پولٹری صنعت میں سرمایہ کاری 1 ہزار ارب روپے سے تجاوز

عامر نوید چوہدری  ہفتہ 26 اگست 2017
حکومت پولٹری برآمدکیلیے مراعات دے تو اربوں ڈالرزرمبادلہ کماکردے سکتے ہیں، عبدالباسط۔ فوٹو:فائل

حکومت پولٹری برآمدکیلیے مراعات دے تو اربوں ڈالرزرمبادلہ کماکردے سکتے ہیں، عبدالباسط۔ فوٹو:فائل

 لاہور:  پاکستان کی پولٹری انڈسٹری میں سرمایہ کاری کا حجم 1000 ارب روپے سے زائد ہے، پولٹری انڈسٹری سے بلاواسطہ طور پر 20 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے جبکہ بالواسطہ طور پر پولٹری سیکٹرسے کئی ملین لوگ منسلک ہیں۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پولٹری سیکٹر تیزی سے ترقی کر رہا ہے،اس وقت ملک میں روزانہ 60 لاکھ کلوگرام وزن کی حامل مرغیاں ذبح کی جاتی ہیں جن سے40 لاکھ کلوگرام گوشت حاصل ہوتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک انسان کو روزانہ کم ازکم 27 گرام حیوانی پروٹین استعمال کرنی چاہیے لیکن پاکستان میں حیوانی پروٹین کے استعمال کے حوالے سے ابھی آگہی کم ہے، پاکستان میں اوسطاً 17گرام فی کس حیوانی پروٹین استعمال کی جاتی ہے جو سالانہ ساڑھے 6 کلو گرام کے مساوی ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ مقدار 41 سے 65 کلوگرام سالانہ ہے جس میں سب سے زیادہ اسرائیل میں ہر شہری سالانہ 65 کلو گرام حیوانی پروٹین استعمال کرتا ہے، اس کے بعدکویت کا نمبر آتا ہے جس میں ہر شہری 62 کلو گرام، سعودی عرب میں 52 کلو گرام، امریکا اور یورپ میں فی کس 41 کلو گرام حیوانی پروٹین استعمال کی جاتی ہے۔ اگر ان ممالک میں حیوانی پروٹین کے استعمال سے پاکستان کا موازنہ کیا جائے تو ہم اپنی غذا میں پروٹین کی شدید قلت کا شکارہیں جبکہ پاکستان میں پولٹری سمیت دیگر پروٹین کی قیمت ان ممالک سے کہیں کم ہے۔

پولٹری انڈسٹری کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے پولٹری ایکسپرٹ اور لاہورچیمبرآف کامرس کے صدر عبدالباسط نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ پاکستان کی پولٹری انڈسٹری نے تیزی سے ترقی کی ہے، اس میں مزید سرمایہ کاری کی گنجائش ہے، لاکھوں افراد اس کاروبار سے منسلک ہیں لیکن انڈسٹری کی ترقی اور اس میں پائیدار سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اسے زیروریٹڈ سیکٹر قراردے تاکہ پاکستان کی پولٹری پروڈکٹس ایکسپورٹ ہوسکیں کیونکہ حلال فوڈکی عالمی مارکیٹ بہت بڑی ہے اورہمارا حصہ اس میں نہ ہونے کے برابرہے، اگر حکومت پولٹری سیکٹرکو ایکسپورٹ کے لیے مراعات دے تو یہ سیکٹر اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔