دوپہر میں نیند کی وجہ کھانا نہیں بلکہ دماغ ہے، تحقیق

ویب ڈیسک  پير 18 فروری 2019
دوپہر میں ہمارا دماغ خود آرام کرنا چاہتا ہے تاکہ کچھ دیر بعد پھر سے چاق و چوبند ہوجائے اور اپنی کارکردگی  بہتر رکھے۔ (فوٹو: فائل)

دوپہر میں ہمارا دماغ خود آرام کرنا چاہتا ہے تاکہ کچھ دیر بعد پھر سے چاق و چوبند ہوجائے اور اپنی کارکردگی بہتر رکھے۔ (فوٹو: فائل)

سڈنی: اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ دوپہر میں کھانا کھانے کی وجہ سے نیند آتی ہے تو اپنی غلط فہمی دور کرلیجیے کیونکہ آسٹریلوی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ہمارا دماغ اس نیند کی وجہ بنتا ہے چاہے ہمارا پیٹ بالکل خالی ہو اور ہمیں شدید بھوک ہی کیوں نہ لگ رہی ہو۔

دماغی عکس نگاری کی پیچیدہ اور حساس تکنیکیں استعمال کرتے ہوئے سوئنربرن یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، آسٹریلیا میں اعصابی ماہرین کی ایک ٹیم نے سراغ لگایا ہے کہ دن میں دوپہر 2 بجے کے لگ بھگ ہمارا دماغ انتہائی سست پڑا ہوتا ہے۔

البتہ دماغ میں پیدا ہونے والی یہ سستی اور کاہلی کسی کھانے کا نتیجہ ہر گز نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجہ وہ قدرتی حیاتیاتی گھڑی (بایولاجیکل کلاک) ہے جو ہمارے سونے جاگنے کے سارے معمولات کنٹرول کرتی ہے۔ واضح رہے کہ حیاتیاتی گھڑی ایک پیچیدہ قدرتی نظام کا نام ہے جسے طبّی زبان میں ’’سرکاڈیئن ردم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی نظام کی بدولت ہم دن میں جاگتے ہیں اور رات میں سوتے ہیں، صبح کا ناشتہ کرکے چاق و چوبند محسوس کرتے ہیں اور رات کے کھانے کے بعد ہمیں خود بخود ہی نیند آنے لگتی ہے۔

دماغ میں نچلی طرف موجود ایک حصے ’’پیوٹامن‘‘ میں ہونے والی سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ماہرین پر انکشاف ہوا کہ یہاں موجود وہ علاقے جن کا تعلق فیصلے کرنے، سیکھنے، توجہ مرکوز کرنے اور ایسے ہی دوسرے کاموں سے ہے، ان تمام علاقوں میں (مجموعی طور پر) تقریباً دوپہر 2 بجے سرگرمیاں انتہائی کم ہوتی ہیں۔

ان کم تر سرگرمیوں ہی کے باعث ہمارے اعصاب پر سستی طاری ہونے لگتی ہے اور ہمارا دل قیلولہ کرنے کو چاہنے لگتا ہے۔ بعض لوگوں میں یہ کیفیت اتنی شدید ہوتی ہے کہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی سو جاتے ہیں۔

چونکہ عام طور پر یہ دوپہر کے کھانے کے فوراً بعد کا وقت ہوتا ہے اس لیے یہ غلط فہمی عام ہے کہ شاید یہ کیفیت دوپہر کا کھانا کھانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ کچھ لوگ کام کے اوقات میں اس نیند سے بچنے کےلیے دوپہر کا کھانا ہی چھوڑ دیتے ہیں لیکن انہیں اس تدبیر کا بھی کوئی افاقہ نہیں ہوتا بلکہ وہ الٹا اپنی ہی طبیعت خراب کرلیتے ہیں۔

اگرچہ اب تک یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ سرکاڈیئن ردم میں دوپہر 2 بجے کا وقت وہ ہوتا ہے جب یہ نظام ہمارے دماغ کو آرام کرنے پر مجبور کرتا ہے تاکہ وہ تازہ دم ہوجائے دن کے باقی حصے میں اپنی کارکردگی برقرار رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ دوپہر میں کچھ دیر کا آرام کرنے والے لوگ رات کو سوتے وقت تک چاق و چوبند رہتے ہیں۔

اس مطالعے کی بنیاد پر ایک طرف یہ کہا جارہا ہے کہ کوئی بھی اہم فیصلہ دوپہر 2 بجے نہ کیجیے جبکہ دوسری جانب قیلولہ کی افادیت بھی ثابت ہوئی ہے کیونکہ دوپہر کو آرام نہ کرنے کی صورت میں بھی ملازمین کی کارکردگی پر برے اثرات پڑتے ہیں۔

یہ تحقیق اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’دی جرنل آف نیورو سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔