آپ نے تو وہ منظر نہیں دیکھا…

شیریں حیدر  ہفتہ 16 فروری 2013
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

آپ نے یہ منظر اس لیے نہیں دیکھا کہ آپ اس وقت اس کرسی پر نہیں بیٹھے ہوئے تھے جس پر میں بیٹھی ہوئی تھی … مجھے اندازہ ہوا کہ to be in somebody else’s shoes کا محاورہ تھوڑا سا بدل کر to be on somebody else’s chair بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کرسی پر بیٹھے ہوئے یہ ننھے ننھے بچے سب کے سب مجھے اپنے بچے محسوس ہوتے ہیں، ان کی آنکھ سے ٹپکنے والا آنسو میرے دل پر گرتا ہے… ان کے وجود کی چوٹ مجھے اپنے وجود پرمحسوس ہوتی ہے… یہ منہ بسورتے ہیں تو میرے دل کی دھڑکنیں miss ہونے لگتی ہیں۔ پانچ سال کا وہ ننھا سا دل… جو اس بچے کے وجود میں دھڑک رہا تھا، اس کی دھڑکنوں کی تال میرے کانوں کو اتنے فاصلے سے سنائی دے رہی تھی، فاصلہ بھی کتنا تھا، میری تین فٹ کی دفتری میز کے سامنے دھری دو کرسیوں پر اس کے والدین بیٹھے تھے اور وہ ان کے پاس کھڑا تھا۔

اتنے مہنگے سکول میں اس بچے کو پڑھانے والے والدین… اس وقت مجھ سے بحث کے ساتھ ساتھ ہر تھوڑی دیر کے بعد بات کا سرا پکڑتے ہوئے اس معصوم کو ایک نئے لقب سے نوازتے۔ ’’ کسی نالائق کی اولاد…‘‘ کہہ کر اس کے باپ نے بات کرنا چاہی تو میرا دل ٹھٹھے مار کر ہنسنے لگا اور چاہنے لگا کہ میں ان سے ان الفاظ کا مطلب پوچھوں کہ آیا وہ اپنے نالائق ہونے کا اقرار کر رہے تھے یا اس معصوم کی ولدیت سے انکار… مگر بہت سے لحاظ مانع آ گئے اور میں نے دل کی خواہش کو دل میں ہی دبا لیا، ہزاروں اور خواہشوں کی طرح۔

’’دیکھیں… یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے!!‘‘ میں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی، ’’ آپ کو یہ بات کرنا تھی تو بچے کو ساتھ لانے کی ضرورت نہیں تھی، آپ بچے کو باہر اس کی ٹیچر کے پاس بھجوا دیں اور ہم اس کی عدم موجودگی میں بہتر انداز سے بات کر سکیں گے… ‘‘ ( چھٹی کا وقت تھا اور وہ والدین اپنے بچے کو ٹیچر سے وصول کر کے لائے تھے)

’’اسی… کے سامنے تو بات کرنا ہے کہ اسے اندازہ ہو کہ اس نے کیا کیا ہے!!! ‘‘ والد صاحب نے غصے میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرنا شروع کر دیا اور مجھے اس بات کا یقین ہو گیا کہ انسان کتنی بھی ترقی کر لے، چاند تاروں کو چھو لے، ٹیکنالوجی کی انتہاؤں پر پہنچ جائے مگر تین مواقع ایسے ہوتے ہیں جب وہ اپنے اصل میں نظر آتا ہے… اس کی سوچ ہمیشہ اس کی مادری زبان میں ہوتی ہے، اس کے غصے کا اظہار بھی اس کی اصلیت ظاہر کر دیتا ہے اور جب وہ اپنے رب سے دعا کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے اور اس کے رب کے درمیان اور کوئی سننے والا نہیں تو وہ اپنی مادری زبان میں بولتا ہے۔
’’مما… ‘‘ ایک معصوم سی آواز آئی مگر ’’ مما‘‘ اس وقت ’’ نو لفٹ‘‘ کا بورڈ ماتھے پر لگائے بیٹھی تھی تا کہ اس کے والد کی بھر پور تائید ہو سکے۔

’’اچھا آپ کیا چاہتے ہیں؟ ‘‘ میں نے ان سے سوال کیا۔
’’اس سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس نے کہاں غلطی کی، کیا یہ اس کا failure ہے یا سکول کی ٹیچرز کا؟‘‘
’’دیکھئے آپ بالکل اس بات کا احساس نہیں کر رہے کہ آپ پانچ سال کے ایک بچے کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس نے کلاس میں ننانوے اعشاریہ پانچ فیصد نمبر لے کر دوسری پوزیشن حاصل کی ہے!!!‘‘

’’ہاں تو کہاں کھوئے اس نے وہ اعشاریہ پانچ فیصد نمبر؟ ‘‘ ماں نے میز پر تقریباً مکہ مارنے کے انداز میں ہاتھ رکھا۔
’’اس عمر کا ہر بچہ ایک جیسی قابلیت رکھتا ہے اور کچھ فیصد کے فرق سے ہی کلاس میں پوزیشنیں بنتی ہیں… ‘‘
’’یہی تو ہم پوچھ رہے ہیں کہ جتنی محنت ہم اس پر کرتے ہیں اور جتنی رقم ہم اس کے لیے خرچ کرتے ہیں اس کے بعد بھی اگر اس نے ہمیں اسی طرح بے عزت کرنا ہے تو… ‘‘ والد صاحب نے میری بات کاٹتے ہو ئے سوال کیا۔ یہ بھی شکر ہے کہ وہ اس وقت میرے دفتر کے آداب ملحوظ رکھتے ہوئے اسے زدوکوب کرنا نہیں شروع ہو گئے تھے، بلکہ میرا خیال ہے کہ کر لیتے تو بہتر ہوتا، اس ذہنی تشدد سے وہ کہیں بہتر ہوتا۔ میرے پاس ایک چھوٹی کرسی دھری تھی، میں نے اسے اس پر بیٹھنے کو کہا ۔

’’یہ ہرگز یہاں نہیں بیٹھ سکتا… ‘‘ ماں نے اسے بازو سے زور سے پکڑ لیا۔
’’آپ لوگ تشریف لے جائیں پلیز… ‘‘ میں اٹھ کر کھڑی ہو گئی ، ’’ سکول کی حدود میں یہ بچہ میرا ہے اور آپ اس سے زیادہ اس کے ساتھ نہیں کر سکتے… میں تو اسی لیے اس بات کی حامی نہیں کہ اس عمر کے بچوں کے امتحانات ہوں! ‘‘
’’جب تک امتحانات نہیں ہوں گے کس طرح علم ہو گا کہ بچوں کی قابلیت کیا ہے اور انھیں زندگی میں کس طرح مسابقت کی فضا میں جینا ہے!!!‘‘ والد صاحب بھی اٹھ کر کھڑے ہو گئے، ’’ ہم اس کے لیے دونوں محنت کرتے ہیں اور اس ایک کے اخراجات اتنے ہیں کہ ہم کوئی اور بچہ بھی afford نہیں کر سکتے!!! ‘‘

’’آپ نے کیا افورڈ کرنا ہے، رب اور رازق تو اللہ تعالی ہے… ٹھیک ہے آپ محنت کر رہے ہیں تو وہ غریب آپ کو نتائج بھی دے رہا ہے…‘‘ ( اس غریب کو میں نے آیا کے ساتھ باہر بھجوا دیا تھا )
’’کیا نتائج دے رہا ہے… دوسری پوزیشن؟ ‘‘ ماں نے فوراً کہا، ’’ میں اسے ہمیشہ پہلے نمبر پر دیکھنا چاہتی ہوں… اس سے کم ہرگز نہیں!!‘‘
’’اگر آپ کی یہ خواہش اتنی شدید ہے تو میں اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسے اعشاریہ پانچ نمبر دے کر پہلی پوزیشن دے دیتی ہوں!! ‘‘ میں نے بصد کوشش لہجے میں نرمی پیدا کی۔

’’ہرگز نہیں… ہمیں اس کے لیے بھیک نہیں چاہیے… بلکہ میں اس لڑکی سے ملنا چاہوں گی جس نے اس سے پہلی پوزیشن چھین لی ہے اور اسے دکھانا چاہوں گی کہ وہ کس سے مات کھا گیا ہے! ‘‘
’’یا اللہ… کیسے مشکل والدین ہیں آپ… آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ کا بیٹا علی ، لڑکا ہونے کے باوجود کتنا فرمانبردار اور سوبر بچہ ہے، وہ کلاس لیڈر ہے، ٹیچر کی بات مانتا ہے اسپورٹس میں دلچسپی لیتا ہے، کسی سے جھگڑا نہیں کرتا، کلاس فیلوز کی عزت کرتا ہے، اپنا کام وقت پر مکمل کرتا ہے، اس کا یونیفارم اور کتابیں صاف اور مکمل ہوتے ہیں اور وہ کہیں پر کوئی گندگی پڑی ہوئی دیکھے تو اسے اٹھا کر قریبی کوڑا دان میں ڈال دیتا ہے… قطار کو توڑ کر آگے بڑھنے کو کوشش نہیں کرتا، اپنی نشست سے اٹھتا ہے تو اپنی کرسی درست حالت میں رکھتا ہے،کسی کو گالی نہیں دیتا…‘‘

’’بس بس… یہ سب تو آپ اسے سکھا چکے ہیں ، جانتے ہیں ہم! ‘‘ والد صاحب نے میری چلتی ’’ گاڑی‘‘ کو روکا، ’’ بلکہ لگتا ہے کہ آپ نے تو کسی حد تک اسے بزدل سا بنا دیا ہے! ‘‘
مجھے خود پر دکھ ہوا کہ میں کن بھینسوں کے آگے بین بجا رہی تھی… ’’ مجھے کچھ کام ہے اس لیے معذرت چاہتی ہوں!‘‘ کہہ کر میں نے اپنے دفتر کو چھوڑ دیا اور اس وقت تک باہر رہی جب تک کہ وہ میرے دفتر کوچھوڑ نہیں گئے۔ کیا ہو رہا ہے یہ سب، کیا سوچ رہے ہیں والدین؟ کیا بنانا چاہ رہے ہیں بچوں کو، کمپیوٹرز یا مشینیں؟ کیا تربیت کر رہے ہیں بچوں کی؟ میری آنکھیں نم ہونے لگیں…

اسی دن کی درمیانی شب… جب کہ میں نیند کی گہرائی میں تھی، میرے فون پر پیغام کی ٹون بجی، کروٹ بدل کر سونا چاہا مگر پھر ایک اور پیغام… کوئی ایمر جنسی نہ ہو، سوچ کر فون اٹھایا اور مندھی آنکھوں سے فون کو گھورا، ’’ سوری میڈم… ہمیں آپ کی بات کی سمجھ آ گئی ہے… علی کے والدین!!!!‘‘ میں نے مسکرا کر کروٹ بدلی اور جوابی پیغام ٹائپ کیا، ’’ Thank you for understanding my point of view!!!!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔