- اسرائیلی بمباری میں 6 ہزار ماؤں سمیت 10 ہزار خواتین ہلاک ہوچکی ہیں، اقوام متحدہ
- 14 دن کے اندر کے پی اسمبلی اجلاس بلانے اور نومنتخب ممبران سے حلف لینے کا حکم
- ایل ڈی اے نے 25 ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کے پرمٹ اور مجوزہ لے آﺅٹ پلان منسوخ کردیے
- امریکا نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی قرارداد ویٹو کردی
- وزیراعظم کا اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے ملک گیر مہم تیز کرنے کا حکم
- جی-7 وزرائے خارجہ کا اجلاس؛ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ
- پنڈی اسٹیڈیم میں بارش؛ بھارت نے چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی پر سوال اٹھادیا
- اس سال ہم بھی حج کی نگرانی کرینگے شکایت ملی تو حکام کو نہیں چھوڑیں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ
- بشریٰ بی بی کو کھانے میں ٹائلٹ کلینر ملا کر دیا گیا، عمران خان
- عمران خان اور بشریٰ بی بی کی درخواستیں منظور، طبی معائنہ کروانے کا حکم
- حملے میں کوئی نقصان نہیں ہوا، تمام ڈرونز مار گرائے؛ ایران
- 25 برس مکمل، علیم ڈار دنیائے کرکٹ کے پہلے امپائر بن گئے
- قومی اسمبلی: جمشید دستی اور اقبال خان کے ایوان میں داخلے پر پابندی
- کراچی میں غیرملکیوں کی گاڑی پر حملہ، خودکش بمبار کی شناخت
- مولانا فضل الرحمٰن کو احتجاج کرنا ہے تو کے پی میں کریں ، بلاول بھٹو زرداری
- کراٹے کمبیٹ 45؛ شاہ زیب رند نے ’’بھارتی کپتان‘‘ کو تھپڑ دے مارا
- بلوچستان کابینہ کے 14 وزراء نے حلف اٹھا لیا
- کینیا؛ ہیلی کاپٹر حادثے میں آرمی چیف سمیت 10 افسران ہلاک
- قومی و صوبائی اسمبلی کی 21 نشستوں کیلیے ضمنی انتخابات21 اپریل کو ہوں گے
- انٹرنیٹ بندش کا اتنا نقصان نہیں ہوتا مگر واویلا مچا دیا جاتا ہے، وزیر مملکت
تاج محل مندر نہیں تاریخی اسلامی عمارت ہے، بھارتی حکام نے تسلیم کرلیا
آگرہ: بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ نے پہلی بار تسلیم کیا ہے کہ تاج محل مندر نہیں بلکہ مقبرہ ہے۔
انتہا پسند ہندوؤں نے بھارت سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کا عزم کیا ہے اور اس کام میں بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے تیزی آگئی ہے۔ بھارتی ہندو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخی عمارات کے پیچھے بھی پڑے ہیں اور ان پر قبضہ کرنے پر تلے ہیں۔ اس سلسلے میں بابری مسجد کو شہید کرنے کے بعد تاج محل کے مندر ہونے کا شوشا چھوڑا گیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق آگرہ کی عدالت میں تاج محل کو مندر قرار دینے کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ محکمہ آثار قدیمہ کے حکام نے پہلی مرتبہ عدالت کو بتایا کہ تاج محل مندر نہیں بلکہ مقبرہ ہے جسے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز بیگم کی یاد میں تعمیر کیا تھا۔ بھارتی آثار قدیمہ کے حکام نے اس بات کے ثبوت میں 1920ء میں جاری کردہ سرکاری نوٹی فکیشن بھی پیش کیا جس میں تاج محل کی حفاظت کو یقین بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔
سروے حکام نے درخواست گزاروں پر بھی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ تاج محل اسلامی عمارت ہے جب کہ درخواست گزاروں کا تعلق دیگر مذاہب سے ہے۔ عدالت نے سماعت 11 ستمبر تک ملتوی کردی ہے۔ سروے حکام کا کہنا ہے کہ تاج محل دنیا کا ساتواں عجوبہ شمار کیا جاتا ہے۔ 1904ء میں انگریزی دور سے اسے ایسی یادگار اور تاریخی ورثہ قرار دیا گیا ہے جسکی حفاظت کی جانی چاہئے۔
بھارت کی مرکزی وزارت ثقافت نے نومبر 2015 ءمیں پہلے ہی لوک سبھا میں وضاحت کی تھی کہ تاج محل کے مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ یاد رہے کہ اپریل 2015 میں 6 وکلاء نے آگرہ کی عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا کہ تاج محل ہندوؤں کے بھگوان شیو کا مندر ہے لہذا یہ عمارت مذہبی مقاصد کے لیے ہندوﺅں کے حوالے کردی جائے۔
عدالت نے اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت ، مرکزی وزارت ثقافت ، ہوم سیکریٹری اور آرکیالوجیکل سروے سے جواب طلب کیا تھا جس پر سروے حکام نے اپنا جواب جمع کراتے ہوئے آگرہ کی مقامی عدالت کے حق سماعت کو بھی چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تاج محل سے وابستہ کسی بھی معاملہ کی سماعت مقامی کورٹ میں نہیں ہو سکتی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔