امریکا، بھارت کے ذریعے سی پیک منصوبہ و کشمیر کاز کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 28 اگست 2017
پاکستان کوسفارتی محاذ پر بہتر کام کرنا ہوگا، شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان کوسفارتی محاذ پر بہتر کام کرنا ہوگا، شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں جنوبی ایشیاء خصوصاََ پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے اپنی نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز اور ہمیشہ کی طرح ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کیا ہے جبکہ بھارت کو افغانستان میں مثبت کردار ادا کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ’’جنوبی ایشیاء کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی پالیسی اور اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پر گزشتہ دنوں ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

محمد مہدی (ماہر امور خارجہ و رہنما پاکستان مسلم لیگ ن)

ٹرمپ کی پالیسی ،اوباما پالیسی کا تسلسل ہے مگر اس میں کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ افغان جنگ میں اربوں ڈالر خرچ ہوئے جن کا 5فیصد بھی پاکستان پر خرچ نہیں ہوا جبکہ ہم نے قربانیاں دیکر دہشت گردی کا خاتمہ کیا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکا کا زیادہ مسئلہ سی پیک منصوبہ ہے کیونکہ اس پر تیزی سے کام نے امریکا کو پریشان کررکھا ہے۔ امریکا، بھارت کو سپورٹ کررہا ہے اور وہ خطے میں اس کا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ ٹرمپ نے افغانستان میں بھارتی مثبت کردار کی بات کی اور اسے وہاںاپنا کردار بڑھانے کا بھی کہا جبکہ بھارتی ماہرین ،بھارت کو ایسا کرنے سے منع کررہے ہیں۔ طالبان اور القاعدہ سے زیادہ بھارت ہمارے لیے مسئلہ ہے، وہ افغانستان میں پاکستان مخالف قوتوں کو مدد فراہم کررہا ہے لہٰذا ہمیں عالمی سازشوں کو سمجھ کر من حیث القوم ملکی مفاد میں کام کرنا ہوگا۔ امریکا کو جمہوریت نہیں صرف اپنے مفادات میں دلچسپی ہے۔ نواز شریف کو ہٹانے کے بعد حکومت کمزور ہوگئی ہے جس کا فائدہ دشمن اٹھا رہے ہیں۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ ملکی مضبوطی کیلئے جمہوریت کو جاری رکھیں اور صرف انتخابات کے ذریعے ہی حکومت کی تبدیلی لائیں بصورت دیگر ملک مزید کمزور ہوسکتا ہے۔ سیاست کرنا سب کا حق ہے مگر ملکی مفاد کے معاملے پر تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھے بیٹھنا چاہیے اور معاملات طے کرنے چاہئیں۔ ٹرمپ کی پالیسی میں کوئی نئی بات نہیں ہے لہٰذا ہمیںا س سے گھبرانا نہیں چاہیے اور نہ ہی لڑائی کی طرف جانا چاہیے۔ ٹرمپ نے اس پالیسی کے حوالے سے یورپی یونین سے مکمل مشاورت نہیں کی جسے جرمنی نے واضح کردیا ہے۔ اس چیز کو سمجھتے ہوئے ہمیں اپنے دوست و دیگر ممالک کے ساتھ اس پر بات کرنی چاہیے ۔ ٹرمپ اپنے مفادات کے حصول کیلئے مختلف ممالک پر دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔ اس کا انہیں فائدہ بھی ہوتا رہا ہے اور اب بھی انہوں نے ایسا ہی کیا ہے۔ مجھے مستقبل قریب میں پاکستان پر کوئی پابندی لگتی ہوئی نظر نہیں آرہی اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ پاکستان کا نام دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے والے ممالک کی فہرست میں ڈال دیا جائے۔

جنرل (ر) زاہد مبشر شیخ (دفاعی تجزیہ نگار)

گزشتہ پانچ ماہ سے امریکا میں اس پالیسی پر کام ہورہا تھا مگر بدقسمتی سے پاکستان سے ایک بھی وفد اس حوالے سے بات چیت کرنے امریکا نہیں گیا ۔ ٹرمپ کی پالیسی پاکستان کے حوالے سے نامکمل معلومات پر مبنی ہے اور خصوصاََ وہ معلومات جو اسے پاکستان مخالف قوتوں اور ہمارے دشمن ملک بھارت نے دی ہیں، پر منحصر ہے۔ بھارت سفارتی محاذ پر بہت متحرک ہے جبکہ ہمارے ہاں گزشتہ ساڑھے چار برس سے فارن منسٹر ہی نہیں تھا۔ اب وزیر خارجہ مقرر کیے گئے ہیں مگر وہ بھی متحرک نہیں ہیں۔ ہمیں اب بھی خود کو سفارتی محاذ پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی میں دھمکی بھی ہے اور موقع بھی، اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے امریکا کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات رکھنے ہیں ۔ اس خطے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ چین پہلی مرتبہ عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے، سی پیک منصوبے کی وجہ سے چین، روس، پاکستان کے درمیان تعاون بڑھ رہا ہے جو امریکا کو پسند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس نے ایک سخت پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کا جواب پاکستان سے پہلے چین نے دیا اور پاکستان کو مکمل سپورٹ کیا۔ اب ایک بار پھر ماضی جیسی صورتحال ہمارے سامنے ہے اور ہمیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ امریکا کی دوستی ہمارے سامنے ہے کہ وہ کتنا مخلص اور وفادار ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے امریکی امداد لینے سے انکار کیاجبکہ جنرل (ر) پرویز مشرف امریکا سے بہت کچھ منوا سکتے تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔ میرے نزدیک ہمیںامریکا کے ساتھ جنگ یا خراب تعلقات کی طرف نہیں جانا چاہیے بلکہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ امریکا سے جو سفیر اور حکومتی اراکین یہاں آئے انہوں نے پاکستان کی کاوشوں کو سراہا اور یہ بیان دیا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں۔ اب امریکا کی جانب سے ان جماعتوں کا نام لیا جارہا ہے جن کا افغانستان یا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ کشمیر کاز کو سپورٹ کرتی ہیں۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ہم نے اس جنگ میں 95فیصد کامیابی حاصل کی جو دنیا میں سب سے زیادہ کامیابی کی شرح ہے مگر افسوس ہے کہ ہم اسے عالمی سطح پر صحیح معنوں میں اجاگر نہیں کرسکے اور اس کی وجہ کمزور سفارتکاری ہے۔ ہم ایک مضبوط ملک اور ایٹمی طاقت ہیں لہٰذا کوئی بھی ملک ہمارے ساتھ جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم کمزور ہوتے اور ہماری افواج میں صلاحیت نہ ہوتی تو آج پاکستان کا حال بھی عراق، شام اور مصر جیسا ہوتا۔ ہمیں اپنی طاقت اور کمزوریوں کو مد نظر رکھ کر پالیسی بنانی چاہیے اور اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لیکر چلنا چاہیے۔ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، ہمیں شخصیات کے بجائے اداروں اور ملک کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ٹرمپ کی پالیسی سے آسمان نہیں گرا۔ امریکا کے 40فیصد لوگ تو ٹرمپ کی حکومت ختم کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ امریکا ، پاکستان میں مزید ڈرون حملے کرسکتا ہے لیکن اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ ایران اور شمالی کوریا امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں، ہمیں بھی برابری سطح پر معاملات رکھنے چاہئیں کیونکہ ہم ایک مضبوط ایٹمی طاقت ہیں۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ (سیاسی تجزیہ نگار و ماہر امور خارجہ)

ٹرمپ کی پالیسی ’’یوٹرن‘‘ ہے کیونکہ سابق امریکی صدر اوباما نے افغانستان سے فوجی انخلاء کی بات کی مگر اب ٹرمپ ہر حال میں جنگ جیتنے کی بات کررہے ہیں اور 16برس میں امریکی فوج کی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹہرا رہے ہیں۔ امریکا کی اس پالیسی کا مقصد بھارت کو خوش کرنا ہے کیونکہ اس کے ذریعے وہ اس خطے میں سی پیک منصوبہ، چین اور روس کے بڑھتے ہوئے کردار کو روکنا چاہتا ہے۔ بھارت اس خطے میں امریکا کا سٹرٹیجک پارٹنر ہے اور وہ امریکا کے مفادات کیلئے کام کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے تاکہ کشمیر کاز کو سبوتاژ کیا جاسکے کیونکہ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے کشمیر موومنٹ شدت سے چل رہی ہے جس پر قابو پانا بھارت کے لیے ناممکن ہوچکا ہے۔ ٹرمپ نے اب حقانی نیٹ ورک نہیں بلکہ ان تنظیموں کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق کسی بھی صورت افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی سے نہیں ہے بلکہ یہ سب کشمیر کی آزادی کے حق میں ہیں ۔ امریکا کشمیر کی تحریک آزادی کو عالمی دہشت گردی قرار دیکر اسے ناکام بنانا اوربھارت کے مفادات کو تحفظ دینا چاہتا ہے۔ دہشت گردی کی یہ جنگ ہماری نہیں بلکہ امریکا کی تھی جسے ہم نے اپنے ذمے لے لیا ، بیشمار قربانیاں دیں اور نقصان بھی اٹھایا۔ اس جنگ میں ملنے والی امداد سے ہمارا انفراسٹرکچر نہیں بنا بلکہ وہ ملٹری امداد تھی جو اس جنگ پر خرچ ہوئی۔ امریکا کے اتحادی بننے کا فیصلہ پارلیمنٹ نہیں بلکہ ایک فرد واحد نے کیا جس کی وجہ سے پاکستان مسائل سے دوچار ہوا اور اب صورتحال یہ ہے کہ امریکا ہمیں دھمکا کر ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کررہا ہے۔ میرے نزدیک ہمیں امداد کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی لینی چاہیے بلکہ ہمیں اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہوگا۔ امریکا اب تسلیم کرتا ہے کہ عراق جنگ بہت بڑی غلطی تھی۔ میرے نزدیک اس غلطی کو دہرایا جا رہا ہے۔ امریکا افغان طالبان سے جنگ نہیں جیت سکتا۔ افغانستان کے 50فیصد علاقے پر طالبان کی حکومت ہے اور انہیں وہاں کے لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہیں ورنہ 10برس بعد امریکا پھر کہے گا کہ افغان جنگ اس کی غلطی تھی اور اس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا۔ بھارت کا افغانستان میں بڑھتا ہوا عمل دخل درست نہیں، وہ وہاں داعش کو جگہ فراہم کررہا ہے۔ اس کے علاوہ جو طالبان ،پاکستان کے دشمن ہیں انہیں ہر قسم کی معاونت فراہم کر کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو متاثر کر رہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے امریکا اور افغانستان کی مخالفت کے باوجود سرحدوں کو محفوظ بنایا ہے، باڑ لگائی ہے اور 800 چیک پوسٹیں بھی قائم کی ہیں تاکہ دہشت گردوں کی نقل و حمل کو روکا جاسکے مگر پھر بھی پاکستان کو مورد الزام ٹہرایا جارہا ہے۔ چین نے پاکستان پر دہشت گردوں کی مدد کے تمام تر امریکی الزامات کو رد کیا۔ چین، طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات کو بہتر کرنا چاہتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اقتصادی عمل سے خطے میں امن قائم ہوجائے گا۔

ڈاکٹر میاں حنان احمد (سیاسی و دفاعی تجزیہ نگار)

ٹرمپ کی پالیسی، پرانی پالیسی کا تسلسل ہے تاہم اس میں سختی نظرآئی ہے اور اب وہ پاکستان اور اس خطے کے حوالے سے آپریشن و دیگر اقدامات میں مزید سختی برتیں گے۔ سی پیک منصوبے کی وجہ سے امریکا چاہتا ہے کہ وہ اس خطے میں موجود رہے ۔ اوباما نے فوجی انخلاء کی بات کی تھی مگر ٹرمپ نے 4 ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا کہا ہے۔ چین نے پاکستان میں بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہے، اس کے یہاں مفادات ہیں، ہمارے مفادات بھی چین سے منسلک ہیں مگر اس سب کے باوجود ہمیں امریکا کے ساتھ لڑائی میں نہیں پڑنا چاہیے بلکہ اس کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری دفاعی ٹیکنالوجی امریکی ہے۔ ٹرمپ پالیسی کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔ ایک سی پیک منصوبے کے ذریعے چین کا بڑھتا ہوا اثر ورسوخ کم کرنا جبکہ دوسرا بھارتی مفادات کو سپورٹ کرکے اس کے کردار کو بڑھانا ہے۔ اس وقت امریکا بھارت کے ساتھ کھڑا ہے، یورپی یونین و عرب امارات امریکا کے ساتھ ہیں لہٰذا مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ہمیں امریکا کی ضرورت پڑے گی۔ اس لیے ہمیں تعلقات کو خراب ہونے سے بچانا ہوگا لیکن اگر پاکستا ن نے امریکا کے ساتھ تعلقات خراب کیے تو پھر یورپی یونین اور اسلامی ممالک کا دباؤ بھی پاکستان پر بڑھے گا۔ میرے نزدیک پاکستان کو سفارتی محاذ پر بہتر پرفارم کرنا ہوگا۔ چین نے امریکی پالیسی کے خلاف پاکستان کو سپورٹ کیا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اقتصادی تعاون سے خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے اسی لیے وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا حامی ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی ٹیکنیکل ہے۔ خاص کر اس وقت میں جب اس ملک میں سیاسی حکومت کمزور ہے، ایسی صورت میں اسے دباؤ بڑھانے کا موقع ملا ہے۔فوج چاہے جتنی بھی مضبوط ہو، اگر سیاسی حکومت کمزور ہو تو دشمن کو سر اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ ابھی صرف پالیسی کا اعلان ہوا ہے، اس کا فریم ورک بنے گا تو پھر معلوم ہوگا کہ کیا ہونے جارہا ہے اور کس طرح ہوگا تاہم پاکستان کو واضح موقف اپنا کر کشیدگی کی طرف نہیں بڑھنا چاہیے بلکہ ڈپلومیسی سے معاملے کو سنبھالنا چاہیے۔ امریکا سرجیکل سٹرائیک و ڈرون حملے کرسکتا ہے مگر اس سے مسائل پیدا ہوں گے ۔ n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔