چین اور روس اور ہمارا بم

عبدالقادر حسن  اتوار 27 اگست 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کل کے حریف آج کے حلیف کا محاورہ پاکستان کے موجودہ حالات میں بڑا فِٹ بیٹھ رہا ہے کیا زمانہ آگیا ہے کہ کل تک جن کی تباہی آپ کا اول نصب العین تھی آج وہی تباہ و برباد ہونے کے بعد آپ کی وکالت کر رہے ہیں اور دریائے آمو کے اس پار سے اب پاکستان کی حمایت میں صدائیں بلند ہو رہی ہیں شاید اسی کو کہتے ہیں کہ ’’بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے‘‘۔

بھلا ہو امریکا کے نئے صدر ٹرمپ کا جن کے منتخب ہونے کی بڑی وجہ روس کے ساتھ تعلقات کے الزامات ہیں مگر جب سے ٹرمپ نے پاکستان کو دھمکیاں دی ہیں اس پر ہماری حکومت کی جانب سے رد عمل میں تو کچھ تاخیر ہو گئی شاید اس کے لیے مناسب الفاظ کا چناؤ ہو رہا ہو گا کہ اپنے پرانے اتحادی کے بارے میں کس طرح کے الفاظ استعمال کیے جائیں تا کہ وہ بالکل ہی ناراض نہ ہو جائے اور اپنی بات بھی اس تک پہنچا دی جائے کہ امریکا ابھی بھی دنیا کی واحد سپر پاور ہے اور اس کا اثر و رسوخ بھی دنیا کی کسی بھی دوسری طاقت سے زیادہ ہی ہے اس لیے ہم نے مناسب الفاظ میں اس کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کا جواب دیا ہے لیکن روس جو کہ ایک بار طاقت کھو جانے کے بعد دوبارہ سنبھلنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے اس نے کہا ہے کہ پاکستان پر دباؤ اس خطے کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔

روس کی جانب سے یہ بیان شاید دنیا کے ان ممالک کے لیے تو غیر متوقع ہو جن کا اس خطے میں کوئی مفاد نہیں لیکن اس خطے میں مفاد کے حامل امریکا اور بھارت کے لیے یہ بیان بالکل بھی غیر متوقع نہیں کہ ان طاقتوں کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں آرہی ہیں اور پاکستان اس وقت صرف ان خطوط پر کام کر رہا ہے جو کہ مستقبل میں اس کے مفاد میں ہوں گے۔

امریکا کی جانب سے سخت لب و لہجہ بھی اس لیے ہی اختیار کیا گیا کہ اس کو یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ پاکستان ا س وقت صرف اپنے معاشی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور یہ منصوبہ بندی پاکستان کے دیرینہ دوست ملک چین کے تعاون کے ساتھ ہی ہو رہی ہے جس میں سب سے اہم منصوبہ اقتصادی راہداری کا ہے جو کہ چین کے ساتھ ساتھ اس خطے کے ان ممالک کے لیے بھی سود مند قرار دیا جا رہا جو کہ ماضی میں گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے اپنے طاقت گنوا بیٹھے تھے، اور یہ پاکستان ہی تھا جس نے روس کو دریائے آمو کے پار دھکیل دیا تھا۔ لیکن وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اور امریکا کے اتحاد کے ساتھ ماضی میں انجام پا جانے والی یہ تاریخ ساز جنگ جس کا اختتام سوویت یونین کے ٹکڑوں کی تقسیم پر ہوا تھا اور اس یونین سے کئی نئے ملکوں نے جنم لیا تھا اب وہی روس پاکستان کی حمایت میں بول رہا ہے اور شاید وہ امریکا کے ساتھ اپنا پرانا قرض چکانے کے موقع کی تلاش میں بھی ہے اور اس کے لیے تخت مشق ایک بار پھر پاکستان کی سر زمین ہی ہو گی، اور گرم پانیوں تک رسائی جو بزور بازو نہ کی جا سکی تھی اب نئے معاشی حالات میں ممکن ہونے جا رہی ہے، جو کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کے ساتھ اس کے حلیف ہندوستان کو منظور نہیں۔

وہ اس راستے کی رکاوٹ بننا چاہتے ہیں کیونکہ روس کو تو وہ پہلے ہی سبق سکھا چکے ہیں لیکن چین جیسا بڑا ملک ان کی دسترس سے باہر ہے اور چین کا دنیا میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ان کو کسی صورت میں منظور نہیں کہ چین نے دنیا بھر کی معیشت میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور اپنی مصنوعات کو دنیا بھر کو منڈیوں تک پہنچا کر بیشتر ممالک کی معیشتوں کو ڈانواں ڈول اور دباؤ کا شکار کر دیا ہے۔ امریکا بہادر جو کہ دنیا بھر کو کنٹرول کرنے کا دعویدار ہے اس کو یہ صورتحال پسند نہیں آ رہی اور وہ خاص طور پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو روک دینا چاہتا ہے۔

ہمارا حال تو اس پلاٹ کا ہے جو کہ ایسی جگہ واقع ہے جہاں سے چاروں جانب راستے نکلتے ہیں اور ہر کوئی اس میں سے اپنی پسند کا راستہ بنانا چاہتا ہے لیکن اس پلاٹ کے مالک کی مرضی کے بغیر۔ امریکا ایک طرف تو طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے مگر دوسری جانب ان کے خلاف کاروائیاں بھی تیز تر کی جا رہی ہیں جو کہ اس کی دوغلی پالیسی کی عکاس ہیں۔

دراصل امریکا افغانستان میں ایک ایسی جنگ میں پھنس چکا ہے جس میں سترہ سال گزار لینے کے بعد بھی ناکامی اس کا مقدر رہی ہے اور افغانوں نے اس کی بالادستی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس ناکامی کا ملبہ وہ اب نئے محاذ کی صورت میں پاکستان میں کاروائیاں کر کے ڈالنا چاہتا ہے۔ امریکا شاید یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان نے اس کی اس طرح مدد نہیں کی جیسے سوویت افغان جنگ میں کی تھی۔ لیکن اس وقت کے حالات و واقعات مختلف تھے اور اب حالات مختلف ہیں۔

اس خطے کے بسنے والوں کو اب اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ وہ دنیا بھر میں ایک ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر تو اپنے آپ کو منوا سکتے ہیں لیکن پاکستان کی مدد کے بغیر ان کی دنیا تک آسان رسائی مشکل ہے بلکہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے وہ چین ہو یا روس پاکستان اس کی مجبوری ہے اور دیوار چین جیسی طویل نئی شاہراہ کی پاکستان کی بندر گاہ تک تعمیر اس بات کی جانب اشارے کر رہی ہے کہ مستقبل میں اس خطے میں پاکستان کا کر دار کلیدی ہو گا جس سے انکار ممکن نہیں ہو گا۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی صف بندیاں جاری ہیں لیکن یہ صف بندیاں امریکا اور بھارت کو منظور نہیں اور وہ ان میں رکاوٹیں ڈالنے کو تیار ہیں۔

حکومت پاکستان نے امریکا کے دھمکی آمیز بیان کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ کے اس اہم معاملے میں پہلے روس اور چین کا دورہ کرنے کا اعلان کر کے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ تاریخ کا پہیہ الٹا گھومنے کو بھی تیار ہے اور افغانستان میں جاری امریکا کی جنگ کو پاکستان منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح کا جارحانہ رد عمل ہماری سلامتی کا ضامن بن سکتا ہے کہ ہمارے ساتھ اس خطے کی دو اہم طاقتیں چین اور روس کھڑی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا ایٹم بم بھی ہماری سلامتی کا ضامن ہے۔ اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہم ایٹمی طاقت کس وجہ سے بنے ہیں اور کس کے لیے ہم نے یہ ایٹم سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔