ورلڈ الیون کی میزبانی؛ موجودہ ملکی صورت حال میں مشکل فیصلہ

عباس رضا  اتوار 27 اگست 2017
موجودہ صورتحال میں پی سی بی اور سکیورٹی اداروں کو کم وقت میں بہترین انتظامات کا چیلنج درپش ہے۔ فوٹو : فائل

موجودہ صورتحال میں پی سی بی اور سکیورٹی اداروں کو کم وقت میں بہترین انتظامات کا چیلنج درپش ہے۔ فوٹو : فائل

مارچ 2009میں سری لنکن ٹیم پر حملہ نہ صرف پاکستان کرکٹ بلکہ تمام کھیلوں کے لیے ایک سیاہ دن تھا، مہمان ٹیم کو صدر مملکت کے برابر سکیورٹی فراہم کرنے کے دعویداروں نے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کا موقع دے دیا۔

اس سانحے نے ساکھ پر کاری ضرب لگائی اور ملک پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوگئے، پاک فوج کی بے مثال قربانیوں کی بدولت ملک میں سکیورٹی صورتحال میں بہتری آنے کے بعد کئی سپورٹس فیڈریشنز کو ملک میں انٹرنیشنل کھیلوں کی بحالی کے لیے قدم اٹھانے کا موقع ملا لیکن کرکٹ کے معاملے میں پیش رفت انتہائی سست روی کا شکار رہی۔

مئی 2015میں برف پگھلی جب زمبابوے کی ٹیم 3ون ڈے اور 2ٹی ٹوئنٹی میچز کے لیے لاہور آئی،بعد ازاں دوسرا بڑا قدم رواں سال اٹھاتے ہوئے پاکستان سپر لیگ کا فائنل قذافی سٹیڈیم میں کروایا گیا۔ یوں جس شہر میں سانحہ کے باعث ملک پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوئے تھے،بحالی کا سلسلہ بھی وہیں سے شروع ہوا۔

ورلڈ الیون کی لاہور میں ہی میزبانی کی بات چلی تو پی سی بی اور شائقین کا جوش جذبہ پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا لیکن ملکی صورتحال پہلے ایونٹس سے قطعی مختلف اور تیزی سے تبدیل ہورہی تھی۔ بورڈ میں چیئرمین شہریار خان کی عہدے کی مدت ختم ہورہی تھی۔ اس دوران سپریم کورٹ کے فیصلے میں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا۔

الیکشن کے نام پر نجم سیٹھی کی بطور چیئرمین سلیکشن کا مرحلہ مکمل ہونے سے پی سی بی میں غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ تو ہوگیا لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے پر نواز لیگ کا رد عمل، سابق وزیر اعظم کی جاتی امراء واپسی کے لیے جی ٹی روڈ پر ریلی اور سیاسی محاذ کھلنے کے بعد ورلڈ الیون کا معاملہ پس منظر میں جاتا نظر آرہا تھا۔یواے ای میں سری لنکا کے خلاف سیریز کے لیے قومی ٹیم کی روانگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹرز کی میزبانی کا مرحلہ 25اگست سے قبل مکمل ہونا ضروری تھا لیکن نواز شریف کی نااہلی سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی حلقہ 120کی نشست کے لیے ضمنی انتخاب کی تاریخ 17ستمبر مقرر ہونے سے سیریز کا مجوزہ شیڈول قابل عمل نہ رہا۔

سیاسی لحاظ سے انتہائی اہمیت رکھنے والا یہ الیکشن سکیورٹی اور دیگر انتظامات کے حوالے سے بھی حساس نوعیت کا ہوگا۔اس صورتحال میں سرکاری مشینری کے لیے ورلڈ الیون کے خلاف سیریز پر توجہ دینا مشکل چیلنج نظر آرہا تھا۔ تاثر یہی تھا کہ توجہ بٹ جانے کا خدشہ پیش نظر رکھتے ہوئے الیکشن سے قبل بھی پنجاب حکومت انٹرنیشنل کرکٹرز کی میزبانی کے لیے معاونت کو تیار نہیں ہوگی، تاہم بالآخر ایک مشکل اور حساس فیصلہ کرلیا گیا۔

موجودہ صورتحال میں پی سی بی اور سکیورٹی اداروں کو کم وقت میں بہترین انتظامات کا چیلنج درپش ہے،بورڈ کو قذافی سٹیڈیم کی تزئین و آرائش، مہمان کرکٹرز کی رہائش اور آمدورفت، کے ساتھ مختصر وقت میں سیریز کے نشریاتی حقوق فروخت کرنے کے معاملات دیکھنا ہیں تو دوسری جانب اعلیٰ حکام، رینجرز، پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر انتظامات کو حتمی شکل بھی دینا ہے۔

سیریز پی سی بی ہی نہیں پاکستان کی ساکھ کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔ پاکستان کا مثبت تاثر اجاگر کرنے کے لیے اس ایونٹ کا کامیاب انعقادضروری ہے۔ورلڈ الیون میں شامل 7ملکوں سے تعلق رکھنے والے 14کرکٹرز، آئی سی سی اور کرکٹ بورڈز کی نگاہیں اس سیریز پر مرکوز ہوں گی۔ 3ٹی ٹوئنٹی میچ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا موقع بھی ہیں اور قوم کے آہنی عزم کا امتحان بھی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس اہم موقع پر قوم اور ادارے ہم آواز ہیں۔

پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ورلڈ الیون کی پاکستان آمد کا خیرمقدم کیا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے آفیشل اکاؤنٹ پر انہوں نے لکھا کہ ’’ورلڈ الیون کرکٹ ٹیم کو پاکستان آمد پر خوش آمدید، پاکستانی امن پسند اور کھیلوں سے محبت کرنے والی قوم ہیں اور ورلڈ الیون کی میزبانی کے لیے بے تاب ہیں۔ امید ہے کہ پولیس کے ساتھ پاک فوج کی معاونت سے پی ایس فائنل کے بعد اس امتحان میں پاکستان سرخرو ہوگا۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں چیئرمین پی سی بی نے حکومت کو اس مشکل امتحان کے لیے قائل کرنے کی کوشش میں اپنے کارڈز بڑی مہارت سے کھیلے ہیں۔ ورلڈالیون کی میزبانی کے لیے مہم کے دوران ہی انہوں کولمبو میں ایشین کرکٹ کونسل اجلاس کا فائدہ اٹھایا اور سری لنکن حکام سے لاہور میں ایک دو میچ کھیلنے کے لیے گرین سگنل حاصل کیا۔ پھر ویسٹ انڈیز کی آمد کو بھی ورلڈ الیون کی کامیابی سے مشروط قرار دیتے ہوئے ستمبر میں سیریز کی اہمیت مزید اجاگر کر دی۔

عوامی سطح پر اس سارے پلان کی پذیرائی نے پنجاب حکومت کوبھی تعاون پر آمادہ کردیا لیکن ورلڈ الیون کے ٹور کو ممکن بنانے میں آئی سی سی ٹاسک فورس برائے پاکستان کے سربراہ جائلز کلارک کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ غیر ملکی کرکٹرز کو قائل کرنے،فیکا کو اعتماد میں لینے،3سالہ سکیورٹی پلان کے لیے 12لاکھ ڈالر مختص کرنے سمیت انہوں نے ہر قدم پر پی سی بی کا ساتھ دیا۔ اچانک شیڈول میں تبدیلی کے باعث کئی کام جلدی میں کرنا پڑے۔

اس صورتحال میں قومی ٹیم کے بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور کے بھائی اینڈی فلاور نے بھی دنیا بھر کے کرکٹرز سے رابطے جاری رکھتے ہوئے ایک ایسی ٹیم تشکیل دی جو بڑے ناموں سے مزین ہے۔ جنوبی افریقہ کی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان فاف ڈیو پلیسی کا قیادت کے لیے تیار ہونا، سکواڈ میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی2010ء کی فاتح انگلش ٹیم کے کپتان پال کولنگ وڈ کی شمولیت بھی خوش آئند ہے۔ اگرچہ وہ 41سال کے ہوچکے لیکن کرکٹ کے میدانوں میں سرگرم ہیں۔

انہوں نے جولائی میں انگلینڈ کے ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ ٹورنامنٹ میں 68 گیندوں پر 108 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر فارم کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء اور 2012ء میں چیمپئن بننے والی ویسٹ انڈین ٹیم کے کپتان ڈیرن سیمی کے ساتھ، دنیا بھر کی لیگز میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے کیریبیئن سپنر سیموئیل بدری بھی ایکشن میں نظر آنے کے لیے تیار ہیں۔

جنوبی افریقی بیٹسمین ہاشم آملا اور لیگ سپنر عمران طاہر بھی بڑے نام اور پاکستانی شائقین کے فیورٹس میں شمار کئے جاتے ہیں۔ بنگلادیشی اوپنر تمیم اقبال نے پی ایس ایل میں عمدہ کارکردگی سے یواے ای میں پرستاروں کی تعداد میں اضافہ کیا تھا۔ محدود اوورز کی کرکٹ میں اختتامی اوورز کے بہترین بیٹسمینوں میں شمار کئے جانے والے جنوبی افریقی ڈیوڈ ملر اور نیوزی لینڈ کے ٹی ٹوئنٹی سپیشلسٹ گرانٹ ایلوئیٹ بھی جانے پہچانے نام ہیں۔

سابق آسٹریلوی کپتان اور جارح مزاج بیٹسمین جارج بیلی پاکستان کے خلاف بھی کئی اچھی اننگز کھیل چکے۔ پروٹیز پیسر مورنے مورکل اور سری لنکن آل راؤنڈر تھسارا پریرا، کینگرووکٹ کیپر بیٹسمین ٹم پین اور آل راؤنڈر بین کٹنگ بھی جدید کرکٹ سے آشنا اور شائقین کو بھرپور تفریح فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔  5جنوبی افریقی،3آسٹریلوی، 2 ویسٹ انڈین جبکہ ایک ایک انگلینڈ،نیوزی لینڈ، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے کرکٹرز پر مشتمل اسکواڈ میں آٹھویں ملک کی نمائندگی کے لیے سابق زمبابوین کرکٹر اینڈی فلاور بطور کوچ موجود ہوں گے۔

دوسری جانب پاکستان نے نوجوانوں کو مواقع دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلنے والے محمد حفیظ، وہاب ریاض،کامران اکمل اور سہیل تنویر کو ڈراپ کرکے ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے کرکٹرز عامر یامین، فہیم اشرف،عمر امین، عثمان خان شنواری کو موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیریبیئنز کیخلاف سیریز میں آرام کرنے والے محمد عامر بھی ایکشن میں ہوں گے۔ محمد نواز کی بھی واپسی ہوئی ہے لیکن شاداب خان، شعیب ملک، عماد وسیم جیسے سپننگ آل راؤنڈرز کی موجودگی میں ان کی پلیئنگ الیون میں جگہ بنتی نظر نہیں آتی۔

فٹنس مسائل کی وجہ سے پیسر سہیل خان مستقبل کے پلان کا حصہ نہیں بن سکتے لیکن حیران کن طور پر انہیں نوجوان بولرز پر ترجیح دی گئی ہے۔ملکی شائقین کی خواہش ہوگی کہ سٹارز سے مزئین ورلڈ الیون کے خلاف بھی گرین شرٹس عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کریں لیکن ہار جیت سے قطعہ نظر اس سیریز کی اہمیت یہ ہے کہ پاکستانی قوم سکیورٹی خدشات کے خلاف میچ میں سرخرو ہواور ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سفر جاری رہے۔ اگر میزبان ٹیم سیریز ہار بھی گئی تو نوجوان کرکٹرز کو سٹارز کے ساتھ کھیل کر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔

پی سی بی کا اگلا ہدف کراچی میں انٹرنیشنل میچ کا انعقاد ہونا چاہیے۔ پہلے مرحلے میں پی ایس ایل میچز کروائے جائیں۔ نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کسی بھی شہر میں میچ کھیلنا لیگ میں شریک کرکٹرز کے معاہدوں میں شامل ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ فرنچائز مالکان بھی اپنی ٹیموں میں شامل کھلاڑیوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے لاہور کے ساتھ کراچی میں بھی کھیلنے کے لیے آمادہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔