ایجاب و قبول

عبدالقادر حسن  منگل 29 اگست 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میرے جیسے پتھریلی زمینوں پر پلے بڑھے اور پتھروں کا سینہ چیر کر ان میں چھپے رزق حاصل کرنے والے ہمیشہ سے مانگے تانگے کی روزی کے باغی رہے ہیں ۔جنہوں نے اپنے رزق کے لیے عمر بھر پتھروں سے جنگ لڑی ہو ان کی کھوہ میں سے رزق تلاش کیا ہو، انھیں امریکا ہو یا دنیا کی کوئی اور طاقت گداگری پر کیسے آمادہ کر سکتی ہے۔روکھی سوکھی کھانے والے اور اسی میں عزت سمجھنے والے کسی دوسری دنیا کے باسی نہیں بن سکتے خواہ اس میں کس قدر زندگی کا لُطف کیوں نہ چُھپا ہو اور روزی حاصل کرنے میں کتنی ہی آسانی کیوں نہ ہو۔

پتھروں میں پلی بڑھی زندگی میں جو وقار ہے اور اس میں جس قدر خود سر قسم کی زندگی کی لذت ہے اسے ترک کر کے زندگی کا کوئی دوسرا انداز اپنانا ممکن ہی نہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے کبھی پتھروں کو ا س لیے پھُوڑا نہیں ہو گا کہ ان میں سے آپ کو غذا کا کوئی ایسا نرم ٹکڑا مل جائے جو چولہے کی آگ کے لیے آسان ہو اور اس آگ پر روٹی پکانے والے ہاتھ اس کی تپش کو برداشت کر سکیں۔

یہ ہے پتھروں پر پلنے والی زندگی کا ایک مزا جو کسی گرم باورچی خانے کی دولت سمجھی جاتی ہے اور جس کے حصول کے لیے مرد  پہاڑوں سے لکڑی کاٹ لاتے ہیں اور اس سے چولہے گرم ہوتے ہیں، ان چولہوں پر وہ روٹی پکتی ہے جو کھانے والوں کے جسم و جان میں پتھروں جیسی سخت زندگی اور نہ بجھنے والی حرارت پیدا کردیتی ہے، اس میں زندگی کی وہ جھلک ملتی ہے جو قدرت کا ایک عطیہ ہوتی ہے اور جو انسان کو بعض اوقات حیرت انگیز حد تک غیرت مند اور منہ زور بنا دیتی ہے ۔

ہفتہ 26 اگست کے پاکستانی اخباروں نے اپنی قوم کے دلوں میں اتر کر ان کی طرف سے ایک آواز بُلند کی ہے، ہمت ہے تو آپ بھی سُن  لیجیے۔ موجودہ حکومت کے ایک سر کردہ لیڈر شہباز شریف نے پنجابی محاورے میں گج وج کر امریکا سے کہا ہے کہ ہم آپ کے بہت شکر گزار ہیں لیکن اب ہمیں امداد نہیں چاہیے۔

امریکی امداد کے بارے میں مبالغہ آمیز تبصرے ، دہشت گردی اور غربت کی شکار پاکستانی قوم کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں ،کسی ملک کا حق نہیں کہ وہ پاکستانی عوام پہ ناروا الزامات لگائے ۔ باوقارقومیں اغیار کی طرف د یکھنے کے  بجائے اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرتی ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستانی عوام اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔

یہ الفاظ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے ہیں جو صوبہ چلا رہے ہیں۔ ایک مرد آہن کا مزاج رکھتے ہیں ۔ ان کی سیاسی تاریخ ان کی عزم و ہمت کی گواہ ہے، وہ جیل میں رہے تب بھی بہادری اور جرات کا نمونہ بن کر رہے اور اب جب خدا نے ان کو آزادی دی تب بھی یہ جرا ت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک کو ایسے ہی بہادر اور نڈر حکمرانوں کی ضرورت ہے جو عزت کی زندگی کو قومی زندگی سمجھیں ۔ جس زندگی میں عزت نہیں وہ کسی قوم کی زندگی کیسے بن سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میاں شہباز شریف جیل میں تھے تو کس بہادری سے جیل کی بند زندگی بھگت رہے تھے ۔ ٹیلی فون پر ان سے بات ہوتی رہتی تھی اور ان کی بہادری کے خیالات ہم باہر بیٹھے آزاد لوگوں کو اُکسایا کرتے تھے۔

میں ان کی ٹیلی فون پر گفتگو کو ایک محفوظ انسان کے نعرے سمجھا کرتا تھا لیکن وہ جب آزاد ہو کر باہر کی دنیا میں آئے تو کم و بیش ’قیدی‘ شہباز تھے لیکن کب تک ،قید کی ہوائیں اور باہر کی فضاؤں میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ میاں شہباز بھی ’باہر‘ کے ہو گئے اور باہر کی آزاد فضاؤں میں اُلٹ پُلٹ  باتیں کرنے لگے لیکن میرے جیسے ان کے مداحوں نے یہ سمجھا کہ اب وہ ایک ایسی قید میں ہیں جس کا رکھوالا ان کا بھائی ہے جو اپنے اقتدار کو ان کے نعروں کے سپرد نہیں کر سکتا۔

میاں شہباز ایک صلح جو انسان ہیں اور انھوں مشکل وقتوں میں اس کو ثابت بھی کیاہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکمران بھی ہیںاور ایک ایسے حکمران ہیں جن کے اقتدار کا عرصہ کافی لمبا ہے اور پنجاب میں انھوں نے اپنی دھاک بٹھائی ہوئی ہے اور اپنے اس طویل اقتدار کا کافی حد تک انھوں نے حق بھی ادا کیا ہے کہ ان گنت مسائل کا حل وہ کامیابی سے کر رہے ہیں ۔ ان کے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب پہلے دور اقتدار کے بارے میںکہا گیا کہ چونکہ ان کے بڑے بھائی وزیر اعظم ہیں اس لیے وہ آسانی اور سہولت کے ساتھ پنجاب پر حکمرانی کر رہے ہیں لیکن انھوں نے اپنے پچھلے دور حکومت میں اس بات کو بھی غلط ثابت کر دیا کہ اس وقت مرکز میں حکمرانی ان کے سیاسی مخالفین کی تھی اس کے باوجود انھوں نے دھوم دھڑکے کے ساتھ پنجاب پر حکمرانی کی اور ترقیاتی کاموں کا وہیں سے آغاز کیا جہاں پر وہ اپنے آخری اقتدار میں ان کو چھوڑ کر گئے تھے ۔ وہ ملکی مسائل کے لیے جب بھی بولتے ہیں دل سے بولتے ہیں اور ان کی بے باک باتیں دل میں اتر جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اپنی ان بے باک باتوں اور اپنے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے جن کا اعتراف ان کے بد ترین سیاسی مخالفین بھی کرتے ہیں وہ عوام میں مقبول بھی ہیں اور ان کو قبول بھی ہیں۔

بہر کیف دونوں بھائی ہم پنجابیوں کے حکمران ہیں اور عیش کر رہے ہیں، ایک اقتدار ہے اور دو بھائی اس کی ایک پنجابی محاورے کے مطابق دو دو گتیں کر رہے ہیں اور دونوں ان کے ہاتھ میں ہیں اور وہ ان سے کھیل رہے ہیں۔ یہ وہی دو گُتیں ہیں جو ایک جواں سال نے ماں سے کہی تھیں کہ میری سہیلیوں کی طرح میری بھی دو گُتیں کردے اور پھر یہ دو گُتوں والی فرمائش ایک پنجابی محاورہ بن گئی۔

زندگی ایسے ہی گزر رہی ہے اور آمدورفت کا یہ سلسلہ جاری ہے اور جب تک ہماری یہ سوسائٹی قائم رہے گی یہ سیاست بھی جاری رہے گی اور حکمران بھی آتے جاتے رہیں گے ۔ ہمارے معاشرے کو یہی قبول ہے اور اسی ایجاب و قبول میں زندگی گزر رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔