بینظیر قتل کیس 9 سال 7 ماہ بعد حتمی مرحلے میں داخل

قیصر شیرازی  اتوار 27 اگست 2017
کل سے ملزمان کے وکلا حتمی دلائل کا آغاز کریں گے۔ فوٹو: فائل

کل سے ملزمان کے وکلا حتمی دلائل کا آغاز کریں گے۔ فوٹو: فائل

راولپنڈی: سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں ایف آئی اے کے پراسیکیوٹرز نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے جس کے ساتھ یہ اہم ترین مقدمہ 9 سال 7 ماہ 27 روز بعد حتمی مرحلے میں داخل ہوگیا ہے اور عید قربان سے دو روز قبل جمعرات 31 اگست کو اس کا فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج محمد اصغر خان بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں۔ پراسیکیوٹرز چوہدری اظہر اور خواجہ امتیاز نے سرکار کی طرف سے حتمی دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ تمام ملزمان نے گھناؤنا جرم کرتے ہوئے بینظیر بھٹو سمیت 23 افراد کوشہید اور 72 کو زخمی کیا، انھیں سخت ترین سزائیں دی جائیں، بینظیر بھٹو کا قتل ایک منظم سازش تھی، گرفتار ملزمان نے بھی اقبالی بیانات میں سازش کی تصدیق کی ہے، بینظیر بھٹو کی باکس سیکیورٹی سی پی او سعود عزیز نے دانستہ ختم کرکے حملہ آوروں کو آسان ٹارگٹ فراہم کیا، کرائم سین دانستہ طور پر فوری دھو کر شواہد مٹائے گئے۔

پراسیکیوٹرز چوہدری اظہر اور خواجہ امتیاز نے مزید بتایا کہ باکس سیکیورٹی کے ذمے دار ایس پی اشفاق انور تھے جو بینظیر بھٹو کو صرف 13 منٹ میں فیض آباد سے لیاقت باغ تک لائے مگر جلسے کے دوران اسلام آباد کی حدود میں نواز شریف کے جلوس پر ن لیگ اور ق لیگ کے کارکنوں میں مسلح تصادم کے بعد باکس سیکیورٹی توڑتے ہوئے سی پی او نے ایس پی اشفاق انور کو نفری کیساتھ کورال اسلام آباد بھیج دیا، وہاں اسلام آباد پولیس پہلے سے ہی موجود تھی جس پر اشفاق انور کو وہاں سے صادق آباد بھیج دیا گیا جہاں ایس پی ایوب طاہر اور ایس پی جاوید موجود تھے، اگر سی پی او باکس سیکیورٹی نہ توڑتے تو یہ حادثہ نہ ہوتا، باکس سیکیورٹی توڑنے کی تصدیق اپنے بیانات اور جرح میں 3 ایس پی افسران اشفاق انور، طاہر ایوب اور جاوید خان نے کی ہے۔

ڈاکٹر مصدق نے بیان میں تصدیق کی ہے کہ سی پی او سعود عزیز نے جبری طور پر بینظیر بھٹو کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں ہونے دیا جبکہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا (سربراہ جے آئی ٹی پاناما کیس) نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ بینظٰر بھٹو کی لاش کا پوسٹ مارٹم پولیس کی آئینی و قانونی ذمے داری تھی جو پوری نہیں کی گئی۔

ڈاکٹروں کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر مصدق نے اپنے بیان میں تصدیق کی ہے کہ سی پی او سے انھوں نے تین بار پوسٹ مارٹم کرنے کی اجازت مانگی، تیسری بار انھوں نے سخت ترین جملے کہتے ہوئے روک دیا جبکہ گواہان نے کرائم سین بھی جبری دھونے کے بیانات دیے ہیں، کرائم سین دھونے کے تیسرے دن جے آئی ٹی نے وہاں سے پستول کا خول برآمد کیا، فارنسک رپورٹ میں اس کی تصدیق ہوگئی کہ یہ وہی خول ہے جس پستول سے بینظیر بھٹو پر فائرنگ کی گئی تھی۔

علاوہ ازیں سرکاری دلائل میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ نے جرم شواہد کیساتھ ثابت کردیا ہے اور ملزمان، اس وقت کے سی پی او سعود عزیز، ایس پی خرم شہزاد، اعتزاز شاہ، شیر زمان، رفاقت، حسنین، عبدالرشید کو سخت ترین سزائیں دینے کی سفارش کی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔