مسابقت کا فائدہ

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  ہفتہ 16 فروری 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ دہائی کا ایک واقعہ ہمیں اس وقت یاد آیا جب پنجاب میں میٹرو بس سروس کے بارے میں خبریں سنیں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں ایک غیرملکی مشروب کی کمپنی نے اپنی بوتل کی قیمت میں کمی کردی، جواباً دوسری کمپنی نے بھی قیمت کم کردی، اس کے بعد ایک مرتبہ پھر پہلی کمپنی نے قیمت کم کردی، نتیجتاً دوسری کمپنی نے پھر دوبارہ قیمت کم کردی یوں مقابلہ جاری رہا۔ اس مسابقت میں ہم جیسے مشروب کے شوقین افراد کی قسمت کھل گئی اور مشروب کی وہ بوتل جو قیمت میں 15 روپے تک جا پہنچی تھی، کم ہوتے ہوتے 6 روپے تک پہنچ گئی۔ اس وقت ہمیں یہ معلوم ہوا کہ مسابقت کے عوام کے لیے بہت اچھے نتائج بھی ہوتے ہیں۔ برسوں بعد جب ہم نے پنجاب کے عوام کو میٹرو بس سروس کا تحفہ حاصل کرتے دیکھا تو یہ احساس ایک مرتبہ پھر ہوا کہ اگر یہ مسابقت سیاست میں بھی ہو تو عوام کے مزے آجائیں۔

خیر سے پنجاب کے عوام اس وقت دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ خوش قسمت ہیں کیونکہ آئندہ الیکشن میں ’’سیاسی مسابقت‘‘ یہاں زوروں پر ہے۔ دیگر صوبوں میں چونکہ ووٹر کا مسابقتی معاملہ خاصا کمزور، یعنی کچھ ایسا ہے کہ امیدواروں کو پہلے ہی اندازہ ہے کہ کون سی جماعت واضح اکثریت حاصل کرے گی اس لیے ان صوبوں میں عوام کو فائدہ پہنچانے کا مقابلہ یا مسابقت زوروں پر نہیں۔ پنجاب کے ووٹرز کا ابھی اندازہ کچھ اس طرح ہے کہ ’’کہانی‘‘ پلٹ بھی سکتی ہے، چنانچہ ہر جماعت اپنے تئیں کوشش میں ہے کہ کہانی اس کے حق میں پلٹ جائے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ دیگر صوبوں کی عوام نے اپنے سیاسی رہنماؤں کو اپنے داؤ پیچ دکھائے ہوں یا نہ دکھائے ہوں، مگر پنجاب کے عوام نے ان تمام رہنماؤں کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے جو الیکشن کے میدان میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ پنجاب کے عوام نے یہ ہنر سیکھ لیا ہے کہ اپنے حلقے کو کسی ایک جماعت کا مضبوط گڑھ نہ بننے دیا جائے بلکہ مقابلہ ’’کانٹے‘‘ کا بنایا جائے تاکہ تمام امیدوار ان کے ناز نخرے اٹھائیں۔

پنجاب کے عوام کی یہ ذہانت ماننے والی ہے اور دوسرے صوبوں کے عوام کے لیے قابل تقلید بھی ہے اور حقائق بھی یہی ہیں۔ سب سے بڑی مثال صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں واقع لیاری کی لے لیجیے۔ سردی ہو کہ گرمی یا خزاں بہار، ہر موسم میں وہاں صرف پاکستان پیپلز پارٹی بلکہ یوں کہیے کہ بھٹو کے نام کا سکہ چلتا ہے۔ الیکشن ہونے اور میلہ جمنے سے قبل ہی صرف وہاں کے عوام کا فیصلہ ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر مبصر کی رائے بھی یہی ہوتی ہے کہ یہاں سے صرف بھٹو نام پر کھڑے ہونے والا شخص ہی جیتے گا۔

بات بالکل سیدھی سمجھ میں آنے والی ہے کہ جب امیدوار کو پہلے ہی فیصلے کا علم ہو کہ فلاں جیتے گا اور فلاں نہیں جیتے گا تو بھلا الیکشن میں کھڑے ہونے والے امیدوار لیاری کے عوام کو سہولتیں کیوں دیں گے اور کیوں وہ وعدہ وفا کریں گے؟ پاکستان کے تمام حلقہ انتخابات میں سب سے مضبوط گڑھ لیاری بھٹو نام کا ہے، لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھٹو سے محبت کرنے والوں کے علاقے میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام ہوتے، سب سے زیادہ تعلیم و صحت کی سہولیات اہل لیاری کو حاصل ہوتیں، مگر ایسا نہ ہوا۔ وہاں تو منشیات، جہالت اور دہشت گردی کے تحفے دیے گئے اور بھٹو کے نعرے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا خواب اس چھوٹے سے حلقے میں بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

شاید لیاری والوں کا حال دیکھ کر ہی اہل پنجاب نے ووٹ تقسیم کرنے کی وہ کامیاب پالیسی اپنائی ہے کہ عوام کو تقسیم کرنے والے سیاسی رہنما بھی اپنی چال بھول گئے اور وہ اس بات پر مجبور ہوگئے کہ اہل پنجاب کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دے کر ان کے دل جیتیں اور ووٹ حاصل کریں۔

یہ بات منطقی بھی ہے اور حقیقی بھی کہ جب کسی انسان کو کسی دوسرے انسان کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اس سے رابطہ بھی کرتا ہے اور میل جول بھی رکھتا ہے اور برے وقت میں کسی قدر کام بھی آتا ہے، اگر کسی انسان کو دوسرے انسان کی ضرورت ہی نہ پڑے تو بھلا وہ اس کے کام کیسے آسکتا ہے؟

ہمیں اس وقت ایک واقعہ صدر ضیاء الحق کے زمانے کا بھی یاد آرہا ہے جو ہمارے مذکورہ بالا خیالات کی تائید کرتا ہے۔ ہوا یوں کہ کونسلر کے انتخابات سر پر آگئے، عین اسی وقت ہمارے علاقے میں پانی کا بحران شدت اختیار کرگیا۔ ایک روز ہم گھر پر بیٹھے امتحان کی تیاری کر رہے تھے کہ ہمیں باہر شوروغل اور نعروں کی آواز آئی۔ ہم نے باہر جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ پانی کا ایک ٹینکر گلی میں آیا ہوا ہے اور محلے کے بچے بڑے اپنے برتن لے کر بھاگے بھاگے پانی حاصل کر رہے ہیں، ٹینکر پر ایک شخص چھتری لے کر کھڑا تھا، کچھ لمحوں بعد وہ ٹینکر کو آگے لے جانے کا اشارہ کرنے لگا اور زور دار نعرہ لگایا ’’چھتری والا آوے ہی آوے‘‘۔

اس کے بعد گلی کے اگلے کونے پر جاکر پھر عوام کو پانی فراہم کرنے لگا اور یہی نعرہ لگانے لگا ’’چھتری والا، آوے آوے‘‘۔ تب ہماری سمجھ میں آیا کہ جو صاحب الیکشن میں چھتری کے نشان سے الیکشن لڑ رہے تھے انھوں نے عوام کے دل جیتنے کے لیے پانی کی یہ سہولت عوام کی دہلیز تک پہنچائی تھی۔ اس سارے تجزیے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں اور یقیناً آپ قارئین بھی یہی نتیجہ اخذ کر رہے ہوں گے کہ پنجاب کے عوام خاص کر ’’زندہ دلان لاہور‘‘ ترپ کا صحیح پتہ استعمال کر رہے ہیں، جس سے انھیں کوئی بڑی کامیابی حاصل ہو نہ ہو ’’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘ کے مصداق کم ازکم الیکشن کے موقع پر ٹرانسپورٹ کی سہولت تو ملی۔

اب دوسرے صوبوں کے عوام خاص کر کراچی کے عوام جہاں ٹرانسپورٹ کا سب سے بڑا مسئلہ عرصہ دراز سے موجود ہے، یہ سوچ رہی ہے کہ اے کاش! ادھر بھی سیاسی رہنماؤں میں مسابقت کی فضا پیدا ہو تاکہ اور کچھ نہیں تو کم ازکم ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہی حل ہوجائے۔ سابقہ دور میں کراچی شہر میں سیاسی قوتوں کے درمیان ’’مسابقت‘‘ بڑھ کر ’’تعارض‘‘ میں تبدیل ہوگئی تھی جس کا خمیازہ عوام اب تک بھگت رہی ہے، ہماری دعا ہے کہ یہ ’’تعارض‘‘ کی فضا ختم ہو اور ’’مسابقت‘‘ میں تبدیل ہوجائے۔ پنجاب کے عوام نے دیگر صوبوں کے لوگوں کو ایک اچھا راستہ دکھایا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو عوام کو تقسیم کرنے والوں کو خود ’’تقسیم‘‘ کرسکتے ہیں اور فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔