- اپوزیشن کو براڈ شیٹ کیس کی تحقیقات کے لئے افتخار چوہدری اور ملک قیوم چاہیے، فواد چوہدری
- خواجہ آصف کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، جیل بھیج دیا گیا
- لاہورمیں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو قانونی قرار دینے کی منظوری
- جنوبی افریقی کرکٹ ٹیم کوشکست کا ذائقہ چکھانے کے لیے پاکستانی کوچزنے سرجوڑلیے
- (ن) لیگ نے براڈ شیٹ تحقیقات کیلئے عظمت سعید کی تقرری مسترد کردی
- جنوبی افریقا کے خلاف ٹیسٹ سیریز؛ کمنٹری پینل میں معروف کمنٹیٹرزشامل
- کار چوری میں ملوث 2 بہنیں گرفتار
- حکومت نے دو سال میں 5 ارب ڈالرز اور 4.5 ٹریلین روپے کے قرضے لیے
- افغان صوبے بغلان اور نیمروز میں طالبان کا حملہ، 8 سیکیورٹی اہلکار ہلاک
- یوٹیلٹی اسٹورزپرمختلف اشیا کی قیمتوں میں دوبارہ اضافہ
- ٹی ٹین لیگ کے لیے پاکستانی کرکٹرز کو خصوصی ویزے جاری
- سمندری فرش پر تحقیق کرنے والی خود کار کشتی تیار
- برقی انڈے دینے والا، حقیقت سے قریب تر روبوٹ کچھوا
- جسمانی کھنچاؤ والی ورزش بلڈ پریشر کم کرنے میں مددگار
- باچا خان ائیرپورٹ سے کروڑوں روپے مالیت کی منشیات اسمگل کرنے کی کوشش ناکام
- منی لانڈرنگ کیس؛ حمزہ شہبازنے سپریم کورٹ سے اپنی درخواست ضمانت واپس لے لی
- ترکی سے غیرقانونی طورپرمقیم 40 پاکستانی شہری ملک بدر
- شنیرا اکرم کا ملازم کی بے عزتی کرنے والی خواتین کوانگریزی کا چیلنج
- برطانیہ، جنوبی افریقا سمیت دیگرممالک سے آنے والے فضائی عملے کیلئے نئی ایڈوائزری جاری
- علومِ کائنات اور مطالعہ
تاج محل مندر نہیں تاریخی اسلامی عمارت ہے، بھارتی حکام نے تسلیم کرلیا

آگرہ کی عدالت نے تاج محل کو مندر قرار دینے کی درخواست کی سماعت 11 ستمبر تک ملتوی کردی ۔ فوٹو: فائل
آگرہ: بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ نے پہلی بار تسلیم کیا ہے کہ تاج محل مندر نہیں بلکہ مقبرہ ہے۔
انتہا پسند ہندوؤں نے بھارت سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کا عزم کیا ہے اور اس کام میں بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے تیزی آگئی ہے۔ بھارتی ہندو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخی عمارات کے پیچھے بھی پڑے ہیں اور ان پر قبضہ کرنے پر تلے ہیں۔ اس سلسلے میں بابری مسجد کو شہید کرنے کے بعد تاج محل کے مندر ہونے کا شوشا چھوڑا گیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق آگرہ کی عدالت میں تاج محل کو مندر قرار دینے کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ محکمہ آثار قدیمہ کے حکام نے پہلی مرتبہ عدالت کو بتایا کہ تاج محل مندر نہیں بلکہ مقبرہ ہے جسے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز بیگم کی یاد میں تعمیر کیا تھا۔ بھارتی آثار قدیمہ کے حکام نے اس بات کے ثبوت میں 1920ء میں جاری کردہ سرکاری نوٹی فکیشن بھی پیش کیا جس میں تاج محل کی حفاظت کو یقین بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔
سروے حکام نے درخواست گزاروں پر بھی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ تاج محل اسلامی عمارت ہے جب کہ درخواست گزاروں کا تعلق دیگر مذاہب سے ہے۔ عدالت نے سماعت 11 ستمبر تک ملتوی کردی ہے۔ سروے حکام کا کہنا ہے کہ تاج محل دنیا کا ساتواں عجوبہ شمار کیا جاتا ہے۔ 1904ء میں انگریزی دور سے اسے ایسی یادگار اور تاریخی ورثہ قرار دیا گیا ہے جسکی حفاظت کی جانی چاہئے۔
بھارت کی مرکزی وزارت ثقافت نے نومبر 2015 ءمیں پہلے ہی لوک سبھا میں وضاحت کی تھی کہ تاج محل کے مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ یاد رہے کہ اپریل 2015 میں 6 وکلاء نے آگرہ کی عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا کہ تاج محل ہندوؤں کے بھگوان شیو کا مندر ہے لہذا یہ عمارت مذہبی مقاصد کے لیے ہندوﺅں کے حوالے کردی جائے۔
عدالت نے اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت ، مرکزی وزارت ثقافت ، ہوم سیکریٹری اور آرکیالوجیکل سروے سے جواب طلب کیا تھا جس پر سروے حکام نے اپنا جواب جمع کراتے ہوئے آگرہ کی مقامی عدالت کے حق سماعت کو بھی چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تاج محل سے وابستہ کسی بھی معاملہ کی سماعت مقامی کورٹ میں نہیں ہو سکتی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔