اردو شاعری کے مستقبل کے امین احمد فراز

شاہد سردار  اتوار 27 اگست 2017

یہ ایک مسلم امر ہے کہ ہر شے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے اور اسے اسی کے پاس واپس لوٹ جانا ہے۔ احمد فراز بلا شبہ شاعری کا ایک عہد تھے جو 25 اگست 2008 کو لحد میں اترگئے۔ کیا کسی کہنے والے نے کیا خوب کہا تھا کہ شاعر، ادیب اور فنکار کبھی نہیں مرتے وہ اپنے فن اور فن پاروں کے حوالے سے رہتی دنیا تک زندہ رہتے ہیں۔ ویسے موت کسی چیز کا اختتام نہیں ایک نئی داستان کا آغاز ہوتا ہے اور پھر تخلیق کار یا سخن حد تو اپنا وجود اپنی تخلیق میں پروتا رہتا ہے۔

احمد فراز بھی تمام عمر شعروں، غزلوں، نظموں اور مصرعوں میں اپنا وجود پروتے رہے۔ جس دن عمر کی پونجی اختتام کو پہنچی اس دن وہ ہماری اور تمام کی تمام ادبی محفلوں کی نظروں سے اوجھل ہوگئے لیکن اب بھی ’’شہر سخن آراستہ ہے‘‘ اور اس میں اس کے تخلیق کار کا وجود اپنے اشعار میں سانس لیتا محسوس ہوتا ہے۔ خود وہ بھی یقین سے کہہ گئے ہیں کہ:

میں مر مٹا تو وہ سمجھا کہ یہ انتہا تھی مری
اسے خبر ہی نہ تھی خاک کیمیا تھی مری

میں چپ ہوا تو وہ سمجھا کہ بات ختم ہوئی
پھر اس کے بعد تو آواز جا بجا تھی مری

احمد فراز بلاشبہ پاکستان کے ان معدودے چند شاعروں میں سے ایک تھے جنھیں اردو شاعری کے مستقبل کا امین کہا جائے تو بے جانہ ہوگا اور ان کے کلام فن کے حوالے سے بھی یہ بات نہایت اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان کا فن مسلسل ارتکا پذیر رہے گا ۔اس لیے بھی کہ احمد فراز نے استادوں کی روایت کو شاندار انداز میں جاری و ساری رکھا جس کے ثمرات آنے والی نسلوں تک جاری رہیںگے۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ انھوں نے کلاسیکل روایت کی شاعری کو نئے آہنگ کے ساتھ بیان کیا، وہ بنیادی طور پرکلاسیکل شاعر تھے جنھوں نے اپنے کلام کے ذریعے شاعری میں نئی خوبصورت عمارتیں تعمیر کیں جو ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیںگی۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ گزشتہ 50 برسوں میں احمد فراز واحد شاعر تھے جن کی مقبولیت کا گراف کبھی نیچے نہیں آیا۔ ان کو گو نوجوانوں کا شاعر کہا جاتا تھا مگر ہماری دانست میں وہ تمام عمر کے لوگوں کے پسندیدہ شاعر تھے ان کی شاعری میں رومانوی رنگ ہمیشہ بڑا اور نمایاں رہا، انھوں نے ایک عہد کو جنم دیا اور وہ عہد ان کے ساتھ ہی واپس چلا گیا۔ وہ برصغیر کے ان چند نامور شاعروں میں سے ایک تھے جنھوں نے تمام عمر بہترین کلام لکھا اور ہر کلام پر پہلے سے زیادہ داد اور شہرت سمیٹی۔ یہ بھی غلط نہیں کہ شہرت اور دولت احمد فراز کے گھر کی لونڈی تھی۔

انھوں نے شاعروں کو خوش لباسی سکھائی ان کی وفات کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے کسی آنگن میں شاعری کی فصل اگی اور اب وہاں موت ہوگئی ہو۔ لیکن احمد فراز پھر بھی ہمارے اور آنے والی نسلوں کے ساتھ اپنی خوبصورت اور انقلابی شاعری کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہیںگے۔احمد فراز ایک اصول پسند اور بے باک انسان تھے چاپلوسی، خوشامد کو انھوں نے کبھی پسند نہ کیا اور نہ ہی برے سے برے وقت میں اس کا استعمال کیا ہمیشہ حق سچ کہا، لکھا اور بولا۔

جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں انھوں نے سرکاری سطح پر ملنے والا ستارہ امتیاز واپس کردیا تھا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی نے (اسی حکومت میں شامل وزارت اطلاعات کے ایک ماتحت ادارے) نیشنل سینٹر میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز نامور شاعر احمد فراز سے ایک روز تقاضا کیا کہ وہ ان کے ایک شعری مجموعے کا پیش لفظ لکھ دیں۔ احمد فراز کی بے باکی، سرکشی اور حق گوئی نے یہاں بھی انھیں چین سے بیٹھنے نہ دیا فوراً اپنے باس کو جواب دیا میں تو آپ کو شاعر ہی نہیں مانتا پھر آپ کے شعری مجموعے کی کتاب کا پیش لفظ کیسے لکھ سکتا ہوں؟

باغباں ڈال رہا ہے گل و گلزار پر خاک
اب بھی میں چپ رہوں تو مجھ پر مرے اشعار پہ خاک

احمد فراز نے صرف گل وبلبل اور محبوب کی قصیدہ خوانی یا اس کی بے وفائی کے تذکرے ہی اپنے اشعار میں نہیں کیے۔ معاشرتی جبر واستبداد کے خلاف بھی انھوں نے بہت لکھا اورگرفتار ہوگئے، زندانوں میں ڈالے گئے لیکن سچ اور حق کہنے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ 1977 میں جب مارشل لاء لگا تو اس کے کچھ عرصے بعد احمد فراز نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’’محاصرہ‘‘ لکھ ڈالی اور پھر گرفتار کرلیے گئے۔ رہائی کے بعد وہ بیرون ملک چلے گئے اور مزاحمتی شاعری کرتے رہے۔

انسان خطا کا پتلا کہلاتا ہے، احمد فراز کو بھی اپنی بشری لغزشوں کا ادراک تھا اسی لیے انھوں نے کہاکہ:

معاف کر مری ہستی خدائے عز وجل
کہ میرے ہاتھ میں ساغر ہے میرے لب پہ غزل

احمد فراز نے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لی لیکن ان کے حاسدین نے انھیں اب تک معاف نہیں کیا۔ احمد فراز در اصل علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کی روایات کے شاعر تھے جو مذہب کے سوداگروں کے خلاف تھے لیکن مذہب بیزار ہرگز نہیں تھے، اسی لیے وہ ترقی پسند ذوالفقار علی بھٹوکے بھی قیدی بنے اور اسلام پسند جنرل ضیا الحق کے بھی قیدی رہے ان پر فتوے کل بھی لگے اور آج بھی لگ رہے ہیں، لیکن نہ کل یہ فتوے قوم کا کچھ بھلا کرسکے اور نہ آج کرسکیں گے۔

بس فرق صرف یہ ہوا کہ کل سرکشوں کو گرفتار کیا جاتا تھا آج سرکشوں کو غائب کردیا جاتا ہے لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سرکشوں کے خلاف غیر قانونی کارروائیاں انھیں ہیرو اور ریاستی اداروں کو ولن بنادیتی ہیں۔ فرق بڑا سادہ ہے احمد فراز تمام تر ملامتوں، تہمتوں اور الزامات کے باوجود کل بھی ہیرو تھے، آج بھی ہیرو ہیں اور رہتی دنیا تک اسی مقام پر فائز رہیںگے۔

کون نہیں جانتا کہ کچھ شعر اور مصرعے بے پناہ خوبصورت نہیں، خیال اور معنی کے حوالے سے دل کو یوں بھاتے ہیں کہ پورا وجود عش عش کر اٹھتا ہے تن پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، من نہال ہوجاتا ہے اور روح جھوم اٹھتی ہے لیکن احمد فراز کی تمام کی تمام شاعری مندرجہ بالا کیفیات سے لبالب بھری نظر آتی ہے اور اسی لیے احمد فراز کی شاعری اردو ادب میں ایک نئی اور انفرادی آواز کی حیثیت رکھتی ہے، ان کے وجودان اور جمالیاتی شعور کی ایک خاص شخصیت رہی۔ ان کی شاعری کو صرف کلاسیکی یا روایتی نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ دور حاضر کے لطیف ذہنی رد عمل کا سچا نمونہ کہا جاسکتا ہے۔

ہمارے ملک کا یہ ہمیشہ سے المیہ رہا ہے کہ یہاں شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کا انتقال بڑی خاموشی سے ہوجاتا ہے۔ درجنوں ٹی وی چینلز اور اخبارات کے اس ملک میں اہل قلم کے ساتھ جو ظلم ہوا وہ انتہائی افسوسناک کے ساتھ شرمناک بھی کہاجاسکتا ہے کیونکہ بڑے بڑے شعرا، ادیبوں کو اتنی جلدی فراموش کردینا ہماری عریض ہی ہے اور ایسا صرف اس لیے ہے کہ ہمارے ہاں بڑی دھوم دھام سے صرف سیاسی برسیاں منانے کا ہی رجحان اور رواج ہے اور صرف صاحب حیثیت افراد کی تاریخ پیدائش سے موت تک کے سفر کی مانیٹرنگ ہوتی ہے اور بڑے اور عظیم شاعر، ادیب، فنکار یا تخلیق کار کو کوئی نہیں جانتا سمجھتا۔

یہ وہ ملک ہے جہاں حبیب جالب، فیض احمد فیض، احمد فراز کو تھانے اور جیلوں میں گھسیٹا گیا (احمد فراز سے سرکاری مکان خالی کروانے کے لیے ان کا سامان زبردستی اٹھاکر سڑک پر پھینک دیاگیا) یہاں سعادت حسن منٹو اور ساغر صدیقی کا جیتے جی جو حال ہوا وہ بھلا کس سے ڈھکا چھپا۔ اخبارات کے پاس اتنی جگہ کہاں کہ ان کے بارے میں کچھ چھاپیں اور ریٹنگ اور بریکنگ نیوز میں پھنسے چینلز کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ ان کے تذکرے کریں جس ملک کے وزیراعظم منیر نیازی جیسے شاعر کو نہ جانیں وہاں علم و ادب کی کیا وقعت اور وہاں شاعروں، دانشوروں کی کیا اوقات؟

اس وقت بھی فن و ادب کے کئی ستارے محرومیوں اور بے بسیوں اور لاچاریوں کے سیاہ بادلوں کی لپیٹ میں آکر خاک بسر ہونے کو ہیں لیکن اس سے کیا فرق پڑنے والا ہے اس ملک اور معاشرے کو جہاں پہلے ہی سے سیکڑوں با کمال لوگوں پر مٹی ڈال کر کسی نے مڑ کر بھی نہ دیکھا ہو اس معاشرے سے کیسا شکوہ کیسی شکایت؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔