مردم شماری کے نتائج پر تحفظات کا اظہار

ایڈیٹوریل  پير 28 اگست 2017
مردم شماری کا کلیدی مقصد آبادی کے درست اعدادوشمار جمع کرنا ہے . فوٹو : فائل

مردم شماری کا کلیدی مقصد آبادی کے درست اعدادوشمار جمع کرنا ہے . فوٹو : فائل

ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے مردم شماری کے ابتدائی نتائج کو درست تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ مردم شماری میں قصداً ردوبدل کیا گیا اور اصل شماریات کو چھپایا گیا ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان کے ادارہ شماریات نے چھٹی مردم شماری کے ابتدائی نتائج مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں پیش کیے تھے جس کے مطابق ملکی آبادی 1998ء سے 2017ء کے دوران 2.4فیصد سالانہ شرح نمو کے ساتھ 20کروڑ 74ہزار 520 ہو چکی ہے‘ اس طرح ان 19برسوں کے دوران ملک کی آبادی میں تقریباً 7کروڑ54 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے جو کہ 57فیصد اضافے کے برابر ہے۔

مردم شماری کے نتائج کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے جو ملکی آبادی کا نصف سے زائد ہے‘ اس کی آبادی 11کروڑ ہے جب کہ 1998ء میں اس کی آبادی 7کروڑ سے زیادہ تھی‘ آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا صوبہ سندھ ہے جس کی آبادی پونے پانچ کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے‘ اسی طرح خیبرپختونخوا کی آبادی پونے چار کروڑ اور بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ تئیس لاکھ سے زائد ہے۔

مردم شماری کا کلیدی مقصد آبادی کے درست اعدادوشمار جمع کرنا ہے جس کی بنیاد پر ملکی وسائل کی تقسیم اور ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل کی جاتی ہے‘ عام انتخابات کے لیے انتخابی حلقہ بندیوں کی تشکیل بھی آبادی کو پیش نظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ اس تناظر میں مردم شماری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

ہمارے ہاں یہ روایت رہی ہے کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا مردم شماری کے اعدادوشمار یا انتخابی نتائج ہوں اپوزیشن کی جانب سے اس کی مصدقہ حیثیت پر سوالات اٹھائے جاتے اور یہ اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے قصداً نتائج میں ردوبدل کر کے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ اپوزیشن کی حیثیت کو کمزور ظاہر کیا جا سکے۔ اس طرح کسی بھی مسئلے کا سیدھا سادا حل نکلنے کے بجائے اس کی راہ میں رکاوٹیں اور پیچیدگیاں حائل ہو جاتی ہیں اور وہ الجھتے الجھتے لاینحل کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔

مردم شماری کے نتائج کو کبھی اپوزیشن کی جانب سے درست تسلیم نہیں کیا گیا بالخصوص قوم پرست جماعتوں نے ہمیشہ اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اب بھی اپوزیشن جماعتوں نے مردم شماری کے نتائج پر سوالات اٹھائے ہیں‘ پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ مردم شماری کے اعدادوشمار کی حقیقی تصویر پیش نہیں کی گئی بلکہ یہ ایک رسمی کارروائی تھی جس پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا جا سکتا‘ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غلط اعدادوشمار جاری کیے گئے سندھ کی آبادی کو دانستہ کم از کم ایک کروڑ کم اور پنجاب کی آبادی کو ایک کروڑ زائد ظاہر کیا گیا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما نے بھی مردم شماری کے نتائج پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صرف شمالی وزیرستان سے آئی ڈی پیز کی تعداد بیس لاکھ درج تھی جب کہ مردم شماری میں فاٹا کی آبادی صرف 50لاکھ ظاہر کی گئی ہے جو ناقابل اعتبار ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بھی آبادی کے شماریات کو درست ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

یہ صورت حال تشویشناک ہے کیونکہ مستقبل میں ملکی وسائل اور پانی کی تقسیم، ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل اور انتخابی حلقہ بندیوں کی تشکیل میں حکومت کو چیلنجز درپیش ہو سکتے ہیں جس سے نئے مسائل جنم لے سکتے ہیں اور منفی رجحان کی حامل قوتیں ان مسائل کو بنیاد بنا کر عوام میں حکومت کے خلاف نفرت پیدا، صوبائیت اور لسانیت کو ہوا دے سکتی ہیں۔ سندھ یا فاٹا کی آبادی کے نتائج کے بارے میں اپوزیشن جماعتوں کے جو تحفظات ہیں حکومت کو اسے دور کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ تنقید سے بچنے کے لیے حکومت قومی سطح کے منصوبوں میں اگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی شریک عمل کر لے تو یہ بہترین راستہ ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کی عدم شرکت قومی سطح کے منصوبوں کے نتائج کی مصدقہ حیثیت کے بارے میں شکوک و شبہات جنم دیتی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کو بھی تنقید برائے تنقید کا رویہ ترک کر کے تنقید برائے اصلاح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔

اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ اپوزیشن جماعتوں نے ملکی ترقی کے منصوبوں میں حکومت سے تعاون کرنے کے بجائے اس کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں حائل کی ہیں جس کی ایک واضح مثال کالا باغ ڈیم کی تعمیر ہے، اسی طرح سی پیک کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی جو ملکی ترقی کا ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔ اپوزیشن جمہوریت کا اہم حصہ ہے اسے ملکی مسائل سڑکوں پر حل کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کا فلور استعمال کرنا چاہیے کیونکہ یہی آئینی اور بہتر راستہ ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔