کس قانون کے تحت سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ عام نہیں کی جا رہی؟ لاہور ہائیکورٹ

نمائندہ ایکسپریس  ہفتہ 26 اگست 2017
انکوائری رپورٹ منظرعام پر لاکر مقتولین کے ورثا کو جلد انصاف کی فراہمی کا عمل ممکن بنایا جا سکتا ہے، وکیل درخواست گزار۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

انکوائری رپورٹ منظرعام پر لاکر مقتولین کے ورثا کو جلد انصاف کی فراہمی کا عمل ممکن بنایا جا سکتا ہے، وکیل درخواست گزار۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

 لاہور:  لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری ٹربیونل رپورٹ کی معلومات کیلیے دائر درخواست پر پنجاب حکومت سے 12ستمبر کو جواب طلب کر لیا، عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ عوامی دستاویزات کی معلومات شہریوں کا حق ہے، کس قانون کے تحت سانحہ ماڈل ٹائون کی انکوائری رپورٹ کی معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں؟

جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے متاثرین سانحہ ماڈل ٹاؤن قیصر اقبال، امجد اقبال اور محمد ادریس سمیت 11 افراد کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی، درخواست گزاروں کی جانب سے اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے ہوم سیکریٹری اور چیف کمشنر انفارمیشن سمیت دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ماڈل ٹائون انکوائری رپورٹ منظر عام پر آنے سے ذمے داروں کا تعین ہو گا۔

انکوائری رپورٹ منظرعام پر لاکر مقتولین کے ورثا کو جلد انصاف کی فراہمی کا عمل ممکن بنایا جا سکتا ہے، معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت کسی شہری کو بھی معلومات کی فراہمی سے نہیں روکا جا سکتا، انفارمیشن کمشنر کی عدم تعیناتی کی بنا پرسانحہ ماڈل ٹائون کی رپورٹ فراہم نہیں کی جا رہی، انصاف کی فراہمی میں تاخیر آئین کے خلاف ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن عدالتی انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کی متعدد درخواستیں ہائیکورٹ میں پہلے سے ہی زیر سماعت ہیں، فل بینچ نے کئی ماہ سے ان درخواستوں پر سماعت نہیں کی۔

اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ درخواست ورثا کی طرف سے دائر کی گئی ہے اوراس کا پہلی درخواستوں سے کوئی تعلق نہیں، درخواست گزاروں کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے عدالتی ٹربیونل کی رپورٹ درخواست گزاروں کو فراہم کرنے کا حکم دے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کو منظر عام پر لانے کے حوالے سے ہائیکورٹ میں زیر سماعت درخواستوں کی تعداد 9 ہو چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔