کراچی کی سیاست کے پیچ و خم

عثمان دموہی  اتوار 27 اگست 2017
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

کراچی کی سیاست میں 22 اگست 2016 کا دن اب تاریخی اہمیت حاصل کرچکا ہے۔ اس دن کراچی میں جاری جارحانہ اور استحصالی سیاست کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ بھارتی ’’را‘‘ اس شہر میں ایک عرصے سے جو تباہی اور بربادی کا کھیل ،کھیل رہی تھی اسے مستقل لگام لگا دی گئی تھی۔ اسی دن ایم کیو ایم کو پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والے کی مطلق العنانی سے بھی پاک کردیا گیا تھا۔ اسی دن وطن پرستی کی فکر سے تجدید عہد کرکے ایم کیو ایم پاکستان نے جنم لیا تھا۔

یہ دن ایم کیو ایم پاکستان کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل ہونے کی وجہ سے اسے ہر سال یوم نجات کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے چنانچہ اس دن کی مناسبت سے 22 اگست کو ایم کیو ایم پاکستان نے ایک کل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد تمام سیاسی جماعتوں میں اتحاد و یگانگت کو فروغ دینا اورکراچی میں امن و امان کی صورتحال کو مضبوط بنانا تھا ، بدقسمتی سے یہ کانفرنس کامیاب نہ ہوسکی۔

ایم کیو ایم پاکستان کے مطابق اگرچہ تمام سیاسی جماعتوں نے اس میں شرکت کی یقین دہانی کرائی مگر عین وقت پر انھوں نے اس میں شرکت سے انکارکردیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان ابھی تک اپنی نئی ساکھ کو بحال نہیں کراسکی ہے چونکہ اس کے بانی کے حکم سے ایک عرصے تک کراچی اور حیدرآباد میں کچھ لوگ دہشت گردی کا ارتکاب کرتے رہے جس سے جان و مال کا بہت نقصان ہوا تھا۔ چنانچہ ایم کیو ایم پاکستان کو اس کی پاداش میں اپنی امن پسندی کا ثبوت دینا باقی ہے۔

شرکت نہ کرنے والی سیاسی پارٹیوں کے بارے میں فاروق ستار کا یہ کہنا کہ انھوں نے دراصل 22 اگست کے الطاف حسین والے ایجنڈے پر تصدیق کی مہر ثبت کردی ہے اور ان کے 23 اگست کے اقدام کو مسترد کردیا ہے تو ایسا نہیں ہے۔ انھیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اگر وہ اپنے نئے ایجنڈے پر سختی سے قائم رہے اور عوامی مسائل کے حل کو اولیت دیتے رہے تو یہی جماعتیں خود ان کے پاس آکر ان سے آیندہ الیکشن میں انتخابی اتحاد کرنے کی دعوت دیں گی۔ کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان کراچی کی سیاست میں مسلمہ اہمیت رکھتی ہے۔

ایم کیو ایم کی اے پی سی میں دیگر سیاسی پارٹیوں کے برعکس پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ نے ضرور شرکت کی خواہش ظاہر کی تھی۔ یہ دونوں سیاسی پارٹیاں ایک وقت میں ایم کیو ایم سے جڑی ہوئی تھیں مگر اب علیحدہ ہوکر اپنے اپنے علیحدہ ایجنڈے رکھتی ہیں تاہم ان کی ایک ساتھ مل کر بیٹھنے کی خواہش کراچی کی سیاست کے لیے انتہائی نیک فال ہے۔ بعض تجزیہ کار ان تینوں دھڑوں کو یکجا ہونے پر زور دے رہے ہیں کیونکہ وہ رکاوٹ جس کی وجہ سے یہ علیحدہ ہوئے تھے اب باقی نہیں رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا اتحاد ایک اہم واقعہ ہوگا۔ کیونکہ ان تینوں کو کراچی کی سیاست خصوصاً مہاجر سیاست میں اہم مقام حاصل ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر یہ تینوں دھڑے یکجا نہ ہوئے تو پھر مہاجروں کے ووٹ کو تقسیم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا پھر مہاجر سیاست کو پہلے جیسی برتری حاصل نہیں رہے گی ابھی تک تو یہ ہوتا آیا ہے کہ مرکز اور صوبے میں کوئی بھی حکومت ایم کیو ایم کی شمولیت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی تھی مگر انتشار کی صورت میں یہ فوقیت باقی نہیں رہے گی۔

دراصل ان کے اتحاد کی راہ میں کئی مسائل حائل ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی پہلے ہی واضح اعلان کرچکی ہے کہ وہ خود کو صرف ایک طبقے تک محدود رکھنا نہیں چاہتی۔ پاک سرزمین پارٹی کے قائد مصطفیٰ کمال بار بار اس بات کو دہراتے رہتے ہیں کہ وہ ملک کے تمام طبقات کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور اسی لیے ان کی پارٹی کے تمام ہی صوبوں کے لوگ ممبر ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مہاجر اپنی ایک پارٹی یعنی ایم کیو ایم بناکر اس سے کیا حاصل کرسکے ہیں۔ اس کے ذریعے تو صرف ایک شخص نے اپنا الّو سیدھا کیا اور مہاجروں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو پایا اس لیے مہاجروں کو چاہیے کہ وہ تمام سیاسی پارٹیوں کو آزمائیں اور خود کو ایک پارٹی تک محدود کرکے دوسرے طبقات کا خود کو نشانہ نہ بنوائیں۔ ماضی میں بدقسمتی سے مہاجروں کے مسائل کو حل کرنے کی آڑ میں مہاجروں کے ساتھ بھونڈا مذاق کیا گیا۔

مہاجر غلطیوں کے وہ خود ذمے دار ہیں وہ ہر الیکشن میں ایک ہی شخص کو اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے اوپر مسلط کرتے رہے اور اس نے ان کی شناخت تک ختم کرکے ان پر ’’را‘‘ کے ایجنٹ کا ٹھپہ لگا دیا۔ وہ 1978 سے لے کر 22 اگست 2016 تک ایک ہی رو میں بہتے چلے جا رہے تھے اور وہ اپنی شناخت کو دھندلانے والے کو کیوں نہ سمجھ سکے کہ وہ ان سے کیا چاہتا تھا اور انھیں کہاں لے جانا چاہتا تھا؟ وہ تو بھلا ہو مصطفیٰ کمال اور ان کے رفقا کا کہ وہ مہاجروں کے مسیحا بن کر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان کارزار میں آئے اور مہاجروں کو مکمل تباہ ہونے سے پہلے ہی بچا لیا۔

بانی ایم کیو ایم کے خلاف سب سے پہلے مصطفی ٰ کمال نے ہی علم بغاوت بلند کیا تھا پھر 22 اگست 2016 کے دن فاروق ستار اور ان کے رفقا بھی پاکستان مردہ باد کے نعرے کو برداشت نہ کرسکے اور 23 اگست کو کراچی میں تیس سال سے قائم شخصی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ فاروق ستار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے کارکنوں اور کراچی میں موجود ذمے داروں نے سابق ایم کیو ایم قائد کی جانب سے اٹھایا جانے والا انتہائی قدم جو پاکستان کی سالمیت کے خلاف تھا اس کی برملا نفی کردی اور یہ وہ بولڈ اقدام تھا کہ ایسا پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے کارکنوں اور عہدیداروں نے اس سے پہلے اپنے قائد کے خلاف نہیں کیا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مصطفیٰ کمال اور ان کے رفقا سے لے کر فاروق ستار اور ان کے رفقا نے جو قدم اٹھایا وہ حیرت انگیز اور جرأت مندی کا جیتا جاگتا شاہکار تھا۔ انھوں نے ثابت کردیا کہ وطن عزیز کی حرمت، سالمیت اور بقا سے بڑھ کر کوئی چیز یا شخص نہیں ہوسکتا۔

مہاجروں نے بے شک قیام پاکستان میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے ہی اپنی محنت مشقت اور ذہانت سے کراچی میں صنعت و حرفت کا وہ جال بچھایا کہ جس کے ثمرات سے پورا ملک آج بھی مستفید ہو رہا ہے مگر افسوس کہ ایک مہاجر نے ہی اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا روز روز کی ہڑتالوں، بھتوں اور خون کی ہولی نے کراچی کی ترقی کو پستی میں تبدیل کردیا۔ فیکٹریاں اور کارخانے بند ہوگئے کاروبار بھی ٹھپ ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں بے روزگاری بڑھی چوریوں اور ڈکیتیوں میں اضافہ ہوا اور مہاجر عورتیں اور بچے سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے۔

افسوس اس بات پر ہے کہ 1986 میں ایم کیو ایم کے قیام کے جو مقاصد متعین کیے گئے تھے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ نہ مہاجروں کے مسائل حل ہوئے اور نہ ہی کراچی کے مسائل کو حل کیا گیا۔ ملازمتوں میں مہاجروں کا کوٹہ پہلے بھی دو فیصد تھا اب بھی وہی ہے گوکہ ایم کیو ایم کئی حکومتوں کا حصہ رہ چکی ہے مگر وہ کوٹے کو دو سے تین فیصد بھی نہ کراسکی۔ جہاں تک کراچی کے مسائل کا تعلق ہے وہ اب بھی ویسے کے ویسے ہیں۔ صرف کچرا، بجلی اور فراہمی و نکاسی آب ہی یہاں کے اصل مسائل نہیں ہیں چوریاں، ڈکیتیاں، اسٹریٹ کرائمز اور تخریب کاری جیسے مسائل سے بھی یہ شہر نبرد آزما ہے۔

اب امن و امان کے معاملے میں کافی بہتری آچکی ہے۔ اب پہلے کی طرح روزانہ بیس پچیس لوگ لقمہ اجل نہیں بن رہے ہیں اب یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ قاتل مہاجر اور مقتول مہاجر کا کھیل کس سازش کے تحت اس شہر میں کھیلا جا رہا تھا۔ لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کیا جاتا تھا کہ قتل و غارت گری میں حکومتی کارندے ملوث ہیں اب انھی حکومتی کارندوں کی وجہ سے شہر میں امن قائم ہوا ہے انھوں نے ہی غیر ملکی اشاروں پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنیوالوں کا قلع قمع کیا ہے۔ کراچی کے عوام گزشتہ تیس سالوں کی نفرت انگیز سیاست میں بہت کچھ کھوچکے ہیں اور اب وہ مزید کچھ کھونا نہیں چاہتے۔

حقیقت یہ ہے کہ وہ پارٹی کی کارکردگی سے پہلے ہی مایوس چلے آرہے تھے اور پھر جب 22 اگست کا سانحہ پیش آیا تو وہ کھل کر سامنے آگئے اور فاروق ستار کی سربراہی میں یکجا ہوگئے۔ انھی وجوہات کی بنا پر وہ مصطفیٰ کمال کی نفرت کے خلاف مہم جوئی سے پہلے ہی متفق ہوچکے تھے۔ کراچی کے عوام نے اب فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ نفرت کی سیاست، لسانیت اور دہشتگردی کو اپنے شہر میں کسی طرح بھی قبول نہیں کریں گے اور اب وہ اپنے مسائل کا سنجیدہ حل چاہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔