ورنہ در مجلس رنداں خبرے نیست کہ نیست

سعد اللہ جان برق  اتوار 27 اگست 2017
barq@email.com

[email protected]

مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتد راز
ورنہ درمجلس رنداں خبرے نیست کہ نیست

ترجمہ اس کا یہ ہے کہ’’ یہ مصلحت نہیں ہے کہ راز درون پردہ فاش ہو جائے

ورنہ ایسی کونسی خبر ہے جو ’’رندوں‘‘ سے چھپی ہوئی ہے‘‘ اور چونکہ ہم بھی ’’مجلس رنداں ‘‘ سے تھوڑا بہت تعلق رکھتے ہیں درمیان میں نہ سہی جوتوں کے قریب آخری صف میں تو ہیں اس لیے اچھی طرح پتہ ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے کس لیے ہو رہا ہے اور کون کر رہا ہے باقی تو ساری کٹھ پتلیاں ہیں اصل تاریں اس کی انگلیوں میں ہیں جو پردے کے پیچھے براجمان ہے لیکن اتنا چھپا ہوا بھی نہیں ہے کہ کٹھ پتلیوں کی حرکات سے اس کا پتہ چل جاتا ہے کہ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے یعنی

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

جو کردار ہیں وہ تو ہی کر یں گے جو ان کے لیے اسکرپٹ میں لکھا گیا ہے۔ اگر نہیں بھی لکھا گیا ہے تو بھی ہر کردار کو پتہ ہوتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے ۔ وہ تو اپنے کردار کی ڈیمانڈ سے مجبور ہوتا ہے مثلاً ’’ولن‘‘ تو وہی کرے گا جو ولن ہمیشہ کرتا ہے اپنا گیٹ اپ اپنی آواز اپنا لہجہ وہی رکھے گا جو ولن پر سوٹ کرتے ہیں اب ولن اگر وہ ڈائیلاگ بولے بھی جو ہیرو کے لیے لکھے گئے ہیں تو بالکل بھی سوٹ نہیں کریں گے نہ ہی ہیرو ولن کی حرکات کر سکتا ہے چاہے کتنا ہی بد صورت کیوں نہ ہو ۔

خوشحال خان خٹک نے کہا ہے کہ

شیخ دے مونز روژہ کا زۂ بہ ڈکے پیالئی اخلمہ
ہر سٹرے پیدا دے خپل خپل کار لرہ کنہ

یعنی شیخ اپنا نماز روزہ کرے اور میں بھرے ہوئے پیالے پیؤں گا کیونکہ ہر کوئی اپنے اپنے کام کے لیے پیدا ہوا ہے۔

کہتے ہیں کہ جب ونسٹن چرچل اور لارڈ ایٹلی کے درمیان الیکشن تھا تو ونسٹن چرچل کی بیوی نے لارڈ ایٹلی کو ووٹ دیا تھا اور چرچل سے صاف کہا تھا کہ تم زمانہ جنگ کے لیے مناسب تھے اور اب زمانہ امن کے لیے بہتر وزیر اعظم لارڈ ایٹلی ہیں۔ایسے میں ہمارا خیال ہے جو یقین سے کسی طرح کم نہیں ہے کہ شاید بظاہر ہیرو نظر آنے والے ’’ہیرو‘‘ بن ہی نہ پائیں کہ ان کے لیے ولن کا کردار لکھا گیا تھا اور وہ اسے ادا کرچکے ہیں اور ایک ہی فلم میں ولن کو ہیرو نہیں بنایا جاسکتاہاں کسی دوسری فلم میں ہو سکتا ہے کہ امریش پوری کو ڈائریکٹر ہیرو کا کردار تفویض کرے ۔ہماری اصل مجبوری تو وہی بزدلی اور کم تر درجے کے پشتون ہونے کی ہے لیکن اسے ’’مجلی رنداں‘‘ کی اصلاح میں چھپا رہے ہیں ورنہ کیا یہ سب کچھ پاکستان میں ’’کرپشن ‘‘ کا خاتمہ کرنے کے لیے ہو رہا ہے کوئی پاگل ہوگا جو یہ سمجھ رہا ہے یا سمجھا جا رہا ہے کرپشن کوئی گملے کا پودا نہیں کہ اٹھا کر گملے سمیت ملیا میٹ کر دیا کرپشن توامبربیل ہے خون کا کینسر ہے شوگر کی بیماری ہے گردوں کی خرابی ہے کالا یرقان ہے جس کے لیے ایک جگہ ’’فصد‘‘ لگانے کے بجائے جسم کا سارا خون بھی بدلا جائے تو بھی صحت یابی کا امکان نہیں جب کہ آپریشن تھیٹر کے سارے اوزار اور عملہ بھی جراثیم بردار ہو آپریشن بھی کوئی اناڑی کر رہا ہو اور مریض کا کوئی والی وارث بھی نہ ہو لہذا سب جانتے ہیں کہ ہونے والا کچھ بھی نہیں ہے کم از کم وہ تو ہر گز ہونے والا نہیں ہے جس کی امید کی جا رہی ہے چند روز کی جذباتی ہلچل ہے شانت ہوجائے گی وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے

ہر بہار آئی وہی دشت نور دی ہوگی
پھر وہی ’’پاؤں‘‘ وہی ’’خارمغیلاں‘‘ ہوں گے

ویسے تو ہمیں سب پتہ ہے لیکن ’’مصلحت نیست‘‘ کہ از پردہ بروں افتد راز بلکہ حق تو یہ ہے کہ پتہ سب کو ہے لیکن یا تو کسی وجہ سے چھپا رہا ہے دانستہ انجان بن کر یہاں وہاں کی ہانک رہا ہے ورنہ سیدھی سی بات ہے کہ پانی دریا سے چلا نہر میں بہا نالے میں جا پڑا اور ادھر ادھر کے سارے ’’بند‘‘ ڈال کر سیدھا اس کھیت تک لے جا یا گیا جسے سیراب کرنا مقصود تھا اور یا کوئی بتانا نہیں چاہتا۔

سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں

ہم نے آپ کو ایک مرتبہ پشتو کی ایک کہاوت کے بارے میں بتایا تو تھا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ بارش ’’تیراہ‘‘ میں ہوئی اورگدھے خراب آباد کے بہہ کر ڈوب گئے وہ تو صرف کہاوت ہے اس لیے باقاعدہ تشریح ممکن نہیں تھی لیکن اگر ہم اپنا محققانہ انداز اختیار کریں تو ’’بارش‘‘ تیراہ پر بھی نہیں ہوئی بلکہ اس کے لیے سمندر سے بادل اٹھتے ہیں جو ’’سورج‘‘ کی تمازت سے پیدا ہوتے اور سمندر کے جس پانی سے بھاپ اٹھتی ہے وہ بھی دریاؤں، ندی نالوں اور مختلف راستوں سے سمندر تک آتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سمندر کے پاس پانی میں تیراہ کی کسی نالی یا خراب آباد کے کسی گٹٹر کا پانی بھی ہو۔ قابل اجمیری نے کیا زبردست بات کی ہے کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

کوئی بھی حادثہ یا واقعہ یا شخصیت اچانک زمین سے نہیں اگتی اور نہ ہی آسمان سے ٹپک پڑتی ہے بہت پہلے سے اس کے لیے لوازم جمع ہوتے ہیں یا کیے جاتے ہیں جیسے بچہ نو مہینے خاموشی سے ماں کے پیٹ میں پلتا ہے بڑھتا ہے اور پھر اچانک ایک دن نکل کر دنیا میں انٹری دے دیتا ہے اس لیے اس کہانی میں بلکہ ناٹک میں بھی جتنے کردار سامنے اسٹیج پر نظر آ رہے ہیں وہ اصل کردار ہیں ہی نہیں، اصل طاقت ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر کے ہاتھ میں ہوتی ہے یا اس کے ہاتھ میں جو پیچھے تار ہلا رہا ہوتا ہے ،،،،، رندوں‘‘ کو سب پتہ ہے لیکن ۔۔ع جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟ ہاں اتنا اشارہ دے سکتے کہ جس ماسٹر کے ہاتھ میں سارے تار ہیں وہ اس ملک میں نہیں ہے بلکہ امریکا میں بھی نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے بلکہ وہ ماسٹر کہیں بھی نہیں ہے لیکن ہر جگہ ہے بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔