پاکستان بھارت کھیلوں کی بحالی…مگر کس قیمت پر؟

میاں اصغر سلیمی  ہفتہ 16 فروری 2013
بھارت پاکستان کو قریب آنے کا موقع اس وقت ہی دیتا ہے جب اس کا اپنا مفاد ہوتا ہے۔  فوٹو : فائل

بھارت پاکستان کو قریب آنے کا موقع اس وقت ہی دیتا ہے جب اس کا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

ایک بار ایک سردار کسی راستے سے گزرتے ہوئے کیلے کے چھلکے پر پائوں رکھ بیٹھا اور دھڑام سے منہ کے بل گر پڑا، شدید چوٹ آئی، سر کو سہلاتا ہوا چلا گیا۔

اتفاق سے کچھ دن کے بعد پھر اسی راستے سے گزر ہوا پھر وہیں پر ایک کیلے کا چھلکا پڑا دیکھا، یہ دیکھ کر ٹھہر گیا، تھوڑی دیر سوچنے کے بعد سر کو سہلایا اور بولا کہ’’ اج فیر ڈگنا پوؤں‘‘ اور چھلکے پر قدم رکھ دیا، ہماری حالت بھی اسی سردار کی طرح ہے، ہم پرانا درد بھی یاد کرتے ہیں، سر بھی سہلاتے ہیں مگر پھر بھی کیلے کے چھلکے سے بچ کر نکلنے کی کوشش نہیں کرتے۔

پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو ہی لے لیں، بھارت ہماری کھیلوں اور کھلاڑیوں کے ساتھ کیا کیا کھلواڑ نہیں کر رہا، ہمارے کھلاڑی انڈین پریمیئر لیگ کا حصہ بننے کے لئے ترستے ہیں جبکہ بی سی سی آئی تاحال جنم کی منتظر پاکستان سپر لیگ کو منہ تک نہیں لگاتا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم 5سال کے بعد بھارت میں جا کر میزبان سائیڈ کے خلاف کھیلے تو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے، جیسے ہم نے کوئی بہت بڑا تیر مار لیا ہے، کوئی ناقابل تسخیر قلعہ فتح کر لیاہے اور انہونی کو ہونی کر دکھایا ہے، حالانکہ حقیقت کے آئینہ میں دیکھا جائے تو کرکٹ دوستی کے اس سودے میں پاکستان کرکٹ بورڈ سراسر خسارے میں جبکہ بھارتی کرکٹ بورڈ فائدے ہی فائدے میں رہا، اربوں روپے بی سی سی آئی کے خزانے میں گئے جبکہ پی سی بی کو ایک پھوٹی کوڑی بھی میسر نہیں آئی۔ پی سی بی اس سیریز کی کامیابی کا ڈھنڈورا اسی وقت پیٹ سکتا تھا جب جوابی دورے میں بھارتی ٹیم بھی پاکستان میں کھیلنے کے لئے آتی اور برسوں سے ویران ملکی سونے گراؤنڈز کو آباد کرتی۔

پی سی بی بھارتی بورڈ کو باور کراتا کہ آئی سی سی کا سارا کنٹرول تمہارے ہاتھ میں ہے، دنیا بھر میں کرکٹ بورڈز میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کرو اور انھیں اپنی ٹیمیں پاکستان میں بجھوانے کے لئے آمادہ کرو لیکن ہماری اخلاقی جرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی بلائنڈ کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آتی ہے تو پاکستان بلائنڈ کرکٹ کونسل جیتا ہوا میچ اس لئے اس کی جھولی میں ڈال دیتی ہے کہیں میزبان ٹیم دورئہ ادھورا چھوڑ کر اپنے ملک ہی نہ لوٹ جائے، اس کے برعکس ہماری ٹیم بلائنڈ ورلڈ کپ کھیلنے کے لئے بھارت جاتی ہے تو میگا ایونٹ میں ہار کے خوف کی وجہ سے کپتان ذیشان عباسی کو تیزاب پلاکر جان سے مارنے کی کوشش سامنے آتی ہے۔

یہ سانحہ اگر پاکستان میں رونما ہوا ہوتا تو پورے بھارت میں زلزلہ آ جاتا اور اس واقعہ کے تانے بانے نہ جانے کس کس سے ملا دیئے جاتے مگر میزبانوں نے بڑی خوبصورتی سے معاملہ گول کر دیا۔ 2011ء میں نیوزی لینڈ میں شیڈول ہاکی چیمپئنز ٹرافی میں روایتی حریف آمنے سامنے ہوتے ہیں تو بھارتی کھلاڑی ہاکیاں ہاتھ میں پکڑے پاکستانی ٹیم کے کپتان محمد عمران پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور شدید ضربیں لگا کر جبڑا توڑدیتے ہیں ، حال ہی میں قطر میں ہونے والی ایشیئن ہاکی چیمپئنز ٹرافی میں بھارتی ٹیم کو اپنی شکست صاف نظر آتی ہے تو وہ میدان چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ ہمارے 9 کھلاڑی جذبہ خیرسگالی کے تحت پہلی انڈین ہاکی لیگ میں کھیلنے کے بھارت جاتے ہیں تو ہندو انتہا پسند تنظمیں حرکت میں آ جاتی ہیں،جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں دیتی ہیں جس کی وجہ سے ہمیں اپنے کھلاڑیوں کو ہنگامی بنیادوں پر وطن واپس بلانا پڑتا ہے۔ آئی سی سی ورلڈ کپ کا حصہ بننے کے لئے ہماری خواتین کرکٹ ٹیم بھارت جاتی ہے تو سکیورٹی خدشات کے پیش نظر کھلاڑیوں کو قلعہ نما اسٹیڈیم کے اندر نظر بند کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شعیب ملک اورٹینس اسٹار ثانیہ مرزا رشتہ ازدواج میں بندھتے ہیں تو بھارتی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے جبکہ انٹرنیشنل ٹینس مقابلوں میں اعصام الحق اور روہن بھوپننا کی جوڑی بھی انھیں ہضم نہیں ہوتی۔ پنجاب یوتھ فیسٹول کے کبڈی ایونٹ میں بھارتی پہلوان میدان میں اترتے ہیں تو شکست کے خوف سے امپائرز پر جانبداری کا الزام لگاتے ہیں جبکہ وہ اپنے ملک میں اتنے شیر ہو جاتے ہیں کہ ورلڈ کپ کبڈی کے فائنل میں اپنے جسموں پر ’’ویسلین‘‘ لگا کر آتے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

ہرکھیل میں ایک فریق کی جیت اور دوسرے کی شکست ہوتی ہے، بعض مقابلے ڈرا ہوتے ہیں اور ہر فریق کو ایک ایک پوائنٹ مل جاتا ہے، کوئی بھی شکست خوردہ نہیں کہلاتا لیکن بعض کھیل ایسے بھی ہوتے ہیں جو طاقتور اور کمزور کے درمیان کھیلے جاتے ہیں جس میں کمزور کی کامیابی کے باوجود اصل فتح طاقتور کی ہی ہوتی ہے۔ ہمارا بھی کچھ حال ایسا ہی ہے، پاکستان بھارت کرکٹ سیریز کے انعقاد کے لئے پی سی بی تو درکنار ہمارے حکمران بھی مارے مارے پھرتے ہیں، سابق وزیر اعظم سید یوسف رضاگیلانی ورلڈ کپ2011ء کے سیمی فائنل کے موقع پر چندی گڑھ میں اپنے ہم منصب منموہن سنگھ سے مل چکے، صدر مملکت آصف علی زرداری بھی بھارت کی یاترا کر چکے لیکن یہ سربراہان بھی بھارت حکومت کو اپنی ٹیم پاکستان میں بجھوانے کے لئے آمادہ نہیں کر سکے۔

اعجاز بٹ کے بعد موجودہ چیئرمین پی سی بی ذکاء اشرف بھی بی سی سی آئی کی ایک بار نہیں بلکہ درجنوں بار منتیں کر چکے لیکن بھارتی ٹیم نے کھیلنے کے لئے آنا تھا اور نہ ہی آئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری کوئی عزت نہیں،کوئی وقار نہیں،کوئی آن بان شان نہیں، کیا ہم نے دل ودماغ میں بھارت کا غلبہ اور برتری کو تسلیم کر لیا ہے، کیا ہم نے مان لیا ہے کہ وہ ہماری عزت نفس مجروح کرتا رہے گا، ہمارا گلہ گھونٹتا رہے گا اور ہم اف تک نہیں کہیں گے۔کیا ہم نے انگریز کی غلامی سے آزادی حاصل کر کے خود کو ہندو بنیے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

یہ سچ ہے کہ موجودہ دور میں کھیلوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، کھلاڑی ملکوں میں پیار محبت بانٹتے اور امن کا پرچار کرتے ہیں، یہ بات دوسری دنیا کے لئے تو ٹھیک ہے لیکن اس فارمولا، اس نظریہ، آس آئیڈیا اور اس تھیوری کو پاکستان بھارت پر اپلائی نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت پاکستان کو قریب آنے کا موقع اس وقت ہی دیتا ہے جب اس کا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ وہ اسپورٹس ڈپلومیسی کی باتیں کرتا ہے، ویزہ میں نرمی لانے کے فریب دیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ راستے کھولو، تجارت شروع کرو، ثقافتی اور تجارتی وفود کا تبادلہ کرو،، ساتھ مل کے ناچو، ساتھ مل کے گاؤ۔ پھر کیا ہوتا ہے کہ سرحدیں کھول دی جاتی ہیں، بھارتی وی آئی پی شخصیات اور شہری بڑی تعداد میں پاکستان کا رخ کرتے ہیں، پیار محبت، دوستی اور امن کا پرچار کرتے ہیں، امن کی فاختائیں اڑائیں جاتی ہیں ، چھوٹے بڑے بھائی کے راگ الاپے جاتے ہیں لیکن پیار ومحبت کی پینگوں کے پیچھے بھارت کی نیک نیتی نہیں بلکہ دوستی کی آڑ میں پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا مقصود ہوتا ہے۔اور ہم بھولے بادشاہ چالاک اور عیار دشمن کی چالوں میں آکر اس کی ہر بات ، ہر وعدے کا یقین کر لیتے ہیں۔

چانکیہ نے کہا تھا کہ جو ڈر جائے اسے ہمیشہ کے لئے ڈرائے رکھو اور جو نہ ڈرے اس سے ہمیشہ ڈرے رہو، چانکیہ کا یہ قول بھارت کی نفسیات بھی ہے اور دفاعی پالیسی بھی۔ ہم جب تک بھارت سے نہیں ڈرتے تھے اس وقت تک بھارت ہم سے ڈر کر رہتا تھا لیکن جب سے ہم نے اس کے چھوٹے موٹے مطالبات ماننا شروع کر دیئے ہیں، اس نے ہم پر ڈرائے رکھنے کی پالیسی استعمال کرنا شروع کر دی ہے ۔

ہم یہ سبق کیوں بھوک گئے کہ کمزور انسان اور چھوٹی قومیں بڑے بازاروں اور بڑی منڈیوں سے ہمیشہ جیبیں کٹوا کر واپس آتی ہیں، بدقسمت لوگ اونٹ پر بھی بیٹھ جائیں توانھیں کتا کاٹ لیتا ہے اور ان کی جھونپڑیوں کو گلیشیئرز میں بھی آگ لگ جاتی ہے۔ نپولین نے کہا تھا کہ اگر آپ100کتوں کی ایک فوج تیار کریں اور ان کا لیڈرایک شیر مقرر کریں تو تمام کتے شیر کی طرح لڑیں گے لیکن اگر آپ 100 شیروں پر مشتمل ایک فوج تیار کریں اور ان کا لیڈر ایک کتا ہو تو تمام شیر کتے کی موت مریں گے۔اب فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم نے بہادوروں کا راستہ اختیار کرنا ہے یا بزدلوں کی طرح غیروں کی جی حضوری کرنی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔