- وفاقی کابینہ کا اجلاس منگل کو طلب، 17 نکاتی ایجنڈا پر غور کیا جائے گا
- راولپنڈی میں فائرنگ سے باپ بیٹا قتل، ملزم موقع سے فرار
- پاور ٹیرف میں اضافے سے ایکسپورٹ متاثر ہونے کا خدشہ
- علی زیدی کو کراچی کمیٹی تو درکنار کابینہ میں بھی نہیں ہونا چاہیے، سعید غنی
- کیا کورونا ویکسین نئے کووِڈ 19 کے خلاف ناکارہ ہوجائے گی؟
- گھریلو ملازم نے مالک کی 5 سالہ بچی کو زیادتی کے بعد بیدردی سے قتل کردیا
- پاکستان مخالف نعرے و اشتعال انگیز تقریر؛ گواہ پولیس انسپکٹر نے 7 ملزمان کو شناخت کرلیا
- بھارت میں نو سربازوں نے جیولر کو 50 لاکھ میں سونے کی جگہ مٹی دیدی
- عالمی اور مقامی منڈی میں سونے کے نرخ پھر بڑھ گئے
- ہفتے بھر میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو تنزلی کا سامنا
- كوئٹہ سمیت شمالی بلوچستان پھر شدید سردی كی لپیٹ میں، درجہ حرارت منفی 6 تک گر گیا
- گوگل نے موبائل پر سرچنگ کی سہولت میں تبدیلیوں کا فیصلہ کرلیا
- بلاول کے پاس تحریک عدم اعتماد کے نمبر پورے ہیں تو پیش کریں، احسن اقبال
- لڑکی سے دوران ڈکیتی اجتماعی زیادتی کے ملزم پولیس حراست سے فرار
- سابق صدر ٹرمپ کیخلاف کانگریس عمارت حملے پر مواخذہ آئندہ ماہ سے ہوگا
- قومی کھیل ہاکی کی ترقی کے لیے اداکارشان میدان میں آگئے
- نئی قسم کا کورونا وائرس زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہو رہا ہے، برطانوی وزیراعظم
- براڈ شیٹ میں 100ملین ڈالرز کی مزید جائیدادیں سامنےآرہی ہیں، شیخ رشید
- کینیڈا کی گورنر جنرل ملازمین کو ہراساں کرنے پر مستعفی
- نیب کا شہریوں کے اکاؤنٹس سالوں تک بلاک کرنا بنیادی آئینی حقوق کیخلاف ہے، عدالت
ٹیکس نظام میں خامیاں

ہمارے ملک میں مختلف نوعیت کے ٹرسٹ قائم ہیں‘ یہ بھی ٹیکس سے بچنے کا ایک ذریعہ ہے . فوٹو : فائل
پاکستان میں ٹیکس سسٹم میں خامیوں یا پیچیدگیوں کی باتیں اکثر ہوتی رہتی ہیں‘ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارا ٹیکس نظام ناہموار ہے اور اکثر طبقات یا تو ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے یا اپنی حیثیت کے مطابق ادا نہیں کرتے۔ انکم ٹیکس ہو‘ سیلز ٹیکس‘ ایکسائز ڈیوٹی ہو یا کوئی اور ٹیکس ان سب کی ادائیگی میں بہت سے چور راستے موجود ہیں جن کی بنیاد پر اکثر طبقات پورا ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ٹیکس چوری میں سرکاری عمال کی مدد واعانت شامل ہوتی ہے۔
ادھر ہمارے ملک میں مختلف نوعیت کے ٹرسٹ قائم ہیں‘ یہ بھی ٹیکس سے بچنے کا ایک ذریعہ ہے‘ اسی طرح مذہبی طبقہ بھی ٹیکس سے مبرا ہے حالانکہ اکثر مذہبی شخصیات کا طرز زندگی اور ان کے ساتھ مسلح محافظوں کی کثیر تعداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس اچھے خاصے وسائل موجود ہیں‘ قبائلی علاقوں میں رہنے والے بااثر افراد بھی انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکس ادا نہیں کرتے حالانکہ وہ اس ملک کے وسائل سے بھرپور طریقے سے فوائد حاصل کر رہے ہیں‘ بڑا زمیندار طبقہ بھی ٹیکس ادا نہیں کرتا‘ اب میڈیا کی اطلاعات کے مطابق سال 2016ء میں کارپوریٹ ٹیکس دہندگان میں سے بھی 15 ہزار نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔
دوسرے لفظوں میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کمپنیوں نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائی‘ بہرحال ہمارے ملک کے ٹیکس نظام میں بے شمار خامیاں ہیں‘ ملک کے طاقتور طبقات اپنی حیثیت کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے‘ قبائلی سردار، علماء و مشائخ اور گدی نشین حضرات‘ بڑے بڑے ٹرسٹ قائم کرنے والی شخصیات اور جاگیردار ٹیکس نیٹ سے تاحال باہر ہیں۔
اس حوالے ایک اور اہم پہلو بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ ٹیکسوں سے اکٹھی ہونے والی بے پناہ دولت کا عوامی فلاح و بہبود کے لیے استعمال نظر نہیں آ تا بلکہ سارا قومی خزانہ رولنگ کلاس کی ذاتی دلچسپیوں کی نذر ہو جاتا ہے جس سے ان کی اپنی واہ واہ ضرور ہو جاتی ہے مگر غریب کے گھر کا نہ چولہا جلتا ہے نہ اس کے بیمار بچے کی دوا آتی ہے جس سے ٹیکس دہندگان کو مکمل ٹیکس کی ادائیگی کی تحریک ہو۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔