- امریکا میں بڑی دہشت گردی کاخطرہ، ہائی الرٹ جاری
- گورنرسندھ کی گاڑی میں کتے کی شاہی سواری، ویڈیو سوشل میڈیا پروائرل
- بیوی کی بے وفائی کا بدلہ لینے کے لیے شوہر نے 18 خواتین کو قتل کردیا
- بختاور کی شادی کی مزید 3 تقاریب کوحتمی شکل دے دی گئی
- وزیراعظم کے سامنے سندھ حکومت کے خلاف شکایتوں کے انبار لگ گئے
- اسرائیل میں ایران پر حملہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں، ایرانی چیف آف اسٹاف
- جاپان کے وزیراعظم نے ارکان اسمبلی کے نائٹ کلب جانے پر معافی مانگ لی
- سعودی گورنر تبوک تلور کے شکار کیلئے بلوچستان پہنچ گئے
- امریکی فوج کی خاتون اہلکاروں کو بال لمبے کرنے اور بناؤ سنگھار کی اجازت
- حکومت کا یکم فروری سے ملک بھر میں تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ
- امریکی اور روسی صدور کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو، تلخی برقرار
- سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد پھیلانے کے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد
- نیپرا نے بجلی کی قیمت بڑھانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا
- اسد درانی بھارتی ایجنسی ’را‘سے رابطوں میں رہے، وزارت دفاع کا عدالت میں مؤقف
- کراچی میں شراب خانہ کھولنے پر سندھ حکومت کو نوٹس جاری
- کراچی کو سندھ حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے، وزیراعظم
- شرم نہیں آتی کسی کا بیٹا غائب ہے اور پولیس ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی، سندھ ہائیکورٹ
- سارو کنگولی کی طبیعت پھر بگڑ گئی، 48 گھنٹے اہم
- ماحول دوست اسمارٹ فون اپنی پیداوار سے قبل ہی مشہور
- یوٹیوب نے ٹرمپ کے چینل پرایک بار پھر پابندی عائد کردی
آرٹیکل 62، 63 میں ترمیم کی بالواسطہ کوشش؟

’’حلف‘‘ کا لفظ نکالنا آئین کی نفی، اکرام چوہدری، شق 62، 63 کو مسترد کیا گیا، شیخ احسن۔ فوٹو: فائل
اسلام آباد: عام انتخابات کے قوانین میں ترمیم کے بل میںکاغذات نامزدگی کے فارم سے’’ حلفیہ اقرارنامہ‘‘ ختم کردیا گیا تاہم اس اقدام کو آئینی و قانونی ماہرین نے آئین کے آرٹیکل 62 اورعوامی نمائندگی ایکٹ پر حملہ اور ایک فارم میں تبدیلی کر کے آرٹیکل 62، 63 سے بچنے کا راستہ قرار دیا ہے۔
قومی اسمبلی سے22 اگست کو پاس ہونے والے انتخابات ایکٹ2017 میں دیے گئے نئے نامزدگی فارم میں امیدوارکی جانب سے جمع کرائے جانے والے حلفیہ اقرارنامہ میں سے ’’ حلفOath ‘‘کا لفظ حذف کیا گیا ہے۔ نئے بل میں ’’امیدوارکی جانب سے اقرار نامہ ‘‘کے الفاظ ہیں جبکہ سابقہ فارم نامزدگی میں ’’امیدوارکی جانب سے حلفیہ اقرار نامہ ‘‘کے الفاظ تھے۔پرانے قانون میں اقرار نامے کے متن میں تین جگہ موجود’’ حلف ‘‘کا لفظ تھا جسے تینوں جگہوں سے حذف کیا گیا ہے۔
اقرارنامہ کے آغاز میں ’’میں۔۔۔۔ (نامزد ا میدوار) حلفیہ اقرارکرتا ہوں کی جگہ ’ میں۔۔۔۔ (نامزد امیدوار) بذریعہ ہذا اقرار کرتا ہوں‘‘ کے الفاظ شامل کیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد یہ بل سینیٹ کو بھیجا گیاجہاں سے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھیج دیا گیا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری نے کہاہے کہ اراکین پارلیمان کے نامزدگی فارم سے ’’حلف‘‘کا لفظ نکال کر آئین و قانون کی نفی کی گئی ہے کیونکہ حلفیہ اقرارنامہ کسی بھی بات کی حلف پر تصدیق کرنا ہوتا ہے، اگرآج اس لفظ کو نامزدگی فارم سے نکالاگیا تو کل یہ مطالبہ کریںگے کہ ممبرقومی اسمبلی بنتے وقت جو حلف لیا جاتا ہے اس میں سے بھی ایسے الفاظ حذف کیے جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر عوامی عہدہ رکھنے والا حلف پرکوئی بات نہیں کرے گا تو اس اقرارکی کیا حیثیت ہوگی؟ انھوں نے کہاکہ اس بل کے ذریعے نہ صرف حلف کی اہمیت سے انکار کیا گیا ہے بلکہ آئین کے آرٹیکل62اورالیکشن قوانین پر حملہ کیا گیا ہے۔
سینیئر وکیل شیخ احسن الدین نے کہا کہ نامزدگی فارم سے حلف کا لفظ نکالناایک فارم کی بنیاد پرآئین کے آرٹیکل62،63 کومسترد کرنے کے مترادف ہے کیونکہ حلف کا لفظ نکالنے سے یہ حلفیہ بیان کے بجائے عام اقرار نامہ تصور ہوگا۔ قانونی طور پر ان دونوں بیانات کی الگ الگ حیثیت ہوتی ہے، الیکشن کمیشن کو دیے گئے اسی بیان کی بنیاد پر تو امیدوارکی اہلیت یا نااہلی کا فیصلہ کیا جاتا ہے، انھوں نے کہاکہ ایک فارم میں تبدیلی کرکے آرٹیکل62،63سے بچنے کا راستہ نکالاگیا ہے۔
حشمت حبیب ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس تبدیلی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور اس کے کوئی قانونی اثرات نہیں ہوسکتے، ان کا کہنا تھاکہ دنیا کے ہر قانون کی رو سے یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ملک کا ہرشہری ایمانداراور سچ بولنے والا ہوتاہے تاوقتیکہ وہ جھوٹا ثابت نہ ہوجائے، اس لیے صرف اقرار نامہ دیا جانا سچ تصور ہوگا تاہم اگرکوئی جھوٹ ثابت ہو جائے تو عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت اقرارنامہ دینے والے شخص کیخلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔