- شہریوں کو مفت قانونی مشورے فراہم کرنے کی سروس کا آغاز
- مون سون میں فصلوں کا نقصان، سندھ حکومت نے کاشت کاروں کے متعدد ٹیکسز معاف کردیے
- یوکرین کے نرسنگ ہاؤس میں آتش زدگی سے 15 افرادہلاک، 11 زخمی
- امریکا فلسطینیوں اور کشمیریوں کو ان کا حق دلانے میں کردار ادا کرے، فضل الرحمان
- 2006ء میں پولیس اہلکار کو شہید کرنے والے دو متحدہ کارکنان گرفتار
- ملکی کرنٹ اکاؤنٹ 5 ماہ سرپلس رہنے کے بعد پھر خسارہ میں تبدیل
- سندھ میں ہزاروں جعلی اکاؤنٹ کے ذریعے پنشن فراڈ کا اسکینڈل 10 ارب تک پہنچ گیا
- ملازم کی انگریزی کا مذاق اُڑانے والی خواتین کا مؤقف سامنے آگیا
- ایکنک کا اجلاس، بلوچستان میں 100 چھوٹے ڈیمز بنانے کی منظوری
- شہر قائد میں بدترین ٹریفک جام سے شہری جھنجھلاہٹ کا شکار
- تعمیراتی شعبے کے امدادی پیکیج میں مزید ایک سال کی توسیع
- ڈیڑھ کروڑ روپے کی اسمگل شدہ اشیاء کراچی سے ملتان منتقلی کی کوشش ناکام
- بھارت میں کورونا ویکسین بنانے والے پلانٹ میں آتشزدگی سے 5 افراد ہلاک
- لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کرکے خودکشی کا رنگ دینے والا درندہ گرفتار
- آرمی چیف کا آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کا دورہ، سیکیورٹی صورت حال پر بریفنگ
- ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں39 کروڑ87 لاکھ ڈالرز کمی
- ریسٹورینٹ کی مالک خواتین کو ملازم کی انگریزی کا مذاق اُڑانا مہنگا پڑ گیا
- روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر پھر بڑھ گئی
- عالمی اور مقامی بازار میں سونے کے نرخ میں اضافہ
- عوام کا خون چوسنا نالائق اعظم سے بہتر کوئی نہیں جانتا، مریم نواز
کراس (+) پر نظریں جمائیے اور بھوت دیکھیے

اس چھوٹے سے تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’آنکھوں دیکھی‘‘ پر یقین رکھنے والے شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
کراچی: نیچے دی گئی ویڈیو کو کلک کر کے چلائیے اور سیاہ درمیانی حصے میں بنے ہوئے سفید کراس (+) پر نظریں جما دیجیے۔ چند سیکنڈ میں آپ کو ارد گرد کی تصویریں عجیب و غریب اور بھوتوں جیسی محسوس ہونے لگیں گی۔
لیکن جیسے ہی آپ اس کراس پر سے نظر ہٹا کر تصویروں کو دیکھیں گے تو ان میں ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جسے کر کے آپ نہ صرف خود حیران ہو سکتے ہیں بلکہ اپنے دوستوں کو بھی حیران کر سکتے ہیں۔ اگر آپ سوچ رہے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے تو وہ بھی بتائے دیتے ہیں۔
ویسے تو ہماری آنکھ کو ایک ایسے کیمرے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو 190 درجے کے زاویئے تک منظر کا احاطہ کرتا ہے لیکن ہماری آنکھ میں پردہ چشم کا صرف درمیانی حصہ کسی منظر کو دیکھنے کے معاملے میں سب سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔
یہ درمیانی حصہ جو آنکھ میں روشنی کے داخل ہونے والے مقام کی بالکل سیدھ میں واقع ہوتا ہے، پردہ چشم (آنکھ کے پردے) کے پورے رقبے کے صرف 10 فیصد پر مشتمل ہوتا ہے۔ بصریات کی زبان میں اسے ’’پیلا نقطہ‘‘ (یلو اسپاٹ) بھی کہا جاتا ہے۔
اس کے ارد گرد پردہ چشم پر روشنی کو محسوس کرنے اور عکس تشکیل دینے والے خلیوں کی نسبتاً کم تعداد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم کسی چیز پر نظریں جماتے ہیں تو اس سے آنے والی روشنی اسی پیلے نقطے پر مرکوز ہوتی ہے اور یوں ہم اس چیز کو زیادہ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم ارد گرد کا منظر خاصا دھندلا رہتا ہے جس کا اکثر ہمیں احساس نہیں ہوتا۔
جب آپ نے اس ویڈیو کے سیاہ حصے میں موجود سفید کراس (+) پر نظریں جمائیں تو اس کے اطراف سیاہی کی وجہ سے یلو اسپاٹ پر عملاً بہت ہی کم روشنی پہنچی جبکہ تصویروں سے آنے والی روشنی یلو اسپاٹ سے باہر واقع (کم حساسیت کے حامل) پردہ چشم کے حصوں تک پہنچ رہی تھی۔
یہی وہ موقع ہے جب عکس بنانے کے معاملے میں ہمارے دماغ کی صلاحیت ہمیں دھوکا دے جاتی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ یلو اسپاٹ سے آنے والی انتہائی کم روشنی کے باعث دماغ میں عکس سازی والا گوشہ (امیج پروسیسنگ ریجن) اپنے طور پر پورا منظر تشکیل دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن چونکہ یلو اسپاٹ کے ارد گرد پردہ چشم کا حصہ کم حساس ہوتا ہے اور عکس سے متعلق اس سے دماغ تک پہنچنے والے سگنل بھی خاصے کمزور ہوتے ہیں، اس لیے دماغ خود ہی اس کمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
مگر یہ کوشش پوری طرح سے کامیاب نہیں ہو پاتی جس کے نتیجے میں (کراس پر نظریں مرکوز رکھتے ہوئے) ارد گرد کی تصویریں دھندلی پڑ جاتی ہیں، ان کے خد و خال بگڑ جاتے ہیں اور وہ انسانوں کے بجائے بھوتوں جیسی شکلیں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ جب ویڈیو میں یہ تصویریں بار بار تبدیل ہوتی ہیں تو دماغ اس بدلتے منظر میں اور زیادہ الجھ کر رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اس ویڈیو میں جتنی دیر تک کراس (+) پر نظریں مرکوز رکھیں گے، اس کے اطراف موجود تصویریں آپ کو اتنی ہی زیادہ مسخ شدہ، بد رنگی اور بھیانک محسوس ہوں گی۔
مگر جیسے ہی آپ کسی تصویر کی طرف دیکھیں تو پتا چلے گا کہ وہ تو بالکل صحیح حالت میں ہے؛ اصل قصور تو اُس کارستانی کا ہے جو آپ کی آنکھوں اور دماغ نے آپس میں مل کر انجام دی تھی۔
کیوں! کیسا لگا نظروں کا یہ دھوکا؟
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔