بیاد عاشق البدوی

شایان تمثیل  ہفتہ 16 فروری 2013

گزشتہ اتوار ہم نے عاشق حسین البدوی مرحوم کی یاد میں مضمون شائع کیا تھا جس کے جواب میں ہمیں کئی فون کالز، ای میل اور خطوط موصول ہوئے ہیں، جن میں قارئین نے عاشق البدوی مرحوم کی رحلت کی تعزیت کرنے کے ساتھ پرزور فرمائش کی ہے کہ گزشتہ مضمون میں بدوی مرحوم کی شخصیت کے حوالے سے تشنہ رہ جانے والے پہلوؤں کو مزید صراحت سے بیان کیا جائے اور سرّی و روحانی علوم کے حوالے سے ان کی تحقیقات اور مشقوں کو مرحلہ وار مضمون میں جگہ دی جائے۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ آرٹیکل میں بھی درخواست کی تھی کہ جن قارئین کے پاس بدوی مرحوم کی کتب اور خطوط ہوں وہ ان کی کاپی ہمیں ارسال کریں تاکہ ان میں سے اقتباسات لے کر عوام الناس کا بھلا کیا جاسکے۔

فیصل آباد سے شیخ محمد امین اور لاہور سے ٹائم پبلشرز کے عثمان شوکت نے بذریعہ ای میل تعزیت کا اظہار کیا ہے، آپ نے بدوی مرحوم کی کتب طلب کی ہیں، یقیناً کتابیں ہماری دسترس میں آئیں تو آپ کو بھیج دی جائیں گی، اس کے علاوہ عاشق حسین البدوی مرحوم کے روحانی طور پر شاگرد بنے کئی قارئین نے ہم سے رابطہ کرکے بتایا کہ وہ آرٹیکل پڑھنے سے پہلے بدوی صاحب کی وفات سے لاعلم تھے اور ہر اتوار اخبار میں بدوی مرحوم کا کالم تلاش کرتے تھے۔ ہم ان علم طلب قارئین کی تشفی کے لیے نفسیات و مابعد نفسیات اور روحانی علوم سے متعلق لٹریچر ان ہی صفحات پر سلسلہ وار پیش کرتے رہیں گے۔ اور اب بات ہوجائے کچھ عاشق حسین البدوی کے بارے میں۔

بدوی مرحوم سے ہماری آخری گفتگو ان کے ایکسیڈنٹ کے بعد ہوئی۔ شدید تکلیف کے عالم میں بھی ان کی آواز میں کہیں کوئی لغزش نہیں تھی، انھوں نے اپنے پرتاثر اور دبنگ لہجے میں ہمیں بتایا کہ کس طرح وہ 2K کی بس میں سفر کررہے تھے، اسٹاپ کے قریب پہنچ کر وہ سیٹ سے اٹھے اور دروازے تک آئے، انھوں نے ڈرائیور کو صحیح جگہ گاڑی روکنے کے لیے کئی بار دروازہ بجایا لیکن بس والا اپنی روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری گاڑیوں سے ریس لگانے میں مصروف تھا ایسے میں ایک تیز جھٹکے کے باعث بدوی صاحب کا ہاتھ چھوٹ گیا اور وہ فٹ پاتھ پر بائیں ہاتھ کے بل گرے جس سے ان کے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ بدوی صاحب نے اپنے آخری کالم میں اس واقعے کا تذکرہ کچھ اس انداز سے کیا ہے۔

’’ہم ٹریفک یا راستہ پار کرتے ہوئے اتنی احتیاط سے سڑک پار کرتے ہیں کہ لوگ ہمیں بزدل سمجھ کر مسکراتے ہیں۔ لوگ یہ نہیں جانتے کہ جس شخص نے1971 کی پاک و ہند جنگ میں شکر گڑھ، سیالکوٹ کے محاذ پر لڑتے ہوئے تمغۂ دفاع اور تمغۂ جنگ کے اعزاز لیے، جو افریقی ممالک صومالیہ، نیروبی، عدیس ابابا کے خطرناک حالات سے بچ کر آیا وہ اپنے ہی ملک میں ٹریفک ایکسیڈنٹ سے بچنے کی احتیاط کررہا ہے۔ لیکن پھر بھی بچ نہ سکا۔ 8 جولائی، اتوار کے دن صبح سوا دس بجے 2K بس والے نے تیزگام کی طرح بس چلاتے ہوئے ریگل چوک کے موڑ پر بس روکنے کے بجائے وہ جھٹکا دیا کہ ہم اچھل کر دروازے سے باہر جاگرے۔ ہمارے بائیں کہنی کے جوڑ کی ہڈی چرمرا گئی۔ ایک مسافر نے سول اسپتال پہنچایا، جہاں ہم جوڑ و ہڈی کے وارڈ I میں آپریشن کا انتظار کررہے ہیں۔‘‘

ہماری آخری گفتگو اس آپریشن سے ایک دن پہلے ہی ہوئی تھی۔ بدوی مرحوم کے سلسلے میں ہماری جنت خاتون علی محمد سے تفصیلی گفتگو ہوئی جو سندھی ادب کی معروف مصنفہ ہیں اور ’’ج، ع منگھانی‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ ج ع منگھانی کی چھ کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور اپنی کتابوں پر انھیں شاہ عبداللطیف ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ بدوی مرحوم کے بارے میں جنت صاحبہ نے بتایا کہ وہ ایک سندھی روزنامے کی ایڈیٹر تھیں، اسی روزنامے میں عاشق حسین البدوی مرحوم کا شاہ عبداللطیف بھٹائی پر کالم شائع ہوا، ج ع منگھانی چونکہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی زندگی اور تصنیفات پر کافی کچھ لکھ چکی تھیں اس لیے انھیں بدوی مرحوم کی منفرد تحریر نے چونکا دیا، وہ اس تحریر سے کافی متاثر ہوئیں اور یہی تحریر بدوی صاحب سے ان کا پہلا تعارف تھی۔ اسی دوران ج ع منگھانی کا سندھی ناول ’’رُنج‘‘ شائع ہوا جو قبل ازیں انڈیا میں بھی شائع ہوچکا تھا، بدوی صاحب نے اس کتاب کے سلسلے میں جنت صاحبہ سے رابطہ کیا اور ان کی تحریر کی تعریف کی۔ ج ع منگھانی کہتی ہیں کہ ایک ایسا مصنف جس کی وہ خود معترف تھیں اس کے منہ سے اپنی کتاب کی تعریف سننا ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھا۔

اسی دوران سندھی رسالے ’’سوجھرو‘‘ میں بدوی مرحوم کا سفرنامہ ’’کش باش‘‘ 9 ماہ تک قسط وار شائع ہوتا رہا، جس میں بدوی مرحوم نے افریقہ میں گزارے اپنے سحر انگیز دنوں کا تذکرہ کیا تھا، یہ روحانیت اور رومانیت سے بھرپور تحریر تھی۔ بدوی مرحوم نے اس سفرنامے میں اپنے ان کہے عشق کی داستان بیان کی ہے کہ کس طرح افریقہ میں انھیں ایک جاپانی لڑکی ملی جسے وہ دل ہی دل میں چاہنے لگے تھے لیکن باوجود خواہش کے بھی وہ اپنی محبت کا اظہار نہیں کرسکے اور وہ جاپان واپس چلی گئی۔ اپنے عشق کی ناکامی پر وہ لکھتے ہیں کہ ’’ایک چاندنی رات تھی اور مجھے ایسا لگا کہ میں کچھ نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

ج ع منگھانی نے اظہار خیال کیا عاشق بدوی ایک بہترین انسان تھے اور انھیں فنون لطیفہ کے ہر موضوع پر دسترس حاصل تھی، چاہے وہ ستاروں کا علم ہو پتھروں کا، ڈاکٹری ہو یا نفسیات و مابعد نفسیات اور روحانی علوم، آپ جس موضوع پر بولتے مخاطب کو اپنی گفتگو کا اسیر کرلیتے۔ جنت صاحبہ نے بتایا کہ ایک بار بدوی صاحب نے ان سے لدھا ستارہ کے بارے میں دریافت کیا جس کا تذکرہ شاہ لطیف کی شاعری میں بھی ہے۔ منگھانی صاحبہ کہتی ہیں کہ بدوی مرحوم ایک عظیم اور علم دوست انسان تھے، وہ مشکور ہیں کہ بدوی صاحب نے اپنے قیمتی علم کے جواہر سے انھیں روشناس کرایا۔

بدوی مرحوم نے اپنی NGO ’عنخ فاؤنڈیشن‘ کے فاؤنڈر چیئرمین کی حیثیت سے سندھ، بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں مفت آئی آپریشن کے کئی کیمپ لگائے۔ نظر کی عینک سے نجات کے لیے بدوی صاحب نے سرش آسن کی ورزش بتائی ہے جو ہم یہاں دوبارہ شامل کررہے ہیں۔

’’کمرے کے کونے میں دونوں دیواروں کے بیچ کمبل کے چارتہہ کرکے بچھائیں۔ پھر کمبل کے وسط میں ہاتھ سے کہنی تک دونوں بازو رکھ کر، انگلیاں آپس میں ملا کر اس کا ایک پیالہ بنائیں کہ چھوٹی انگلیوں والا حصّہ کمبل کو چھورہا ہو۔ اب سر کی چوٹی کو اس طرح دونوں ہاتھوں کے وسط میں رکھیں کہ پیالہ سر کی پشت سے چھورہا ہو۔ پھر فرش پر رکھے ہوئے گھٹنوں کو سر کے قریب لاتے ہوئے ایک آرام دہ جھٹکے سے اپنا نچلا دھڑ اوپر لے جائیں کہ کولہے دیواروں سے لگ جائیں، جس کے بعد ٹانگیں سیدھی کرلیں اور پاؤں کی انگلیاں آسمان کی جانب ہوں۔ دو بازوؤں کے بیچ کا فاصلہ آپ کے کندھوں کی چوڑائی کے برابر ہو۔ سر کی پشت، دھڑ، رانیں اور ایڑیاں سب سیدھ میں ہوں۔ رانیں، گھٹنے، ٹخنے اور پاؤں کی انگلیاں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں۔ جسم کا سارا وزن ہاتھوں کہنیوں کے بجائے سر کی چوٹی کے ایک روپیہ برابر مرکز پر ہو۔ اس مشق کا وقت ابتدا میں 2-5 منٹ ہو، پھر دو ماہ کے اندر اس کا دورانیہ 10-15 منٹ تک لے آئیں۔ مشق ختم ہونے کے بعد آرام سے گھٹنوں کو بل دے کر فرش پر لا کر پانچ منٹ تک لیٹ جائیں کہ الٹی دنیا سیدھی ہوجائے۔ اس مشق میں اہم ترین بات یہ ہے کہ چھ ماہ کے دوران چشمہ بالکل استعمال نہیں کریں گے ورنہ بینائی اسی نظری نمبر پر رکی رہے گی۔ ہائی یا لو بلڈپریشر، دل کی بیماری، ریڑھ کی ہڈی کی خرابی والے حضرات و خواتین ہرگز ہرگز یہ مشق (سِرش آسن) نہ کریں۔‘‘

آخر میں قارئین کرام اور ڈاکٹر بدوی کے رفیقان قلم اور دانشور دوستوں سے ایک بار پھر التماس ہے کہ اگر ان کے پاس بدوی مرحوم کے حوالے سے معلومات اور کچھ یادیں ہوں تو ضرور قلمبند کرکے ہمارے نام بتوسط ایڈیٹوریل ڈپارٹمنٹ، ایکسپریس، کراچی کو ارسال کریں یا ہمارے ای میل ایڈریس پر روانہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔