یورو/ڈالر سرد جنگ: برطانیہ، یورپی یونین سے نکلنے کو پر تولتا ہے؟

غلام محی الدین  اتوار 17 فروری 2013
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

یورپ کے حسین شہر برسلز میں یورپی یونین کا ہیڈ کوارٹرآج کل مغربی اقوام کا مستقبل طے کرنے میں الجھا ھوا ہے، دوسری جانب برطانیہ کے روایت پسند گورے اس ہیڈ کوارٹر میں جاری سرگرمیوں سے چِڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

ان کے ساتھ  کوئی بھولے سے بھی یورپی یونین کی کسی پالیسی کا ذکر کر بیٹھے تو یہ  وکٹوریہ پرست پہلے تو نہایت شائستہ ہونے کا ڈھونگ کرتے ہوئے کہیں گے  ’’ موسم کے تیور آج کچھ بدلے بدلے نہیں لگ رہے، کیا خیال ہے؟‘‘۔ بات کا رخ پھرا تو پھرا نہ پھرا تو ان کا پھر گیا ’’بس بس رہنے دیجے، بہت ہو لی‘‘۔۔۔ یہ وہ عام رویہ ہے جس نے برطانیہ کی اشرافیہ کے سکون کو غارت کر دیا ہے۔

لندن اسکول آف اکنامکس میں امورِ یورپ کے ماہر لین بیگ کا تازہ بیان اس صورت حال کی بھر پور عکاسی کرتا ہے، بہ قول ان کے ’’ اگرچہ یورو زون میں بحران کی وجہ سے براعظم یورپ کے بیش تر ممالک ایک دوسرے کے زیادہ قریب آرہے ہیں مگر برطانیہ کا رویہ یک سر مختلف ہے، میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ متحدہ یورپ ایک مخصوص سمت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ برطانیہ بھی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ مختلف ممالک ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں، میرے خیال میں وفاق کے اس رحجان کی وجہ سے ہی شاید برطانیہ کی پریشانی بھی بڑھ رہی ہے اور اس پریشانی کے بطن سے جو واحد حل نکلتا ہوا مجھے نظر آ رہا ہے، وہ علیحدگی کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

برطانیہ کے حالیہ سیاسی منظر نامے پر یورپی یونین سے برطانیہ کی علاحدگی کا سوال آج کل ایک گرما گرم بحث کا موضوع بنا ہوا ہے جس کو بعض لوگ قبل از وقت بھی قرار دیتے ہیں لیکن سچ یہ بھی ہے کہ اس سوال نے خود برطانیہ کو دو سوچوں سے دو چار کر رکھا ہے جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ گزشتہ دنوں جب برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے پارلیمنٹ خطاب میں یورپی یونین کی رکنیت کے حوالے سے ریفرنڈم کا ذکر کیا تو روایت پسندوں نے مسرت کا اظہار کیا جب کہ یورپی یونین کے سا تھ رہنے والے حلقوں نے اس اعلان کو تشویش ناک صورت حال قرار دے دیا تھا۔ یاد رہے کہ ان حلقوں کا وجود برطانیہ میں اب بہ تدریج کم ہو رہا ہے جس کو ایک نئی سماجی تبدیلی کہا جا سکتا ہے۔

برطانیہ کی یورپی یونین سے علاحدگی کے حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ برطانوی پارلیمان کے وہ ارکان جو اپنے داخلی معاملات میں یورپی یونین کی بیوروکریسی کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے خائف ہیں، دراصل وہ ہی یونین کی قید سے نکل بھاگنے کے لیے واویلا کرتے ہیں جب کہ عوامی سطح پر اس معاملے کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی خود ڈیوڈ کیمرون اور ان کے ساتھی علاحدگی کے حامی ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعظم کے خطاب کا مقصد صرف دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا تھا تاکہ یونین کے دوسرے چھبیس ممالک سے مذاکرات کے منصوبے کو آگے بڑھایا جاسکے۔ مبصرین نے یہ بھی واضح کیا کہ ریفرنڈم کے نتیجے میں برطانیہ وہاں پہنچ سکتا ہے جہاں ڈیوڈکیمرون اسے لے جانا نہیں چاہتے۔

اس حوالے سے برطانیہ میں ایک نئی صورت حال سامنے آتی ہے۔ پہلے پہل کہا گیا تھا کہ کاروبار اور معیشت کے لیے یونین کی رکنیت کا خاتمہ کوئی اچھی تجویز نہیں ہو گی مگر جب حال ہی میں برطانیہ کی 56  سرکردہ کاروباری شخصیات نے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ ملاقات کے دوران ریفرنڈم کے منصوبے کی تائید کی تو یورپی یونین میں ایک بھوںچال سا آگیا۔ ان سرکردہ لوگوں میں لندن اسٹاک ایکس چینج اور ملک کے ایک بڑے بینک کے سربراہ بھی شامل تھے۔ کاروباری رہ نماؤں اور وزیراعظم کے درمیان بات چیت میں جن تبدیلیوں کا تصور پیش کیا گیا ہے، ان کو دیکھتے ہوئے کہا جا رہاہے کہ ان کو یورپی یونین کے’’ بڑے‘‘ ہرگز قبول نہیں کریں گے۔

یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ برطانیہ کی جانب سے یونین کے اختیارات کی جو طویل فہرست تیار کی گئی ہے وہ دیگر رکن ممالک کو مجبور کر دے گی اور وہ خود ہی سٹپٹا اٹھیں گے کہ اتنے غمزے نہیں اٹھائے جا سکتے، لندن کو بس رخصت ہی کیا جائے۔ اس ضمن میں خود یورپی یونین کے اعلیٰ عہدے داروں نے تو پہلے ہی اشارہ کردیا ہے۔ ان عہدے داروں میں فرانس حکومت کی ترجمان ماجت ولایود بھی شامل ہیں۔ انھوں نے کہا ’’یورپی یونین کا رکن ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ پر کچھ ذمے داریاں بھی عاید ہوں گی، ہم جس طرح کے یورپ پر یقین رکھتے ہیں اور جس طرح کے یورپ میں رہتے ہیں وہ یک جہتی کے معاہدے کا پابند ہے، اس معاہدے کا اطلاق تمام ارکان پر یک ساں ہوتا ہے، اگر اطلاق کے معاملے میں گڑبڑ ہوئی تو یہ یک جہتی باقی نہیں رہے گی‘‘۔

فرانس کی جانب سے باہمی اتحاد کے بارے میں جو کہا گیا اس پر برطانیہ نے فی الحال کوئی تین پانچ نہیں کیا، ایساکیوں؟ اس کی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ برطانیہ نے یورپی یونین کے بننے سے لے کر اب تک کسی طرح کی  یک جہتی میں کبھی دل چسپی نہیں لی جب کہ دیگر رکن ممالک نے ہمیشہ اتحاد کی با ت کی اور ابھی تک اپنی بات پر قائم بھی ہیں۔  یہ معاملہ اس پس منظر میں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ برسوں پہلے برطانیہ اپنی چالاک وزیراعظم مارگریٹ تھیچرکی ذہانت کے ذریعے یورپی یونین معاہدے کی دو بنیادی شقوں مشترکہ کرنسی اور کھلی سرحدوں کے سمجھوتے سے باہر نکل گیا تھا اور اب وہ مکمل آزادی کا اگر خواہاں ہے تو اس پر حیرانی کیسی ؟

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ وزیراعظم کیمرون کو مجبوری کے عالم میں اپنے ارکان پارلیمان سے وعدہ کرنا پڑا تھاکہ وہ یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات پر نئے سرے سے مذاکرات کریں گے،اس پورے عمل کے دوران اگر وہ 2015  میں دوبارہ منتخب ہو جاتے ہیں تو پھر پانچ سال کے اندر ریفریڈم منعقد کریں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق برطانوی وزیراعظم نے ایک عمل شروع تو کر دیا ہے اگر اس کے نتیجے میں برطانیہ الگ ہو گیا تو اس کی معیشت تباہ و برباد ہو سکتی ہے۔

ڈیوڈ کیمرون کے پالیسی خطاب کے بعد متعدد یورپی ممالک نے ناراضی کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر جرمنی کے وزیر خارجہ گیڈو یسٹر ویلے نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ’’جرمنی کی خواہش ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کا ایک سرگرم اور تعمیری رکن رہے تاہم لندن کو یہ اختیار نہیں کہ وہ یونین میں شامل رہنے کے لیے اپنی مرضی کی شرائط بھی مسلط کرے‘‘۔ یاد رہے برطانیہ کے قریب ترین اتحادی امریکا نے ماضی میں برطانیہ پر زور دیا تھا کہ وہ بہ دستور یورپی یونین کا حصہ رہے مگر حالیہ حالات و واقعات کے بعد امریکا نے منہ میں گھنگنیاں ڈال لی ہیں۔ شاید چند روز تک ایک پالیسی بیان آجائے کہ یورپی یونین میں برطانیہ کی بہ دستور شمولیت یا مستقبل میں اخراج، برطانیہ کا اندرونی معاملہ ہے۔ امریکا نے جب پس پردہ کوئی منافقت کرنا ہوتی ہے تو وہ اسی طرح کا پالیسی بیان داغتا ہے اور اس کے پیچھے ہمیشہ کوئی نہ کوئی مفاد ہی ہوتا ہے۔ یہاں اگر ہم مختلف عالمی کرنسیوں کی قدر کا تقابلی جائزہ لیں تو ڈالر اور یورو کے درمیان جنگ کے مہیب سایوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ عالمی معیشت پر نگاہ رکھنے والے تو اس معاملے کو یورو کے خلاف پونڈ اور ڈالر کا گٹھ جوڑ قرار دے رہے ہیں۔

یورپی امور کے سیاسی تجزیہ کا روں نے اس معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے بھی دیکھا ہے۔ تجزیوں کے مطابق ’’کنزرویٹو پارٹی برطانیہ میں اپنی مقبولیت کھو رہی ہے، اس لیے ڈیوڈ کیمرون نے پارٹی کی مقبولیت کو سنبھالا دینے کے لیے یہ شگوفہ چھوڑا ہے کیوں کہ لیبر پارٹی کی قیادت کا جھکائو اب بھی یورپی یونین کی طرف واضح ہے  لیکن جس انداز میں ڈیوڈ کیمرون نے یہ کہا کہ اگر ریفرنڈم میں اخراج کا فیصلہ ہو گیا تو یہ ناقابل واپسی قدم ہوگا، اس سے یوں محسوس ہورہا ہے کہ یہ معاملہ مستقبل میں مزید گمبھیر ہوگا۔

برطانیہ میں ہونے والے ایک حالیہ عوامی سروے کے مطابق 56 فی صد برطانوی یورپی یونین سے نکل جانے کو ترجیح دے رہے ہیں جب کہ 45 فی صد نے اِس عمل کو فساد کی جڑ قرار دیا ہے تاہم 2017 میں جب یہ مجوزہ ریفرنڈم ہوگا تب تک شاید عوامی رائے یک سر بدل جائے۔ سروے کے مطابق برطانوی عوام کی اکثریت یورپی یونین سے تنگ آ چکی ہے لیکن اگر برطانوی عوام نے 2015 میں لیبر پارٹی کے حق میں ووٹ ڈال دیا تو پھر برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنے کاخواب شاید ادھورا ہی رہ جائے۔

ڈیوڈ کیمرون نے وعدہ تو کر لیا ہے کہ وہ 2017  تک برطانیہ کے لیے کچھ شرائط پر مذاکرات کریں گے لیکن دوسری جانب دیگر 26 ممالک نے بھی پیش بندی شروع کر دی ہے۔ یورپی یونین کے ممالک شاید اب اس عمل کو دہرانے کا موقع نہ دیں جو سابق وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے دور میں وقوع پذیرہوا تھا اور اُس کے  نتیجے میں برطانیہ کو بہت سی مالی رعایتیں مل گئی تھیں۔ اب یورپی یونین کے دیگر ممالک کا رویہ برطانیہ کے لیے سخت ہوتا جا رہا ہے جو آج کل یورپی یونین سے اپنے مخصوص کردار کے لیے بہ ضد نظر آتا ہے۔ ماضی کا اگر جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ یورو معیشت سے باہر رہ کر برطانیہ نے بہت پہلے ہی اِس نئے عالمی معاشی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا تھا۔

برطانیہ میں یورپی یونین سے اخراج کا مطالبہ گو کہ ایک عوامی مطالبہ بنتا جا رہا ہے مگر دوسری جانب اِس مطالبے سے برطانوی کاروباری طبقہ بہت پریشان ہے کیوں کہ یورپی یونین بہ ہرحال اب بھی برطانوی صنعت کاروں کے لیے بہت بڑی مارکیٹ ہے اور لندن میں بینکنگ کے شعبے کے مراکز قائم ہونے سے بھی برطانیہ کو مالی فوائد مل رہے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی پالیسی تقریر کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بھی سوچ بچار شروع کر دیا ہے۔ ریفرنڈم میں ابھی 4 سال باقی ہیں اور اِس کے نتائج کیا ہوں گے؟ کسی کو اس بارے میں حتمی علم نہیں لیکن سرمایہ داروں کے خدشات اپنی جگہ بہ ہرحال اہمیت کے حامل ہیں، وہ اُس برطانیہ میں کس طرح اپنے نئے کارخانے اور بینک قائم کریں گے جس کے مستقبل کا فیصلہ 4 سال بعد ہونے والا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بھی اِس صورت حال پر لکھا گیا ہے کہ اگر برطانیہ نے اپنی طویل شرائط میں لچک پیدا نہ کی تو برطانیہ کے اخراج کے بعد برسلز برطانیہ کو براعظم یورپ کی مارکیٹوں تک محدود رسائی کی اجازت دے گا اور وہ بھی اپنی مرضی کی شرائط پر، اِس سے برطانیہ کی معیشت تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ اِس کے بعد فرانس اور جرمنی برطانیہ کو بیرونی دنیا سے تجارت کے لیے ایک اہم مرکز کی حیثیت سے تسلیم کر لیں گے؟ کیا برطانیہ کے شہری اپنی چھوٹی سی مارکیٹ کے بل بوتے پر منہگائی اور قرضوں کے بوجھ کا بھی مقابلہ کر لیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں، خاص طور پر موجودہ حکم ران کنزرویٹو پارٹی کے پاس تو اِس کا جواب سرے سے ہے ہی نہیں۔

برطانیہ اِس مضبوط اتحاد سے آخر کار  نکلنے کا کیوں سوچ رہا ہے؟ اِس ضمن میں جو برطانیہ کے شہری کہتے ہیں کہ امیگریشن کے عمل نے برطانیہ کی تہذیب و تمدن کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے، صرف ایک مثال ہے اور وہ یہ کہ جب پولینڈ کو یورپی اتحاد کی رکنیت ملی تو 5 لاکھ سے زیادہ باشندے برطانیہ میں آ کر مقیم ہوئے اور آج برطانیہ کی انگریزی کے بعد دوسری بڑی زبان پولش بن چکی ہے، آئندہ چند دنوں میں بلغاریہ اور رومانیہ کے تارکین وطن پر پابندی بھی ختم ہونے والی ہے جس سے مزید لوگ برطانیہ کا رخ کرنے والے ہیں۔ یہاں سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ برطانیہ ہی کیوں؟

اِس کا سیدھا سادا جواب ہے کہ برطانیہ ایک فلاحی ریاست ہے جہاں انگریزی زبان کے پھیلائو، موثر تعلیمی نظام، مفت طبی سہولیات اور دیگر شہری سہولیات کی مسلسل فراہمی نے دیگر ممالک کے شہریوں کو اپنی جانب مبذول کیا ہوا ہے۔ اِس ضمن میں لیبر پارٹی کے ملی بینڈ نے ایک بیان میں تسلیم کیا تھا کہ یورپی یونین کے شہریوں کی بلا روک ٹوک امیگریشن کی اجازت ہماری جماعت کی ایک فاش غلطی تھی۔ روایت پسند انگریزوں کے لیے دوسری بڑی پریشانی برطانوی عدالتوں کے فیصلوں پر ’’یورپی کورٹ آف جسٹس‘‘ (ای سی جی) کے وہ فیصلے ہیں، جن سے قانونی طور پر برطانوی عدالتوں کے فیصلے غیر موثر ہو رہے ہیں۔ یورپی اتحاد کا قانون کسی بھی فرد یا ادارے کو ای سی جی میں جانے کی اجازت دیتا ہے اور ای سی جی نے برطانوی عدالتی فیصلوں کو  نظرثانی کے بعد تبدیل کر دیا ہے۔

برطانیہ کے حکومتی اہل کار یورپی یونین کے عظیم الشان دفاتر کے ایک لاکھ 70 ہزار اہل کاروں کے لیے بنائے جانے والے قوانین سے بھی نالاں ہیں اور اِن قوانین کو اپنے کام میں مداخلت تصور کرتے ہیں، اِسی طرح یورپی یونین نے آئندہ پانچ برسوں کے لیے 864 ارب یورو کا بجٹ تیار کیا ہے جب کہ پورا یورپ مالی بحران سے گزر رہا ہے۔ اِس پر بھی برطانوی گوروں نے اعتراضات کیے ہیں۔ 100 ارب یورو کی کمی کے مطالبات پر ہوئے مذاکرات میں ناکامی نے برطانیہ کو مزید مایوس کر دیا ہے، برطانوی ٹیکس ادا کرنے والے شہری اعتراض کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ جب یورپ مالی بحران میں ہے تو وہ ٹیکس کیوں ادا کریں، انھیں بھی چھوٹ ملنی چاہیے، اِس ضمن میں سب سے آخری بات کو بھی ہوا ملنا شروع ہو گئی ہے کہ برطانیہ کا یہ روّیہ امریکا کی طرف حد سے زیادہ جھکائو کی وجہ سے ہے۔ امریکا نہیں چاہتا کہ ڈالر کے مقابلے میں یورپ مضبوط ہو جب کہ خود برطانوی بھی ملکۂِ برطانیہ کے تاج والے پونڈ اسٹرلنگ کی قدر کو یورو سے بہتر رکھنے کے خواہاں ہیں۔ برطانوی گوروں سے متعلق یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انھیں خطرہ لاحق ہے کہ یورپی اتحاد کی وجہ سے یورپ میں خالص برطانوی نسل آئندہ 20 سال میں مکمل طور پر ختم ہو جائے گی اور اِس طرح ایک عظیم الشان عہد اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔

یورپی اتحاد سے انگلستان کے اخراج کے حوالے سے جو مرضی کہا جائے وہ اپنی جگہ ضرور اہمیت کا حامل ہو گا لیکن اِس متوقع فیصلے کو اگر سام راجی طاقتوں کا گٹھ جوڑ کہا جائے اور مسابقت کے پردے میں سازشوں، رقابتوں اور بغض و عناد سے تشبیہ دی جائے تو وہ بھی غلط نہیں ہو گا۔

یورپی اتحاد (European Union) براعظم یورپ کے 27 ممالک کا اتحاد ہے۔ اِس کے قیام کا مقصد رکن ممالک کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعاون تھا۔ اتحاد میں شامل 27 ممالک میں سے 17 رکن ممالک واحد کرنسی ’’یورو‘‘ استعمال کرتے ہیں جسے یورو زون کہا جاتا ہے۔ اتحاد کے قیام کا اہم مقصد، پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کو کسی بھی تیسری عالمی جنگ سے بچانا اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کے برابر اقتصادی قوت بننے کے لیے مشترکہ اقتصادی، سماجی اور سیاسی سطح پر تخلیقی طاقت فراہم کرنا تھا۔ یورپی یونین کے رکن ممالک کا کوئی بھی باشندہ تنظیم کے کسی بھی رکن ملک میں رہائش اختیار کرنے کے علاوہ ملازمت، کاروبار اور سیاحت بھی کر سکتا ہے۔ اِس امر کے لیے یورپی شہری کو نئے پاسپورٹ، ویزا یا دیگر دستاویزات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اِس کے علاوہ کسی ایک ملک کی مصنوعات بھی دوسرے ملک میں کسی خاص اجازت یا اضافی محصولات کے بغیر ’’معیاری مصنوعات کے قانون‘‘ کے تحت فروخت کی جا سکتی ہیں، 1957 سے لے کر اب تک یورپی اتحاد کے تصور کو مسلسل پذیرائی مل رہی ہے جو بعد ازاں یورپی یونین کی شکل میں سامنے آئی اور اِن ممالک نے باقاعدہ ایک قانونی معاہدے کے تحت یورپی اتحاد کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ جس میں ایک ذیلی گروپ یورو زون کی شکل میں ابھر کر سامنے آیا اور اُس نے اپنی کرنسی کو ختم کرکے ایک مشترکہ کرنسی یورو کو مکمل طور پر اپنا لیا، اِن ممالک کی فی الوقت تعداد 17 ہے اور مستقبل قریب میں اِس گروپ میں شمولیت کے لیے مزید تین ممالک نے درخواستیں جمع کرا رکھی ہیں۔ یورپی اتحاد میں شامل ممالک کا ویزا اگر کسی دوسرے ملک کے شہری کو مل جاتا ہے تو وہ بھی اِن ممالک میں اُسی طرح نقل و حرکت کرسکتا ہے جس طرح یورپی اتحاد کے اپنے باشندے آزادی سے آ جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔