ادرک جوڑوں کے درد کے لیے اکسیر قرار

ویب ڈیسک  پير 28 اگست 2017
ادرک میں کئی اجزا جلن، درد اور سوزش کو کم کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ادرک میں کئی اجزا جلن، درد اور سوزش کو کم کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

کراچی: ادرک کے جسمانی و طبی فوائد سے ہم سب بخوبی واقف ہیں اور اب ماہرین نے اس کے استعمال کو گٹھیا اور جوڑوں کا درد ختم کرنے میں بھی بہت مفید قرار دیا ہے۔

ایشیا اور افریقا میں کثرت سے استعمال ہونے والی ادرک کو تیل، پاؤڈر اور اصل حالت میں کھانوں اور ادویہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ہاضمے کی بہتری کے لیے ادرک کا استعمال عام کیا جاتا ہے لیکن اب جوڑوں کے درد میں اس کی بھرپور افادیت سامنے آئی ہے۔

بعض سائنسی مطالعات سے عیاں ہے کہ جوڑوں کے درد میں مبتلا افراد کو جب ادرک یا اس کے اجزا کھلائے گئے تو ان کے جوڑوں میں سوزش کم ہوئی اور گٹھیا کے مرض میں افاقہ ہوا۔

زخم بھرنے اور بیکٹیریا سے لڑنے کے قدرتی جسمانی عمل میں تھوڑی بہت سوزش پیدا ہوتی ہے جس کے دوران جسم خون کے سفید خلیات خارج کرتا ہے لیکن یہ کیفیت ایک مسلسل صورت بھی اختیار کر سکتی ہے جبکہ گٹھیا کے مرض میں جوڑوں کے اطراف مستقل تکلیف کی وجہ بن جاتی ہے۔

ایک تجربے میں جب گٹھیا اور جوڑوں کے درد میں مبتلا مریضوں کو ادرک کے کیپسول دن میں دو مرتبہ 6 ماہ تک کھلائے گئے تو ان کی جلن میں واضح کمی دیکھنے میں آئی تاہم ان میں سینے کی جلن کا سائیڈ افیکٹ بھی نوٹ کیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ ادرک ہر قسم کی جسمانی سوزش اور اندرونی جلن کم کر سکتی ہے۔

جسمانی درد اور پٹھوں میں اینٹھن کے شکار مریض بھی ادرک سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 2010 میں حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کو ادرک دی گئی تو ان کی شدید تکلیف میں 30 فیصد تک کمی نوٹ کی گئی۔ تاہم بعض سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ درد کم کرنے میں ادرک خاص مفید نہیں ہوتی اور اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

ادرک کیسے استعمال کی جائے

ادرک پاؤڈر کے کیپسول اور درد کی جگہ ملنے والی کریمیں بھی دستیاب ہیں۔ اس کی چائے بنا کر یا اسے پکوانوں میں ڈال کر بھی کھایا جا سکتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ روزانہ 2 سے 4 گرام ادرک دن میں تین مرتبہ کھائی جا سکتی ہے لیکن خیال رہے کہ اس کی مقدار 4 گرام سے ہرگز نہ بڑھے۔  ماہرین کے مطابق ادرک کے علاوہ دارچینی اور ہلدی کا استعمال بھی جوڑوں کی تکلیف کو کم کرنےمیں بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔