یہی سوال کرتا، چونکہ اسٹیڈیم کے ساتھ ہی ریسٹورنٹس وغیرہ واقع ہیں اس لیے عوام کا آنا جانا لگا رہتا ہے مگر میچز والی رونق نہیں لگتی، درمیان میں زمبابوے سے سیریز اور پی ایس ایل فائنل ہی ایسے مواقع تھے جب شائقین کو اپنے سامنے ہیروز کو کھیلتے دیکھنے کا کچھ چانس ملا، مگر اب پاکستان میں طویل عرصے بعد غیرملکی اسٹارز کے ایکشن میں آنے کا وقت آ گیا، لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد ملکی میدان ویران ہوئے اور اب اسی شہر سے دوبارہ نیا آغاز ہوگا۔

ورلڈ الیون کی صورت میں پہلی بار اسٹار کرکٹرز ملک میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں گے، پاکستانی ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی جیتنے سے ملک میں کرکٹ کا جنون دوبارہ سے بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، اب قوم کو ثابت کرنا ہے کہ ہم کھیلوں سے محبت کرنے والے امن پسند لوگ ہیں، ورلڈ الیون کو بلانے کیلیے کئی برس سے کوششیں جاری تھیں مگر درمیان میں کوئی نہ کوئی مسئلہ آ جاتا تو سب کچھ ختم کرنا پڑتا، گورے کم ہی پاکستان کو پسند کرتے ہیں مگر اس معاملے میں جائلز کلارک کے کردار کو نہ سراہنا ناانصافی ہوگی، انھوں نے بطور ٹاسک فورس سربراہ ہمارے ملک میں کرکٹ واپس لانے کیلیے بھرپور اقدامات کیے جس کا نتیجہ اب سامنے آنے والا ہے۔

اس حوالے سے ہمیں سابق چیئرمین شہریارخان کو نہیں بھولنا چاہیے جنھوں نے پودا لگایا جو اب درخت بن کر پھل دینے والا ہے ، جائلز کلارک سے ان کی ذاتی دوستی ہے، چیمپئنز ٹرافی کے دوران ایک بار میں لندن کے ہوٹل شہریارخان سے ملنے گیا تو وہاں ان کی اہلیہ ایک گوری خاتون سے باتیں کر رہی تھیں۔

انھوں نے میرا ان سے تعارف کرایا تو پتا چلا وہ مسز جائلز کلارک ہیں، وہ بھی پاکستان کو بہت زیادہ پسند کرتی ہیں، اسی دوران جائلز کلارک بھی آ گئے، شہریار صاحب نے مجھے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ ’’سلیم میں بورڈ میں ہوں یا نہیں تم دیکھ لینا اسی سال ورلڈ الیون پاکستان آئے گی‘‘ ان کی بات سچ ثابت ہوئی، باقی کا کام نئے چیئرمین نجم سیٹھی نے سنبھالا۔

اس سیریز کی راہ میں واحد رکاوٹ پیسہ تھی، آئی سی سی رقم خرچ کرنے کو تیار نہ تھی، پھر اس نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے سیکیورٹی فرم کو معاوضہ خود دینے کا فیصلہ کیا، پی سی بی بھی بھاری بجٹ دیکھ کر پریشان تھا، مگر اب حکام نے ارادہ کر لیا کہ چاہے جتنی رقم خرچ ہو سیریز کرا کے رہیں گے، اسی لیے کم از کم 35 سے40 کروڑ روپے خرچ کر کے مقابلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے، امید ہے میچز کامیابی سے ہمکنار ہوں گے، اس صورت میں یہ سرمایہ کاری پاکستان کے کام ہی آئے گی۔

دیگر ٹیموں کو بھی دورے پر آمادہ کرنے میں مدد مل سکے گی، یوں ہمارا ملک ماضی کی طرح ایک بار پھر انٹرنیشنل ٹیموں کی میزبانی کرنے لگے گا، اس وقت میں سیٹھی صاحب کو یہی مشورہ دوں گا کہ ذرا آہستہ آہستہ چلیں، میڈیا میں آ کر بڑھکیں مارنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں بھی آ رہی ہیں، پہلے ورلڈالیون پر فوکس کریں، اس کے بعد آگے کا سوچیں، تب ہی مقصد میں کامیابی ملے گی،ویسے وہ خوش قسمت ہیں کہ جب کریڈٹ لینے کا وقت آئے تو وہ ٹاپ پوزیشن پر آ چکے ہوتے ہیں۔

پی ایس ایل کا پروجیکٹ ذکا اشرف نے شروع کیا، پھر رک گیا، بعد میں سیٹھی صاحب آئے اور ایونٹ کی کامیابی کا تمام تر سہرا اپنے سر لے لیا، البتہ فکسنگ کیس کا کہیں ذکر نہیں ہوتا، اب بھی ایسا ہی ہوا، شہریارخان نے ورلڈالیون کا پروجیکٹ شروع کیا لیکن جب انعقاد ہونے والا ہے تو نجم سیٹھی چیئرمین بن چکے۔

چیئرمین نے ورلڈالیون کے کھلاڑیوں کا آخرکار اعلان کر ہی دیا ہے، ورنہ ہر روز نت نئے نام سوشل میڈیا کی زینت بن رہے تھے، اس پر تنگ آ کر ایک صحافی نے نجم سیٹھی سے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’جناب جلدی پلیئرز کے نام میڈیا کو بتا دیں ورنہ آپ کے چاہنے والے ڈان بریڈ مین کو بھی اسکواڈ کا حصہ بنا دیں گے‘‘۔ شکر ہے ’’ریلوکٹے اور پھٹیچر کرکٹرز‘‘ نہیں آ رہے، ورنہ عمران خان پھرکوئی بیان دے دیتے جس کا نواز شریف کو سیاسی فائدہ ہو جاتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مہمان ٹیم میں عمران طاہر بھی شامل ہیں، یوں لاہور میں پیدا ہونے والا کھلاڑی ایک کروڑ روپے لے کر لاہور میں میچ کھیل کر اسے محفوظ قراردے گا، اس ملک کے عمران پر بہت احسانات ہیں، اسی کے پاسپورٹ پر وہ پہلی بار جنوبی افریقہ گئے ہوں گے جہاں جا کر مقامی خاتون سے شادی کر کے شہریت حاصل کی، اب تو یہ حال ہے کہ اردو میں بات کرنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

اسی طرح تمیم اقبال جو بنگلہ دیشی ٹیم کے دورئہ پاکستان کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگا کر کہتے تھے ’’وہاں بہت سیکیورٹی خدشات ہیں میں تو نہیں جاؤں گا‘‘ ایک کروڑ روپے آتے دیکھ کر سب خدشات اڑن چھو ہو گئے، بطورکپتان فاف ڈوپلیسی کا انتخاب اچھا فیصلہ ہے، ہاشم آملا بھی پاکستانی شائقین میں بیحد مقبول ہیں، ڈیرن سیمی پی ایس ایل فائنل کیلیے لاہور آ کر پاکستانیوں کے دل میں جگہ بنا چکے ہیں، دیگر پلیئرز بھی اچھے مگر بعض نام دیکھ کر ایسا لگا کہ انھیں ایک کروڑ روپے دینا شاید درست نہ ہوگا، ریٹائرڈ یا ریٹائرمنٹ کی دہلیز پر موجود کرکٹرز کی آمد زیادہ فائدہ نہیں دینے والی۔

موجودہ کھلاڑی ہی دورہ کر کے اپنے ساتھیوں کو بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کے حالات اب پہلے جیسے خراب نہیں رہے، وہاں جا کر کھیلنا چاہیے، یوں جب ان کی ٹیم کے دورے کی بات آئے گی تو شاید اتنا اعتراض سامنے نہ آئے،  بہرحال سیریز کا نتیجہ کوئی بھی ہو فاتح پاکستانی کرکٹ ہی ہو گی، سرفراز احمد اور دیگر چیمپئنز ٹرافی کی چیمپئن ٹیم کے اسٹارز کو سامنے کھیلتے دیکھنا مداحوں کو بھرپور تفریح فراہم کرے گا، شائقین بھی مثالی ڈسپلن کا مظاہرہ کر کے ان میچز کا کامیاب انعقاد یقینی بنائیں، ورلڈالیون کے پلیئرز کو بھی اسی انداز میں داد دیں جیسے وہ ہمارے اپنے اسٹارزہیں، ہمیں طویل عرصے بعد موقع ملا ہے کہ دنیا پر ثابت کریں ہم پُرامن کرکٹ قوم ہیں، اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔